تبدیلی کا سفر اور اس زادِ راہ کے ساتھ؟
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
تحریکِ انصاف پر حکومت کی تہمت باقی ہے، اقتدار کے تو شاید دن گنے جا چکے۔ کچھ دیر کے لیے خوشی ہوئی کہ میرا تجزبہ غلط نہیں تھا مگر بہت جلد آزردگی نے آ لیا۔ دکھ اور ملال آ جائیں تو جلد جانے کا نام نہیں لیتے۔ مہمانوں نے خانۂ دل میں اس طرح ڈیرہ لگایا ہے جیسے مستقل قیام کا ارادہ ہے۔ یہ آزردگی ایک سوال میں ڈھل گئی ہے: یہ ملک کب تک بازیچۂ اطفال بنا رہے گا؟
عمران خان دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں: کیا اس کا نام حکومت ہے؟ کیا ملک اس طرح تبدیل ہوتے ہیں؟ اعجاز شاہ، فردوس عاشق اعوان، حفیظ شیخ، اعظم سواتی، فواد چوہدری؟ کیا یہ تحریکِ انصاف کی حکومت ہے؟ کیا پیپلز پارٹی اور مشرف دور کے احیا کا نام تبدیلی ہے؟ کیا ان خواتین و حضرات میں کوئی قدرِ مشترک تلاش کی جا سکتی ہے؟ کیا وزارتِ عظمیٰ کی ٹوپی پہننا اتنا ضروری تھا کہ اس کے لیے بیس کروڑ افراد کا مستقبل داؤ پر لگا دیا جائے؟
کرکٹ جناب کا میدان ہے۔ کیا جاوید میاں داد، انضمام اور وسیم اکرم کے بغیر کرکٹ ورلڈ کپ جیتا جا سکتا تھا؟ اگر عمران خان اس سوال پر غور کر لیتے تو خود کو اور قوم کو اس آزمائش سے دوچار نہ کرتے۔ آج تحریکِ انصاف کے پاس کوئی ایک آدمی ایسا نہیں جو اسد عمر ہی کا متبادل ہو۔ وہ اپنی صفوں سے کوئی ایک اہل اور ماہر تلاش نہیں کر سکے۔ فواد چوہدری کا متبادل کون؟ فردوس عاشق اعوان، پیپلز پارٹی کی وزیرِ اطلاعات۔ اسد عمر کا متبادل کون؟ حفیظ شیخ، پیپلز پارٹی ہی کے وزیرِ خزانہ۔ کیا اس کا نام تبدیلی ہے؟ کیا اس کے لیے نوجوانوں کو ہیجان میں مبتلا کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ نرگسیت اگر لیڈر میں ہو تو قومیں اسی طرح منزل سے محروم ہو جاتی ہیں۔
عمران خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ورلڈ کپ تنہا ان کا کارنامہ ہے، کسی میاں داد کا حصہ ہے بھی تو زیبِ داستاں کے لیے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے جیت کو بلا شرکتِ غیرے ممکن بنایا۔ یہ احساس ان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی ذات کی محبت میں اس طرح گرفتار رہے کہ انہیں اپنے علاوہ کبھی کچھ دکھائی نہ دیا۔ گزشتہ پیر کو جناب ظفر اقبال کی تازہ غزل ان کے کالم میں شائع ہوئی:
خود سے میں یہی سوچ کے باہر نہیں نکلا
کچھ بھی نہیں موجود میری ذات سے باہر
نئی نسل کو ہیجان میں مبتلا کیا گیا لیکن عمران خان صاحب تو جانتے تھے کہ ان کی جماعت رجالِ کار سے تہی دامن ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ ٹیکنیکل وزارتیں تو ایک طرف رہیں، ایسی وزارتوں کے لیے بھی ان کے پاس کوئی موزوں آدمی نہیں جو سادہ انتظام کے ساتھ چلائی جا سکتی ہیں۔ عمران خان صاحب کا خیال تھا کہ وہ رجالِ کار کے محتاج نہیں۔ وہ دیانت دار ہیں اور با صلاحیت بھی۔ اگر وہ تنہا ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں تو ملک کیوں نہیں چلا سکتے۔ خود پسندی کا معاملہ یہ ہے کہ انسان پیش پا افتادہ حقیقتوں کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مسئلہ کسی اسد عمر میں نہیں خود خان صاحب میں ہے۔
پنجاب میں تبدیلی بھی نوشتۂ دیوار ہے۔ اس میں جتنی تاخیر ہو گی بحران بڑھتا جائے گا۔ اس تبدیلی میں بھی ان کی یہی نرگسیت حائل ہے۔ وہ یہ تصور ہی نہیں سکتے کہ ان کا انتخاب اتنا غلط ہو سکتا ہے۔ وہ مرکز کی طرح صوبے میں بھی فیصلہ کریں گے مگر حسبِ معمول بعد از خرابیٔ بسیار۔ وہ ابھی تک خود کو یہ سمجھا نہیں سکے کہ وہ ایک ایسی ریاست کے حکمران ہیں‘ جو بظاہر ایک جمہوری ریاست ہے۔ اس کا ایک آئین ہے اور انہیں اس کے دائرے ہی میں بروئے کار آنا ہے۔ مرکز میں بیٹھ کر اب ملک کے سب سے بڑے صوبے پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔
