یہ نظام کیا اسی طرح چلتا رہے گا؟ آدم کی اولاد کیا یونہی بھٹکتی رہے گی؟ انصاف کی پکار کیا خلا میں آوارہ پھرتی اور صدائے بازگشت بن کر ہمارے در و دیوار سے ٹکراتی رہے گی۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
مایوسی حد سے گزر جائے تو دو طرح کے رویوں میں ڈھل جاتی ہے۔ ذہن غیر مذہبی ہو تو نظمِ کائنات ہی کو چیلنج کر دیتا ہے۔ وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے نہ یہ کسی حکمت کے تابع ہے۔ جزا و سزا کا کوئی نظام ہے نہ روزِ حساب۔ زندگی عالمِ اسباب کے ایک بے رحم کھیل کے سوا کچھ نہیں۔ انسانی معاشرہ طاقت وروں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور محروموں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ طاقت کے معرکے میں پاؤں کی دھول بن جائیں۔
ذہن اگر مذہبی ہو تو عالمِ اسباب سے ماورا حل تلاش کرتا ہے۔ کوئی پیش گوئی، کوئی خوش خبری، کسی مسیحا کا انتظار۔ حالات کی ایک مذہبی تعبیر، تاکہ نا انصافی اور ظلم کی کوئی ماورائے اسباب توجیہہ کی جا سکے۔ کوئی پیش گوئی جس پر ایمان لانے کے لیے یہی بہت ہے کہ وہ ماضی کی داستانوں کا حصہ ہے۔ اس کا مستند ہونا لازم نہیں۔ پھر لوگوں کو آس دلاتا ہے کہ یہ سب کچھ بدل جانے والا ہے۔ ایک مسیحا آئے گا اور انصاف کی صبح طلوع ہو جائے گی۔
اللہ نے کرم کیا کہ اپنی آخری کتاب کو محفوظ کر دیا۔ اپنے آخری رسولﷺ کو تاریخ کے روشن دور میں مبعوث کیا‘ جب علم کو محفوظ کرنا اور پیغمبرکے انفرادی اسوۂ کو اجتماعی زندگی اور روایت میں بدل دینا ممکن تھا۔ سنت کیا ہے؟ ایک ایسا انفرادی فعل جسے صحابہ اور پھر امت کے تواتر نے ایک اجتماعی عمل میں بدل ڈالا۔ نسلوں کا تامل اس پر گواہ بن گیا جس کو جھٹلانا عملاً محال ہے اور عقلاً بھی۔ مذہبی ذہن ان پر توجہ مرتکز کرتا تو اسے بنیادی سوال کا جواب مل جاتا۔ رہا غیر مذہبی ذہن تو قوموں کے عروج و زوال پر اُن لوگوں نے بہت کچھ لکھ ڈالا ہے‘ جنہوں نے اپنے تجزیے کی بنیاد انسانی تجربے اور مادی اسباب پر رکھی ہے۔ اس پر بھی کوئی غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ مذہب تاریخ کی ایک ما بعدالطبیعاتی تعبیر پیش کرتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے قربِ قیامت میں پیش آنے والے بعض واقعات کو بھی اپنے ارشادات میں بیان کر دیا ہے جو مستند ذرائع سے ہم تک پہنچے۔ لیکن اس کے ساتھ مذہب قوموں کے عروج و زوال کو بڑی حد تک سماجی حقائق، اصولِ ارتقا اور انسانی رویے سے بھی متعلق کرتا ہے۔ کوئی قوم مادی اور اخلاقی سطح پر جب ایک برتری حاصل کر لیتی ہے تو دنیاوی اعتبار سے برتر ٹھہرتی‘ اور عالمی قیادت کی مستحق بن جاتی ہے۔ مذہب کا یہ امتیاز بھی پیشِ نظر رہے کہ وہ کامیابی کو اس دنیا سے نہیں، آخرت سے متعلق کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ذہن پیدا ہوتا ہے، وہ اس سے مختلف ہوتا ہے جو کامیابی اور ناکامی کو اس دنیا تک محدود کرتا ہے۔
مثال کے طور پر کسی معاشرے میں استحکام کیسے آتا ہے؟ انسانی تجربہ یہ ہے کہ وہی حکومت کامیاب اور مؤثر ہوتی ہے جن کی جڑیں عوام میں ہوں۔ اگر خلقِ خدا خوش ہے اور اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ جب چاہے اپنے حکمران بدل ڈالے تو اس میں اضطراب کی سطح وہ نہیں ہوتی جو جبر کی بنیاد پر قائم معاشروں میں ہوتی ہے۔ جہاں حکمران عوام کی نمائندگی نہ کرتے ہوں اور عوام بادلِ نخواستہ انہیں برداشت کر رہے ہوں، وہاں کبھی سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔ انسانی تجربہ اور مذہب، دونوں اس اصول کو بیان کرتے ہیں۔ مذہب اور عقل‘ دونوں کا تقاضا ہے کہ اسے مان کر نظام تشکیل دیا جائے۔
