اضطراب ہے اور بہت گمبھیر۔ ماضی میں کوئی حکومت ایسی نہیں گزری ہے جو محض آٹھ نو ماہ میں یوں بے دست و پا دکھائی دی ہو۔ شاید ہی کسی کو اس بات سے اختلاف ہو، الا یہ کہ کوئی غبی ہو یا انتہا درجے کا مفاد پرست۔
زندگی کبھی اضطراب سے خالی نہیں رہتی۔ کبھی پچھتاوا، کبھی اندیشہ۔ پچھتاوا ماضی کا، اندیشہ مستقبل کا۔ اللہ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں کہا کہ ان کے لیے حزن ہے نہ خوف۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے تفسیر کی کہ یہ جنت کی تعبیر اور بشارت ہے۔ ورنہ دنیا میں کون ہے جسے حزن و ملال اور اندیشوں سے مفر ہو۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ لہٰذا اضطراب کا ہونا کوئی انہونی نہیں۔ سوال دوسرا ہے: کیا ہم اضطراب سے نکلنے کی صلاحیت اور عزم رکھتے ہیں؟
سیاست اور امورِ جہاں بانی مشکل کام ہیں۔ یہ آئیڈیل ازم اور حقیقت پسندی میں توازن کا تقاضا کرتے ہیں۔ آئیڈیل سے وابستگی رہنی چاہیے کہ خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہے۔ حقیقت پسند ہونا اس لیے ضروری ہے کہ گرد و پیش سے بے نیاز ہو کر جو فیصلے کیے جاتے ہیں، وہ کبھی قابلِ عمل نہیں ہوتے۔ زمینی حقیقتیں ان کا منہ چڑاتی رہتی ہیں۔ عمران خان صاحب کے لیے یہی ایک راستہ ہے۔ وہ جانتے ہیں اور ہم بھی۔
وہ اگر نہ جانتے تو آج ملک کے وزیر اعظم نہ ہوتے۔ نا پسندیدہ افراد کو گلے لگانے سے لے کر، پسِ پردہ معاملات تک، ہر وہ کام کیا گیا جو انہیں اس منصب تک پہنچا سکتا تھا۔ شاید با دلِ نخواستہ ہی کیا ہو۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابی نتائج کے سامنے کتنے سوالیہ نشان ہیں۔ اگر حکومت بنانے کے لیے یہ سب جائز تھا تو حکومت چلانے کے لیے کیوں نہیں؟
وزیر اعظم بننے کے بعد، ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تھا‘ معاشی استحکام۔ معاشی استحکام سیاسی استحکام کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے لیے لازم تھا کہ وہ معاصر سیاسی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپناتے۔ وہ اپنے عہدِ اقتدار کا آغاز اس اعتراف سے کرتے کہ جنہیں عوام نے اپنے اعتماد سے نوازا ہے، وہ ان کا احترام کرتے ہیں اور ان سے مل کر پاکستان کو معاشی بحران سے نکالیں گے۔ وہ اپوزیشن کو دعوت دیتے کہ آؤ پارلیمنٹ کو ایک میثاقِ معیشت پر جمع کر دیں۔
یہ رویہ کسی طرح ان کے تصورِ احتساب سے متصادم نہ ہوتا۔ وہ احتساب کو اس میثاقِ معیشت کا حصہ بناتے اور دوسری جماعتوں کے تعاون سے اس کو آگے بڑھاتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو کوئی سیاسی جماعت احتساب کی مخالفت نہ کر سکتی۔ اگر ایسا کرتی تو معاشرے میں اپنا اعتبار کھو دیتی۔ آج اعتراض احتساب پر نہیں، اس بات پر ہے کہ احتساب کس طرح ہونا چاہیے۔ جب وہ بار بار کہتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا تو لہجے سے ذاتی انتقام کی بو آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ آگے بڑھ کر احتسابی ادارے کے وکیل بنتے ہیں تو ان کا طرزِ عمل خود اس ادارے کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ ان کے اس رویے سے احتساب کا تمام عمل شک و شبے کی دھند میں کھو چکا ہے۔
مثال کے طور پر احتسابی ادارے اور حمزہ شہباز کا معاملہ۔ اس معرکے میں وزرا کو کودنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ احتسابی ادارے اور حمزہ، دونوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ اب فیصلے سے کسی کو تو ہزیمت اٹھانا تھی۔ حکومت دونوں صورتوں میں تنقید سے محفوظ رہتی۔ یہ رویہ دراصل اس تاثر کو تقویت پہنچاتا ہے کہ مقصود احتساب نہیں، انتقام ہے اور اس کے لیے ریاستی اداروں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس طرزِ عمل کی وجہ سے معاشی استحکام اور نظامِ احتساب دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ احتساب کی بے لگام خواہش نے سرمائے کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ سرمایہ نہ ہو تو کاروبارِ حکومت چل سکتا ہے نہ کاروبارِ زندگی۔ اس وقت دونوں جمود کا شکار ہیں۔ نظامِ احتساب کی ساکھ ختم ہو چکی۔ عدالت آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور صاف پانی کے مقدمات میں جس رائے کا اظہار کر چکی، اس نے بتا دیا کہ ان مقدمات کی بنیاد کیا ہے۔ رہی معیشت تو اس کی داستان گلی گلی بکھری ہوئی ہے۔
