سیاسی فیصلے حالاتِ حاضرہ کے تابع ہوتے ہیں۔ ''حالاتِ حاضرہ‘‘ مگر ماضی اور مستقبل سے جڑے ہوتے ہیں۔ ماضی سے اس لیے کہ عبرت حاصل ہو۔ مستقبل سے اس لیے کہ ان فیصلوں کے اثرات آنے والے وقت کو محیط ہوتے ہیں۔
نوے برس پہلے، اس خطے کے ''حالاتِ حاضرہ‘‘ یہ تھے کہ مسلمانوں کو اپنی شناخت خطرات میں گھری دکھائی دی۔ ''شناخت‘‘ ہم جانتے ہیں کہ کسی گروہ میں پیدا ہونے والا وہ اجتماعی احساس ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔ گویا شناخت کے لیے کسی ''دوسرے‘‘ (other) کا ہونا ضروری ہے۔ ہندوستان میں اہلِ اسلام کے لیے یہ ''دوسرا ‘‘ ایک نہیں دو تھے۔ ایک انگریز جن کا خیال تھا کہ مسلمان ان کے خلاف سیاسی اور تہذیبی حوالے سے مزاحمتی سوچ رکھتے ہیں۔ دوسرے‘ ہندو جن کی عددی برتری مسلم تہذیبی وجود کے اظہار کے لیے ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ مسلمان مضطرب رہتے تھے اور انہیں سکون کی تلاش تھی۔
علامہ اقبال نے اس اضطراب کی فکری تشکیل کرتے ہوئے، اس کا ایک حل تلاش کیا۔ مفکر یہی کرتا ہے۔ وہ ''حالاتِ حاضرہ‘‘ کو اپنے نظامِ فکر کے سیاق و سباق میں دیکھتا اور اپنے فہمِ سماج اور تاریخ کی روشنی میں اس کا تجزیہ کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں یہی وظیفہ سرانجام دیا۔ ایک طرف انہوں نے بتایا کہ سیکولرازم مسلم تہذیبی شناخت کو درپیش خطرے کا مداوا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام تہذیبی و سیاسی دائروں میں بھی اپنا ایک نقطہ نظر رکھتا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے واضح کیا کہ ہندو اکثریت کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کا کوئی تصادم نہیں۔ اصل مسئلہ سماجی ہے جو ہندو مذہب کے ایک خاص سماجی ظہور ''برہمن ازم‘‘ کی عطا ہے۔ یہ تصور سماج کو طبقات میں تقسیم کر دیتا ہے۔ یوں اس کی موجودگی میں خود ہندو ایک قوم نہیں بن سکتے کجا یہ کہ مسلمان بھی اس قومیت کا حصہ بن سکیں۔
اس کا حل، ان کے خیال میں یہ تھا کہ ہندوستان کو اس طرح جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کر دیا جائے کہ مسلم اکثریتی علاقے کا نظم و انصرام مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہو تاکہ وہ اپنے تہذیبی وجود کا اظہار کر سکیں۔ اس سے کسی دوسری تہذیب یا مذہب کے ساتھ تصادم کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔ یہ پرامن بقائے باہمی کا تصور تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی اکثریت نے اس سے اتفاق کر لیا۔ 23 مارچ کی قرارداد اس اتفاق کا سیاسی اظہار تھا۔ مسلم اکثریت کی یہ ذمہ داری مسلم لیگ کی قیادت کو سونپی گئی کہ وہ اس خیال کو واقعہ بنانے کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دے۔ قائد اعظم کی قیادت پر بھی اتفاق کر لیا گیا۔ اس سوچ کو ابلاغ کے لیے ''دو قومی نظریہ‘‘ کہا گیا۔ عامۃ الناس نے اسے اچھی طرح سمجھ لیا۔
پاکستان بن گیا۔ اب ''حالاتِ حاضرہ‘‘ بدل گئے۔ مسلمان اقلیت سے اکثریت میں بن گئے۔ وہ حالاتِ حاضرہ ماضی بن گئے جنہوں نے دو قومی نظریے کو وجود بخشا۔ مسلمانوں کے تہذیبی وجود کو اب کسی داخلی خطرے کا سامنا تھا نہ خارجی خطرے کا۔ وہ ''دوسرا‘‘ اب کہیں نہیں تھا جو کسی تہذیبی شناخت کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ اب اصلاً مادی بقا کا چیلنج درپیش تھا۔ ہمیں وہ اسباب و آلات فراہم کرنے تھے جو ہمارے مادی وجود کی بقا کے ضامن ہوتے۔ ''حالاتِ حاضرہ‘‘ اب ایک نئی حکمتِ عملی کا تقاضا کر رہے تھے۔
حالاتِ حاضرہ بدل جانے کے بعد، اب لازم تھا کہ مسائل کی نوعیت بھی بدل جاتی۔ ہمارے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ مسائل کی نوعیت تو بدل گئی مگر ہم اس کا ادراک کر نہ سکے۔ ہم بدستور تقسیمِ پاکستان سے پہلے کی فضا میں جیتے رہے۔ اب ہمیں کسی تہذیب یا مذہب کو درپیش مسائل پر غور کرنے کے بجائے ایک نو مولود ریاست کے مسائل پر غور کرنا اور اس کی سلامتی کو یقینی بنانا تھا۔ تہذیبی وجود کو درپیش خطرات کا تو تقسیم نے تدارک کر دیا۔ انگریز رہے نہ ہندو اکثریت۔ اب تو ہمیں مادی بقا کے ساتھ ایک نئے فکری پیراڈائم کی بھی ضرورت تھی۔ اب اصل سوال یہ تھا کہ ہم ایک ایسا سیاسی نظام کیسے قائم کر سکتے ہیں، جو ہماری تہذیبی شناخت کا پرتو ہونے کے ساتھ ہمارے مادی استحکام کا بھی ضامن ہو۔
