نواز شریف صاحب نے کیا کوئی مختلف بات کہی تھی؟
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی، جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
پیر کے روز سب اخبارات کی سرخی یا شہ سرخی کالعدم تنظیموں کے بارے میں تھی۔ یہ ریاست کے فیصلے کا بیان تھا، جس کی مزید شرح، منگل کو وزیر مملکت برائے داخلہ نے بھی کر دی۔ یہ تنظیمیں، اب ریاستی اداروں کی سطح پر اتفاق ہو گیا کہ قومی مفادکے لیے بے حد نقصان دہ ہیں۔ ایک مہذب ریاست اپنی زمین پر ان کا وجود گوارا نہیں کر سکتی۔ سابق وزیر اعظم نے بھی تو یہی کہا تھا۔ ان کا سیاسی مستقبل ہو نہ ہو، اُن کا ایک سیاسی ماضی تو ہے۔ یہ ماضی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جزو لا ینفک ہے۔ سیاسی سطح پہ انہوں نے سب سے پہلے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ گلیوں بازاروں میں مذہب کے نام پر تشدد پھیلاتی تحریکیں اور جماعتیں پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ریاست کو ان سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ بات تو کسی طور گوارا نہیں ہونی چاہیے کہ ریاست پر ان کی سرپرستی کا الزام لگے۔ افسوس کہ کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس بات پر انہیں مطعون کیا گیا اور الزامات سے نوازا گیا۔
یہ سابق وزیر اعظم ہی تھے جنہوں نے 2014ء میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا اور پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے سابقہ پالیسی پر نظر ثانی کی۔ انہوں نے سب ریاستی اداروں اور قومی سیاسی جماعتوں کو جمع کیا۔ نیشنل ایکشن پلان دیا۔ آج حکومت کے جن اقدامات پر چاروں طرف سے تحسین برس رہی ہے، یہی قدم جب انہوں نے اٹھائے تو ان پر مذمت برسنے لگی۔ میں اسے قومی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ آج جب سابق وزیر اعظم کی پالیسی پر لوگ داد وصول کر رہے ہیں تو انہیں یاد کیا جائے۔ وہ جو اس وقت جیل میں مرض ہی سے نہیں، معلوم نہیں کس کس سے لڑ رہے ہیں۔
ایک ہی فیصلہ، دو مختلف اوقات میں کیا جائے تو دونوں کا معاملہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ طوفان سے بچاؤ کا ایک فیصلہ وہ ہوتا ہے جو طوفان آنے سے پہلے کیا جائے۔ ایک تب جب طوفان آپ کا گھیراؤ کر لے۔ دونوں فیصلے یکساں ہونے کے باوجود، فیصلہ سازوں کی بصیرت کے بارے میں دو مختلف آرا تک پہنچاتے ہیں۔ نواز شریف کا معاملہ عجیب ہے۔ انہوں نے ایک فیصلہ اس وقت کیا جب کارگل کا طوفان آ چکا تھا۔ دوسرا فیصلہ اس وقت جب نیا طوفان ہمارے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ دونوں بار انہیں مطعون ٹھہرایا گیا۔
تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے کسی فرد کا مروجہ معنوں میں بڑا ہونا ضروری نہیں۔ تاریخ اُسے یاد رکھتی ہے جو بڑے فیصلے کرتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے کئی بڑے فیصلے کیے۔ واجپائی کو مینارِ پاکستان پر لا کھڑا کیا۔ ایٹمی دھماکے کئے۔ کارگل کے عذاب سے نجات دلائی۔ غیر ریاستی مسلح جدوجہد کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھایا۔ اس باب میں وقت کا انتخاب بھی بہت اہم ہے‘ جو تاریخ خود کرتی ہے۔ یہ تاریخ کا انتخاب ہے کہ جب پاکستان کو ان امور میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا تھا تو وہ وزیر اعظم تھے۔ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ بھی شاید یہی فیصلے کرتا۔
اس مفروضے کو مان لینے کے باوجود، میرا احساس ہے کہ جو کریڈیٹ تاریخ کسی کو دے دے، کوئی کسی منطقی تاویل سے، اس کے اعزاز کو چھین نہیں سکتا۔ تاریخ میں وہ اسی سے منسوب رہتا ہے۔ بھٹو صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عام آدمی کو زبان دی۔ واقعہ یہ ہے کہ اُس وقت دنیا میں جو جمہوری تبدیلی آ رہی تھی، اس کے بعد جو بھی سیاسی افق پر ہوتا، یہی کرتا۔ شیخ مجیب الرحمن نے یہی کیا۔ اس سے پہلے ایوب خان کے خلاف جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعت کھڑی ہوئی اور اس نے جمہوریت کا مقدمہ لڑا۔ کریڈٹ لیکن بھٹو صاحب کو دیا جاتا ہے۔