یہ شاید دنیا کی پہلی حکومت ہے جو مخالفین کو روز دعوتِ مبارزت دیتی ہے۔ ملک کا وزیر اعظم آئے دن حزبِ اختلاف کو حکومت کے خلاف اشتعال دلاتا ہے۔ انہیں کنٹینر کی پیش کش کرتا ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ بجٹ کے دن آ چکے اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے انہیں حزبِ اختلاف کے تعاون کی شدید ضرورت ہو گی۔ اس کے باوجود ایک جارحانہ مزاج ہے جس کی حکمرانی ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت کسی بڑی جماعت کو حکومت کے خلاف تحریک سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ ان میں سکت نہیں۔ عوام تحریک نہیں چلانا چاہتے۔ اس کا کوئی بھی جوازہو، امرِ واقعہ یہ ہے کہ وہ احتجاجی تحریک نہیں چلانا چاہتیں۔ اسی طرح ن لیگ، پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے باب میں سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمن کی بات ماننے کو بھی تیار نہیں۔ دوسری طرف حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو ایک محاذ پر لا کھڑا کرے۔ اب سیاست سے سرسری واقفیت رکھنے والا کوئی آدمی بھی کیسے اس طرزِ حکومت کو حکیمانہ کہہ سکتا ہے؟
سیاست اور حکومت یوں نہیں چل سکتے۔ ہم اسے آئیڈیل ازم بھی نہیں کہہ سکتے۔ جب ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے نظریات ایک ہو جائیں اور انہیں نفاست کا پروانہ عطا کر دیا جائے تو اس کے بعد آئیڈیل ازم کا تو سوال ہی نہیں رہا۔ یہ کیسا آئیڈیل ازم ہے جو مالی کرپشن کے الزام کو تو گوارا نہیں کرتا مگر قتل، دہشت گردی اور فساد جیسے الزامات کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے اسے کوئی مشکل پیش نہیں آتی؟ اس کے ماتھے پر کوئی شکن پیدا نہیں ہوتی۔
جب سارا معاملہ سیاسی حرکیات اور اقتدار کے استحکام کا ہے تو پھر اس کا تعین، کیوں نہ ملک کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے؟ اگر ذاتی اقتدار کے لیے ق لیگ اور ایم کیو ایم سے اتحاد کیا جا سکتا ہے تو قومی مفاد کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے جنگ بندی کیوں نہیں کی جا سکتی؟ اگر حکومت ان بڑی جماعتوں کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھائے تو جہاں اس کا اقتدار مستحکم ہو سکتا ہے وہاں قومی سیاست میں سکون بھی آ سکتا ہے۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس نظام کے بارے میں خدشات بڑھتے جائیں گے۔ اس کے مستقبل کے گرد پھیلتے اندیشے مزید گہرے ہو جائیں گے۔ اگر اس نظام کے اصل حکمران خود ہی اس نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو یہ دوسری بات ہے، ورنہ حکومت چاہے تو اس نظام کو بھی کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت تین سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے۔ اگر یہ غیر سیاسی قوتوں پر انحصار کے بجائے، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی میثاقِ جمہوریت کر ے تو اس سے نظام پر عوامی اعتبار کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت ہمیں صرف ایک مسئلہ درپیش ہے: اعتبار کا فقدان۔ حکومت جس طرح چل رہی ہے، اس نے نظام کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ اگر وہ اس رویے کی اصلاح کر لے اور سرمایہ کار کے ساتھ عوام کا اعتبار بھی زندہ ہو جائے تو ہم تدریجاً اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا تعاون انتخابی اصلاحات کے اس عمل کو بھی آگے بڑھا سکتا ہے جو پچھلی پارلیمان نے شروع کیا تھا۔ اس سے پارلیمانی نظام سے وابستہ بہت سے اندیشے بھی ختم ہو سکتے ہیں۔
حاصل یہ کہ اس نظام کی بقا اب تمام تر عمران خان صاحب پر منحصر ہے۔ اگر وہ اپنے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے تو پھر وہ اندیشے واقعہ بن سکتے ہیں جو اس کے مستقبل سے لپٹے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے رویے پر اصرار کرتے ہیں تو پھر احتساب اور معیشت، دونوں کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اکثر نظام نہیں، افراد ہیں جو ناکام ہوتے ہیں۔