تحریکِ انصاف کا اقتدار بالفعل ختم ہو چکا۔ ایک نئی بساط بچھائی جا چکی۔ اس پر مہرے نئی چال کے ساتھ ترتیب دے دیے گئے ہیں۔ ان میں کوئی بادشاہ ہے اور کوئی وزیر۔ 'بادشاہ‘ اگر اس زعم میں مبتلا ہے کہ کوئی حقیقی اقتدار ہے اور وہ اپنی مرضی سے قدم اٹھا سکتا ہے تو اٹھا کے دکھا دے۔ ایسی ہر کوشش کا انجام مات ہے۔ بادشاہ اس وقت تک برقرار ہے جب تک چال چلنے والے کے اشارے پر حرکت کرتا ہے۔ اگر وہ اس راز کو پا گیا تو بھرم قائم رہ سکتا ہے۔ اگر وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوا تو پھر تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی۔
یہ کھیل کب ختم ہو گا؟ بساط کب تک بچھائی جاتی رہے گی؟ کب تک مہروں کی تبدیلی کو انقلاب کا نام دیا جاتا رہے گا؟ یہ سوالات مجھے پریشان کرتے ہیں۔ پھر اسد عمر کا جانا مسرت کے بجائے آزردگی کا باعث بن جاتا ہے۔ مایوسی کی انتہا ہے کہ ان حالات پر میرا بس نہیں چلتا۔ شاید ہم میں سے کسی کا کوئی کردار نہیں جو عوام ہیں۔ عوام جو پچیس سال سے زیادہ عمر کے ہیں تو مہنگائی کے مارے ہوئے ہیں اور اس سے کم ہیں تو ہیجان کے۔
میری دانست میں ایک جماعت کے پاس وہ لوگ موجود ہیں جو اس ملک کے نظامِ حکومت و معیشت کے مزاج شناس ہیں اور ان کے پاس رجالِ کار بھی موجود ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب نے کامیابی کے ساتھ ملک کی معیشت کو سنبھالا دیا۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر اس کا اعتبار قائم ہو گیا۔ وہ گئے تو ان کی جگہ مفتاح اسماعیل موجود تھے۔ کیمرج سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے اس معتدل مزاج آدمی نے اسحاق ڈار کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی وزارتِ عظمیٰ کے وقار میں کمی نہیں آنے دی۔ یہ صورتِ حال تو مسلم لیگ نون کو کبھی درپیش نہیں ہوئی کہ ایک آدمی چلا گیا تو انتظام چلانے کے لیے اسے ادھر ادھر دیکھنا پڑا ہو۔
عمران خان آج ایک ایسی حکومت کا حصہ ہیں جو تحریکِ انصاف کی تو محسوس نہیں ہوتی، کسی اور کی محسوس ہوتی ہے۔ عمران خان کے پاس اب دو راستے ہیں: حکومت کی تہمت اپنے سر لیں اور اس کے وکیل بن جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مڈ ٹرم والے اپنے بیان پر توجہ دیں۔ اب یہ ان پر ہے کہ وہ کسے محفوظ راستہ تصور کرتے اور اختیار کرتے ہیں۔ پہلا راستہ تو عشق کی طرح ہے: آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی۔
خود پسند طبیعت کو بھی یہی راس ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ سلسلۂ واقعات جس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اگلا قدم یہی لگتا ہے کہ اسی پارلیمان سے نیا وزیر اعظم آ جائے گا اور مشیروں کے نام پر نئے چہرے کابینہ کا حصہ بنیں گے۔ اس وقت تو ایک پاپولر فیس، نظام کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب سے نئی نسل نے جو توقعات باندھی تھیں، وہ ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ اس وقت تو ان لوگوں کو موقع دیا گیا ہے جن سے 2018ء میں کچھ وعدے کیے گئے تھے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پارلیمان کے موجودہ نظام کو بر قرار رکھتے ہوئے، آہستہ آہستہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہو جائے گی۔
آزردگی اسی بات کی ہے کہ یہ ملک بازیچۂ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ انسانی تجربات سے سیکھنے کے بجائے، نئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ عوام کہیں شریکِ مشاورت نہیں۔ عمران خان نے اگر خود کو اس نظام سے وابستہ رکھا تو پھر یہ قطرہ قطرہ پگھلنا ہے۔ اسد عمر کے جانے سے یہ عمل شروع ہو چکا۔ دیکھیے عمران خان صاحب کیا فیصلہ کرتے ہیں۔