حنیف عباسی گھر لوٹ آئے۔ ساتھ ہی تاریخ کا ایک باب بھی رقم ہو گیا۔
انہوں نے جتنے دن جیل میں گزارے، مؤرخ اپنے کام سے غافل نہیں رہا۔ شب و روز کی رودار قلم بند ہوتی رہی۔ وہ دن یقینا آئے گا جب تمیزالدین کیس اور بھٹو کیس کی طرح، ان کا مقدمہ بھی پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کی تفہیم کے لیے، سیاسیات اور قانون کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہو گا۔ مقدمہ صرف انسان کی بنائی ہوئی عدالتوں میں نہیں چلتا۔ وقت کی اپنی عدالت بھی ہے جہاں وہ خود ہی مدعی ہوتا ہے اور منصف بھی۔ اس پر کوئی قوت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اس کے فیصلے کے خلاف کہیں اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔
عدالتی فیصلے تسلیم کیے جاتے ہیں کہ مہذب معاشروں کی یہی روش ہے۔ تسلیم و رضا کا یہ عمل اس مفروضے پر کھڑا ہوتا ہے کہ عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے۔ مسندِ انصاف پر تشریف فرما شخصیت پر کوئی خوف اثر انداز ہوتا ہے اور نہ کوئی ترغیب۔ مہذب معاشروں میں یہ بھی فرض کیا جاتا ہے کہ انصاف جنسِ بازار نہیں۔ یہ احساس جتنا گہرا ہوتا ہے، معاشرہ بھی اتنا ہی مہذب ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں حنیف عباسی گرفتار ہوئے اور ایک عدالتی فیصلہ ہی ان کی رہائی کی بنیاد بنا۔ حنیف عباسی نے اپنا مقدمہ قانون کی عدالت میں لڑتے ہوئے مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر آدمی، اپنے اپنے منصب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، خود کو مہذب ثابت کرے۔
حنیف عباسی تو لوٹ آئے مگر وہ وقت نہیں لوٹے گا جو بیت گیا اور پاکستان کی تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑ گیا۔ میں گزرے نو ماہ پر نظر ڈالتا ہوں تو فیض صاحب یاد آتے ہیں:
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ اپنا ملک ہے۔ یہاں سب اپنے ہیں۔ اپنوں کے فائدے بہت ہیں مگر ایک دکھ سب پر بھاری ہے: اپنوں سے شکایت ہو تو کس سے کہیں؟ آدمی اندر سے ڈھنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ آدمی زندہ ہوتا ہے مگر دوسروں کی نظر میں۔ اس سے پوچھیں تو معلوم ہو کہ سود و زیاں کی حدوں سے نکل چکا۔ وہ تو دیمک زدہ عصا کے سہارے کھڑا تھا‘ جسے ایک سوال نے گرا دیا۔
مشرف عہد میں صدیق الفاروق گرفتار تھے۔ بیمار ہوئے تو راولپنڈی کے ایک سرکاری ہسپتال لایا گیا۔ اطلاع ملتے ہی، میں ملنے چلا گیا۔ اُن دنوں مہتاب عباسی بھی جیل میں تھے اور جرمِ بے گناہی کی سزا بھگت رہے تھے۔ انہوں نے جیل سے صدیق الفاروق کے نام خط لکھا‘ جو ان کے پاس تھا۔ مجھے پڑھنے کو دیا۔ میں وہ خط بھول نہیں سکتا۔ اس خط کا ایک ایک لفظ اس لہو سے لکھا گیا تھا جو دل سے ٹپکا تھا۔ میں نے شاید پہلی بار محسوس کیا کہ جو گھاؤ اپنے لگاتے ہیں، ان کا درد کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایسا زخم آسانی سے مندمل نہیں ہوتا۔ کبھی تو عمر بھر کا روگ بن جاتا ہے۔
حنیف عباسی کے زخم بھر پائیں گے یا نہیں، یہ ان کی قوتِ برداشت پر منحصر ہے۔ سیاست کا مطالبہ یہ ہے کہ دل بڑا رکھا جا ئے؛ تاہم یہ یک طرفہ عمل نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو ان کے وجود پر لگے زخموں کا شمار مشکل تھا۔ 'تن ہمہ داغ داغ شد‘ کا معاملہ تھا۔ انہوں نے چاہا کہ ان زخموں کو سیا جائے۔ جنرل اسلم بیگ کو تمغۂ جمہوریت بھی دیا‘ مگر ان کا انجام کیا ہوا؟ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتی بھٹو کی بیٹی، کچھ دیر بعد اسی شہر کے ایک سرکاری ہسپتال میں پڑی ایک لاش تھی۔
ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں۔ خطا اور معصیت ہماری سرشت میں ہے۔ سیاست اقتدار کا کھیل ہے۔ اخلاقیات، اس کھیل میں سب سے پہلے ہدف بنتے ہیں۔ اقتدار کی دیوی مہربان ہونے کے لیے سب سے پہلے اخلاق ہی کی قربانی مانگتی ہے۔ اس کھیل کا کوئی کھلاڑی پارسائی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود کوئی حد ہے جو طے کرنا پڑتی ہے۔ کچھ آداب ہیں جن کا لحاظ کرنا ہوتا ہے۔ ڈائن بھی کہتے ہیں کہ آٹھواں گھر چھوڑ دیتی ہے۔ گھر کا کوئی فرد اگر اختلاف کرے تو کیا وہ اپنا نہیں رہتا؟ اگر کوئی وراثت میں سے اپنا جائزحصہ مانگے تو کیا اسے مار دینا چاہیے؟ عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے؟