مسلمانوں کی حیثیت اب ایک اور پہلو سے تبدیل ہو رہی تھی۔ وہ اب اکثریت میں تھے لیکن ان کے ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی آباد تھے جو غیر مسلم تھے۔ یہ تعداد کم نہیں تھی، کم و بیش آبادی کا بائیس فی صد تھی۔ گویا اب ہماری آزمائش یہ تھی کہ بطور اقلیت، ہم متحدہ ہندوستان میں جن حقوق کی بات کر رہے تھے، کیا یہاں ہم اپنی اقلیتوں کو وہ حقوق دینے پر آمادہ ہیں؟
سیاست میں متحرک علما کا اندازِ نظر، اگرچہ قدیم ہی تھا لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ نیا دور قومی ریاستوں کا دور ہے۔ اب خلافت کا احیا شاید ممکن نہیں؛ تاہم وہ اپنے رومان کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے شعوری کوشش کی کہ ایک 'نظریاتی ریاست‘ کو 'قومی ریاست‘ کا لباس پہنا دیا جائے۔ قراردادِ مقاصد، بائیس نکات اور پھر 1973ء کا آئین، ان کوششوں کی داستان ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ ایک ' نظریاتی ریاست‘ کے پیکر کے لیے' قومی ریاست‘ کا لبادہ موزوں نہیں۔ کانٹ چھانٹ کے باوجود، صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیرہن اس قامت کے لیے مناسب نہیں۔ آج بھی '' پیغامِ پاکستان‘‘ جیسی دستاویز پیش کی جاتی ہیں تاکہ قومی ریاست اور نظریاتی ریاست میں تطبیق پیدا کی جا سکے۔
علامہ اقبال کو سب سے پہلے اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ فکر و فلسفے کی دنیا کے باسی تھے۔ قائد اعظم ایک شعوری مسلمان ہونے کے باوجود اس سیاسی ارتقا کو سمجھتے تھے جو قدیم مسلم فکر کے لیے ایک چیلنج بن چکا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اپنی 11اگست 1947ء کی تقریر میں انہوں نے بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان کو کن خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ انسان کے اجتماعی تہذیبی سفر سے بچھڑ کر، کوئی قوم اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس کا درست طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس سفر کا مسافر بن کر اپنی شناخت کو یقینی بنائے۔
علامہ اقبال کے مطابق جمہوریت ناگزیر ہے؛ البتہ ہمیں ''روحانی جمہوریت‘‘ کی طرف بڑھنا چاہیے۔ میرے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر نظام کو اپنی بقا کے لیے ایک نظامِ اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم اس کے لیے سیکولر اخلاقیات کے بجائے، مذہبی اخلاقیات کو پاکستان کی سیاسی نظام کی بنیاد بنانا چاہتے تھے۔
موجودہ کشمکش یہ بتا رہی ہے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسی نفسیاتی کیفیت میں رہے جو تقسیم سے پہلے کی تھی۔ بلکہ ستر برس بعد بھی اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ آج بھی اساسِ پاکستان اسی طرح خطرے میں ہے جیسے 1947ء میں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی اقلیتوں کو آج بھی اکثریت سے وہی گلہ ہے جو متحدہ ہندوستان کی اقلیتوں کو اکثریت سے تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق صاحب آئے دن ہمیں تذکیر کرتے ہیں کہ حکومتِ وقت سے ملک کے نظریاتی تشخص کو خطرہ ہے۔ آج کے 'حالاتِ حاضرہ‘ وہی ہیں جو ستر برس بلکہ نوے برس پہلے تھے۔ یہ حضرات اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ انگریز چلے گئے مگر اپنی معنوی اولاد کو ہم پر مسلط کر گئے۔
میرا احساس ہے کہ جب تک ہم بدلتی صورتِ حال کا ادراک نہیں کریں گے، ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پاکستان بن چکا۔ انگریز رخصت ہو چکا۔ مسلمان اب اقلیت میں نہیں، اکثریت میں ہیں۔ ہمیں اس کے بعد کا سوچنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کی اسیری سے آزاد ہوں۔ ماضی عبرت کے لیے ہوتا۔ سیاسی فیصلے ہمیشہ حالاتِ حاضرہ کے تابع ہوتے ہیں‘ جن میں مستقبل کے امکانات کو پیشِ نظر رکھا جا تا ہے۔