عمران خان جب مہاتیر محمد کوآئیڈلائز کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔مجھے گمان ہوتاہے کہ انہوں نے مہاتیر محمد کی شہرت سن رکھی ہے‘ مگر ان کے سیاسی افکاراورحکمت ِعملی سے پوری طرح واقف نہیں۔دورِ جدید کا کامیاب اقتصادی نظام ایک ہی ہے:سرمایہ داری۔کیپیٹل ازم ۔یہ تحسین یا تائید نہیں‘ محض امرِواقعہ کا بیان ہے۔ہم اس کی عالمگیر کامیابی کو سازش قرار دے کرشکست خوردہ ذہنیت کی تسکین کا سامان تو کر سکتے ہیں‘اس سے گریز نہیں کر سکتے۔دورِ جدید میں ا س کا کوئی متبادل سامنے نہیں آ سکا۔بیسویں صدی میں اشتراکیت نے متبادل دینے کی کوشش کی‘ لیکن اسے بالآخر سرمایہ داری کے سامنے سر جھکانا پڑا۔سوویت یونین سے چین تک اس کی مثالیں بکھری ہوئی ہیں۔اب یہ جتنی تلخ کیوں نہ ہو‘بہر حال ایک حقیقت ہے۔
کتابی باتیں کی جا سکتی ہیں‘ کاغذی گھوڑے دوڑانے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ اس کا متبادل یقیناً موجود ہے۔سچ‘ لیکن یہ ہے کہ دنیا کاکو ئی ملک اس کی کوئی مثال سامنے نہیں لا سکا۔اس عہد میں جس ملک نے بھی ترقی کی ‘اس نے اسی سرمایہ دارانہ ماڈل سے فائدہ اٹھا یا ہے۔اگر کہیں سے کوئی نیا تصور آیا بھی تو اس نظام نے ا سے گود لے لیا۔اشتراکیت کی تحریک نے ویلفیئر ریاست پہ اصرار کیا توکیپیٹل ازم نے اسے اپنا لیا۔مسلمان حلقوں کی طرف سے بلا سود بینکاری کی بات ہوئی تو اس نے ایسے بینک متعارف کرا دیے‘ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سود کا کاروبار نہیں کرتے۔
ملائیشیا نے بھی مہاتر محمد کی قیادت میں اسی ماڈل کو اپنا یا۔ان کا مغربی ممالک کے ساتھ اگر کوئی اختلاف ہوا تو وہ معاشی نظریات کے میدان میں نہیں تھا۔یہ ایک نظام کے تحت بروئے کار آنے والے نظام ہائے معیشت کے مفادات کاباہمی تصادم تھا۔اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے بہتر انداز میں اپنے ملک کے مفادات کا دفاع کیا اور یوں اپنے عوام کی داد سمیٹی۔یقیناً اس سے ملائیشیا کے وقار اور ساکھ میں بھی اضافہ ہوا۔سرمایہ دارانہ نظام کا دنیا میں کوئی ایک ماڈل نہیں ہے۔مہاتیر محمد جس ماڈل کے قائل ہیں‘ اس میں بڑے انفراسٹرکچر کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔موٹر ویز‘ میٹروز اور تجارت کے بڑے بازار(Shopping malls) کو اس ماڈل میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس کے پس منظر میں یہ تصور کار فرما ہے کہ ایک بڑا انفراسٹرکچرسر مایے کو متوجہ کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔سرمایہ اسی جانب رخ کرتا ہے‘ جہاں اسیپنپنے کے مواقع اورآسانی میسر ہو۔سرمایہ دارکے لیے ایک آسودہ ما حول ہو جواس کے لیے راحت کا سامان لیے ہوئے ہو۔اس کے لیے ماحول کا ایک حد تک سیکولر ہو نا ضروری ہے۔شدت پسند معاشروں یا ‘مذہبی بندشوں میں جکڑے کسی ملک میں یہ نظام ِ معیشت نتائج نہیں دے سکتا۔دبئی اس کی ایک مثال ہے۔یہ عرب کلچر سے بالکل مختلف ایک دنیا ہے‘ جو سرمایے اور سرمایہ دار کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔سعودی عرب میں بھی اس کا تجربہ کیا جا رہا ہے اور تمام لوازمات کے ساتھ۔ ملائیشیامیں بھی وہ ماحول فراہم کیاگیا ‘جو سرمایے کے لیے سازگار ہے۔
عمران خان اس ماڈل کے سخت خلاف رہے ہیں۔یہ ماڈل در اصل وہ ہے‘ جو نوازشریف صاحب نے اختیار کیا تھا۔یوں ا س باب میں مہاتیر محمد‘ عمران خان صاحب سے نہیں‘نوازشریف صاحب سے قریب تر ہیں۔عمران خان بڑے انفراسٹرکچرکے خلاف ہیں۔ وہ بار ہا کہہ چکے کہ قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں۔میٹروز جیسے منصوبوں پر انہوں نے ہمیشہ تنقید کی اور انہیں غیر ضروری قرار دیا۔وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ قومی ترقی کا انحصار‘انسانی وسائل کی ترقی پر ہے‘ لہٰذا وسائل کو صحت اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کرنا چاہیے‘ نہ کہ سڑکوں اور میٹروزپر۔قوم صحت مند اور تعلیم یافتہ ہو گی تو پھریہ اثاثہ ترقی کی بنیاد بنے گا۔