آج ملک کے وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ پاکستان نے ایک بحرانی دور میں اپنا اخلاقی اور عسکری دفاع کیا۔ دونوں محاذوں پر پاکستان کو برتری ملی۔ اس حکمت عملی کا فیصلہ جہاں بھی ہوا، کریڈٹ عمران خان کو ملا۔ انہوں نے بھی اپنا کردار اچھی طرح نبھایا۔ آج اگر کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ تاریخ اسی طرح بنتی ہے۔ کسی کی خواہش سے اس کے صفحات غائب کیے جا سکتے نہ اپنی مرضی سے شامل کیے جا سکتے ہیں۔
تاریخ کا جبر امرِ واقعہ ہے۔ بہت سی باتیں بادلِ نخواستہ تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مصدقہ تاریخ جب لکھی جائے گی تو بھٹو صاحب کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اسلامائزیشن کا ذکر ہو گا تو ضیا الحق صاحب کا ذکر ناگزیر ہے۔ کرکٹ کی تاریخ عمران خان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو ایک پرامن اور ترقی کے لیے سازگار ملک بنانے کا سہرا سابق وزیر اعظم کے سر رہے گا۔ تاریخ کا انکار کیا جا سکتا ہے نہ اس کو بدلا جا سکتا ہے۔
منقسم معاشروں میں معروضیت نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ کوئی تقسیمِ ہند کو درست فیصلہ نہ سمجھتا ہو۔ لیکن وہ قائد اعظم کی عظمت کا انکار کیسے کر سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ کوئی تقسیم کو درست سمجھتا ہو مگر وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے علم و فضل کا منکر کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں لیکن یہی ہوتا ہے۔ یہ بات قابل قبول نہیں ہوتی کہ کوئی آدمی بیک وقت قائد اعظم اور مولانا آزاد کو پسند کرتا ہو۔ یا کم از کم جزوی طور پر ان کی عظمت کو مانتا ہو۔ ہمارے ہاں جمعیت علمائے ہند کی روایت کے لوگ قائد اعظم کی عظمت کو کم ہی مانتے ہیں‘ اور مسلم لیگ کا پس منظر رکھنے والے مولانا حسین احمد مدنی کو ایک بڑی شخصیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔
آج جب رواداری اور برداشت کی بات ہو رہی ہے تو اس کی کوئی جھلک قومی سیاست میں بھی دکھائی دینی چاہیے۔ بھارت کے ساتھ جس بردباری کا مظاہرہ ہو رہا ہے، سب سے پہلے اس کے مستحق اپنی قوم کے لوگ ہیں۔ رواداری، برداشت، تحمل، یہ سب اقدار ہیں۔ اقدار سے وابستگی استثنائی نہیں ہوتی کہ ایک سے رواداری رکھی جائے اور دوسرے کو مستثنا کر دیا جائے۔ تاریخ ہر عمل کو محفوظ کر رہی ہے۔ تضادات کو نمایاں کرنے میں بھی تاریخ سے زیادہ بے رحم کوئی نہیں ہے۔
آج پاکستان کی ریاست اگر ایک معاملے میں درست موقف پر کھڑی ہے تو یہ نیک شگون ہے۔ ریاست کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ کسی واقعے کے پس منظر میں نہیں کیا گیا‘ بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی رائے ہے جو پہلے ہی اختیار کی جا چکی تھی۔ میں اسے مان لیتا ہوں۔ لیکن پھر اس کی تاریخ بتانا پڑے گی کہ ایسا کب سوچا گیا۔ پھر یہ بھی بتانا ہو گا کہ وہ کون تھا جس کے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں نیشنل ایکشن پلان بنا تھا۔
سوال تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن اٹھائے نہیں جا سکتے۔ جس حد تک سوال اٹھائے جا سکتے تھے، میں نے اٹھا دیے۔ دیگر سوالات بین السطور تلاش کیے جائیں۔ میں نے خادم حسین رضوی صاحب کے ذکر سے بھی گریز کیا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ تاریخ کا بیان ہمارے انتخاب کا معاملہ نہیں۔ ہم اگر بیان نہیں کر یں گے تو کوئی اور کر دے گا۔
مولانا مودودی نے 'خلافت و ملوکیت‘ لکھی تو بھونچال آ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تاریخ سے اپنے پسندیدہ اوراق کو الگ نہیں کیا بلکہ جس جس صفحے پر جو جو لکھا تھا، اسے نقل کر دیا۔ اس پر بات ہو سکتی ہے کہ جو پہلے سے لکھا ہوا تھا، وہ کتنا درست ہے لیکن مولانا نے اسے دیانت کا تقاضا سمجھا کہ سب کچھ نقل کر دیا جائے۔ اعتراضات پر ان کا ایک جواب یہ بھی تھا کہ اگر اپنی تاریخ ہم خود نہیں لکھیں گے تو اغیار یہ کام کریں گے۔ اس سے پہلے کہ دوسرے لکھیں، ہمیں خود اپنی تاریخ درست صورت میں بیان کر دینی چاہیے تاکہ اغیارکے لکھے پر شرمندگی نہ ہو۔
عرض بس اتنی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدامات کی داد ضرور وصول کریں لیکن ساتھ تاریخ کی حرمت کا بھی خیال رکھیں۔ نواز شریف تاریخ کا گم شدہ ورق نہیں ہے۔