خلافتِ راشدہ کے بعد مسلم دنیا برسوں اضطراب کا شکار رہی۔ غالباً اس کا آغاز خلافتِ راشدہ ہی میں ہو گیا تھا جب سیدنا عثمانؓ کے خلاف ایک تحریک اُٹھا دی گئی تھی۔ تاریخ کے اس باب کو پڑھیے تو ساری بحث غیر مذہبی دائرے میں ہو رہی ہے۔ اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ معترضین کا مؤقف سیاسی ہے اور خلیفۂ وقت بھی سیاسی حل کی بات کر رہے ہیں۔ کوئی پیش گوئی سنا رہا ہے اور نہ کوئی مذہبی دلیل پیش کر رہا ہے۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت سے جو فتنہ برپا ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوئیں۔ ان جنگوں کے اسباب اور اس پسِ منظر میں کہیں کوئی مذہبی دلیل بیان نہیں ہوئی۔
اسلام کے دورِ اول میں لوگ عالم اسباب کی روشنی میں واقعات کی توجیہہ کرتے تھے۔ کوئی دینی دلیل پیش کرے تو دینی ذرائع سے جواب دیتے تھے‘ جو آج ہمیں بھی میسر ہیں۔ کوئی خواب نہ کوئی الہام۔ کوئی حد سے بڑھے تو اسے آخرت میں جواب دہی کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ وہی یاد دھانی کہ انسان اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے۔ رہے واقعات تو ان کا تعلق اس وقت بھی عالمِ اسباب سے تھا‘ اور آج بھی عالمِ اسباب سے ہے۔
پاکستان کو اگر حالات کی گرفت سے نکلنا ہے تو اس کے لیے وہی راستہ ہے جس پر چل کر اقوامِ عالم نے اپنے مسائل حل کیے ہیں۔ علمِ نافع اور جہدِ مسلسل۔ نافع علم وہی ہے جو اخلاقی اور مادی ترقی کے راستے کھولے۔ اخلاقی ترقی اللہ کی کتاب اور اسوۂ پیغمبر کے علم میں ہے اور مادی ترقی طبیعیاتی علم (Natural Sciences) میں۔ ہمارا رشتہ دونوں سے کمزور ہے۔
ایک مدت ہوئی کہ دین کا تعلق تعمیرِ اخلاق سے ٹوٹ چکا۔ اب مذہب ہمارے لیے ایک عصبیت ہے، ہمارے گروہی مفادات کا محافظ ہے‘ یا ایک سیاسی نعرہ۔ طبعی علوم میں ہماری دلچسپی برائے نام ہے۔ یہ المیہ صرف پاکستان کے ساتھ خاص نہیں۔ مسلم نفسیات ہی کچھ ایسی بن چکی کہ وہ حقیقی مسائل کے ادراک کے قابل نہیں رہی۔ اگر کوئی اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرے تو معاشرہ اسے اُگل دیتا ہے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ ہماری ذہانتیں باہر جاتی ہیں تو ان کے جوہر آشکار ہوتے ہیں۔ یہاں رہتی ہیں تو کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتیں۔
دنیا میں انسانی تجربے نے بعض صداقتوں پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ایک یہ کہ مستحکم معاشرے وہی ہوتے ہیں جو جمہوری ہوں۔ جہاں عوام کی رائے سے فیصلے ہوتے ہوں اور معاملات اہل لوگوں کے سپرد کیے جاتے ہوں۔ معاشی ترقی وہیں ممکن ہے جہاں علمِ نافع ہو اور لوگ محنت پر آمادہ ہوں۔ سماجی ترقی وہیں ہو سکتی ہے جہاں آزادیٔ عمل ہو اور عوام کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے مواقع میسر ہوں۔
پاکستان ان اصولوں سے انحراف کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ اہلِ مذہب کے تجزیے کی بنیاد کتاب اللہ کی تفہیم پر ہے نہ تاریخی عمل کے شعور پر۔ مذہب کا کام تزکیہ نفس نہیں، ایک سیاسی عصبیت پیدا کرنا ہے۔ غیر مذہبی لوگ بھی روزمرہ واقعات سے آگے نہیں دیکھ رہے۔ ہم سب اُن باتوں میں الجھے ہوئے ہیں، تاریخ کے وسیع تر تناظر میں جن کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ حکمران بزدار صاحب پر اصرار کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں سے محقق کے بجائے مذہبی جماعتوں کے کارکن پیدا ہوتے ہیں۔ نہ جمہوریت نہ علمِ نافع۔ جدوجہد کی ہمیں ویسے ہی عادت نہیں۔
کوئی نظام کتنی دیر ان بنیادوں پر چل سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ستر سال سے تو چل رہا ہے۔ اس بات سے اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک چلتا ہوا نظام مان لیا جائے۔ اس کے ساتھ انسان کے سماجی ارتقا کی نفی بھی لازم ہے۔ دنیا کھلے معاشرے کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم بند معاشرے کی طرف۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ترقی ہو گی۔