مہاتیر محمد جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے سرمایہ دار کو متوجہ کرنے کے لیے اعلان کیاکہ وہ کوالالمپور میں دنیا کی سب سے بلند عمارت تعمیر کریں گے۔کہا جاتا ہے کہ یہ ان منصوبوں میں سے ہے جو انور ابراہیم کے ساتھ ان کے اختلافات کی بنیاد بنے۔انور ابراہیم ان کے وزیر خزانہ اور نائب وزیراعظم تھے۔ان کاکہنا تھا کہ ملائشیا کی معیشت اتنے بڑے منصوبوں کی متحمل نہیں ہو سکتی اور یہ وسائل کے استعمال کی درست ترجیح نہیں ہے۔ ان کی یہ مخالفت مہاتیر محمد کے دل کی گرہ بن گئی۔مہاتیر محمد کی طبیعت نے اس اختلاف کوذاتی دشمنی میں بدل ڈالا۔مہاتیر نے انور ابراہیم کی سیاسی موت کا پورا سامان کیا۔عدلیہ کو ان کے خلاف استعمال کیا اور وہ سزایافتہ ہوکر‘ طویل عرصے کے لیے حوالۂ زنداں ہو گئے۔وہ سخت جان ثابت ہوئے اورآج ملائیشیا کی سیاست ایک بار پھر انور ابراہیم کے گرد گھوم رہی ہے۔یہ نیرنگیٔ سیاست ہے کہ ایوان ِاقتدارمیں مہاتیرمحمد کا نزول ثانی انوار ابراہیم کی سیاسی تائید کا نتیجہ ہے۔وہ انور ابراہیم کی جماعت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں‘مختصر مدت کے لیے وزیراعظم بنے ہیں۔انہیں انور ابراہیم کے لیے جلد ہی یہ منصب خالی کر نا ہے۔
مہاتیر محمد کی سیاست کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میںکرپشن کے الزامات کی زد میں رہے۔آج ان کے خاندان کا شمار ملائیشیا کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ان کا بیٹا وہاں کے دس امیرترین افراد میں شامل ہے۔ان کے بیٹوں اورپوتوں کا اندازِ زندگی‘کہا جاتا ہے کہ سعودی شہزادوں کی طرح ہے۔لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟بینک نگارا کے فوریکس سکینڈل کی صدائے بازگشت آج بھی سنی جا رہی ہے۔ ان الزمات کے باوجود‘امر واقعہ یہ ہے کہ وہ جدیدملائیشیا کے معمار ہیں اور اپنے بائیس سالہ اقتدار میں انہوں نے اپنے ملک کو ایک بڑی اقتصادی قوت بنا دیا۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ معاشی ترقی اور کرپشن کا باہمی تعلق کیا ہے۔
مہاتیر نے اپنے دورِحکومت میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ملائیشیا کو ایک بڑی معاشی قوت بنایا۔ان پر آمر ہونے کے الزامات لگتے رہے‘ لیکن اقتصادی میدان میں ان کی کارکردگی نے انہیں عوام کی امید بنائے رکھا۔عوام نے انہیں مسلسل ووٹ دیے ۔وہ کئی سال عملی سیاست سے دور رہے‘ لیکن حالات نے انہیں ایک بار پھر ملائیشیاکا وزیراعظم بنا دیا۔معاہدے کے تحت‘انہیں یہ منصب انور ابراہیم کے لیے خالی کرناہے ‘لیکن ان کے بعض مخالفین ابھی سے کہنے لگے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔اس پس منظر میںمہاتیر محمد کے اقتصادی ماڈل اورسیاسی کارگردگی کا موازنہ نوازشریف سے تو کیا جا سکتا ہے‘ عمران خان سے نہیں۔ایک بات البتہ دونوں میں مشترک ہے۔مہاتیر محمد نے بھی اپنی انتخابی مہم میں کرپشن کا نعرہ استعمال کیا۔اس میں ان کو کامیابی ہوئی‘تاہم مہاتیر محمد پر کٹھ پتلی ہونے کا کوئی الزام نہیں کہ وہاں کی سیاست‘جوہری طورپر پاکستان سے مختلف ہے۔
ان اسباب سے میں کبھی نہیں جان سکا کہ عمران خان کے لیے مہاتیر محمد میں کیا کشش ہے؟کیا ان کی کارکردگی؟ اگر ایسا ہے تویہ خود عمران خان کے سیاسی نظریات کی تردید ہے‘ جو اُس ماڈل کے ناقد رہے ہیں‘ جو مہاتیر محمد نے اپنا یا ہے ؟کیاان کی شفافیت؟اس معاملے میں بھی مہاتیر محمد کوئی مثالی آدمی نہیں ہیں۔اس لے یہ بات میرے لیے معما ہے کہ مہاتیر محمد ان کے آئیڈیل کیسے بنے؟اس طرح کے کئی معمے عمران خان کی ذات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔کامیابی‘ لیکن سب تضادات اور عیبوں کا پردہ بن جا تی ہے؛اگر عمران خان‘ مہاتیر محمد کی طرح حسن ِکارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں تویہ تجزیے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔اس کے لیے مہاتیر محمد کے دورِ اقتدار سے کامیابی کا راز تلاش کر نا چاہیے۔ان کی خوبیوں سے استفادہ کیا جاناچاہیے۔عمران خان بین وقت ملائیشیا کے مداح ہیں اور چین کے بھی۔دیکھیے ‘وہ ان ماڈلز کی خوبیوں کو کیسے جمع کرتے ہیں۔