تحریک انصاف نے جس ہیجان کو سیاست کی بنیاد بنایا، وہ اب ریاستی پالیسی میں ڈھل گئی ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سیاست کا کھیل، میدانِ سیاست میں نہیں، کہیں اور کھیلا جا رہا ہے۔ اگر سیاست کو اسی میدان تک محدود رکھا جاتا تو اس کے اپنے آداب تھے۔ پھر سیاست میں آمنا سامنا ہوتا۔ پھر عوام کے دلوں کو فتح کرنے کا مقابلہ ہوتا۔ پھر سیاست دان ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوتے۔
یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو سیاست کی قلبِ ماہیت کر دے گا۔ اس کے آثار ہیں کہ مقتدر حلقے بھی اب آگے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ صدارتی نظام کی باتیں اسی لیے ہو رہی ہیں۔ عمران خان اس کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ وہ ہیجان کو نا اہلی کے لیے حجاب بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان اسی ہیجان کی کیفیت میں رہیں جو انتخابات سے پہلے تھی۔ ان کے ساتھ رومانوی تعلق نئی نسل کو اس نتیجے تک پہنچا دے کہ عمران خان کی ناکامی کا سبب وہ خود نہیں، نظام ہے جو ان کے راستے میں حائل ہو گیا۔ اس سے چھٹکارا مل جائے تو سب مسائل حل ہو جائیں گے۔
نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ وہ معاملاتِ زندگی سے براہ راست وابستہ نہیں۔ وہ سمجھ نہیں سکتی کہ معیشت کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ مہنگائی انسانی معاملات پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟ وہ تو فرمائش کی عادی ہے۔ تحریکِ انصاف کا حلقہ اثر نوجوان ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جس نے آج گھر کے معاملات کو چلانا ہے، وہ وعدۂ فردا پر انحصار نہیں کر سکتا۔ اسے خواب نہیں، تعبیر کو دیکھنا ہے اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اسے کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی۔
یہ پاکستان کی مڈل کلاس ہے۔ اسے آج کوئی ریلیف دینا ہو گا۔ اسے یقین دہانی کرانا ہو گی کہ یہ نظام اس کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔ اسے کسی صدارتی یا کسی دوسرے نظام کے نام پر مطمئن نہیں کیا جا سکتا‘ جو ابھی پردہ غیب میں ہے۔ بد قسمتی سے اس طبقے کی بے چینی کا احساس مقتدر طبقے میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ سیاسی مفاہمت کا طرزِ عمل اختیار کرتے۔ اس کے علاوہ نظام پر اعتماد قائم کرنے کی کوئی دوسری صورت نہیں۔
حنیف عباسی کی گرفتاری سے جس سیاسی عمل کا آغاز ہوا تھا، اس کے ثمرات ہمارے سامنے ہیں۔ قوم کو بہتر متبادل نہیں مل سکا۔ ہمارے پاس واحد راستہ یہی تھا کہ اس کی ناکامی سے سبق حاصل کرتے ہوئے، واپس لوٹ جاتے۔ مفاہمت سیاست کی ناگزیر ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی لغت اسی سے خالی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی باگ ان کے ہاتھ میں ہے، سیاست جن کا میدان نہیں ہے۔ شریف خاندان کو سیاسی ہی نہیں، معاشی اور سماجی طور پر بھی عبرت کا نشان بنانے کی کوشش جاری ہے۔
حنیف عباسی تو لوٹ آئے مگر سیاست اپنی فطری ڈگر پر نہیں لوٹ سکی۔ اس کے آثار بھی کم ہیں۔ لوگ یہ بھول رہے ہیں کہ معاملات اپنوں کے درمیان ہیں۔ اسے فتح و شکست کی نفسیات سے دیکھا جا رہا ہے۔ اپنوں کے درمیان اگر اس بنیاد پر فیصلے ہونے لگیں تو مجھے تشویش ہے کہ خاکم بدہن، حالات کی باگ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اپنوں کے دکھ دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔ پھر بے آباد بستیوں کی ویران گلیوں میں ایک صدا نوحہ بن کر گونجتی رہتی ہے۔
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے روٹھ کر مرے غمگسار چلے گئے