"KNC" (space) message & send to 7575

نون لیگ کی حیاتِ نو؟

نون لیگ میں نئی صف بندی، کیا اس کے لیے حیاتِ نو کا پیغام بن سکتی ہے؟
خاموشی یا ابہام... انتخابات کے بعد ن لیگ کی سیاست ان دو الفاظ سے عبارت رہی۔ اس نے پارٹی کے وابستگان میں ایک اضطراب کو جنم دیا۔ یہ اضطراب پہلی صف سے لے کر آخری صف تک سرایت کر گیا۔ ''این آر او نہیں دوں گا‘‘ کی تکرار نے بے چینی میں اضافہ کیا کہ دوسری طرف بالکل خاموشی تھی۔ نہ تائید نہ تردید۔ اس پر مستزاد اہلِ صحافت کے 'انکشافات‘ کہ فلاں نے فلاں کو معافی کے لیے واٹس ایپ بھیج دیا۔ شریف خاندان اور پارٹی میں فاصلے بہت نمایاں ہو گئے تھے۔ اب ناگزیر تھا کہ خاموشی اور ابہام کا خاتمہ ہو اور پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو ایک منزل اور لائحۂ عمل کا سراغ ملے۔ نئی صف بندی، امید کی جا سکتی ہے کہ اس عمل کا نقطۂ آغاز بنے گی۔
اِس وقت ن لیگ کا کردار کیا ہے؟ بطور حزب اختلاف قوم کو متبادل بیانیہ اور قیادت فراہم کرنا۔ آج تحریک انصاف کا بیانیہ وہی ہے جو اس سے پہلے ن لیگ سمیت سب جماعتوں کا رہا ہے۔ یہ بہر صورت طاقت کے مراکز میں اپنے لیے جگہ کی تلاش ہے۔ عمران خان نے ایک عرصہ جدوجہد کی کہ وہ کسی نئے بیانیے کی بنیاد پر اپنا تشخص بنا سکیں۔ 2011ء کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے لیے یہ ممکن نہیں۔ انہوں نے تدریجاً آدرش اور بیانیے کی بحثوں سے خود کو آزاد کیا اور ان پامال راستوں کا انتخاب کیا، جن پر چل کر پہلے بھی لوگ ایوانِ اقتدار تک پہنچتے رہے ہیں۔ وہی پسِ پردہ معاملات، وہی الیکٹ ایبلزکا ساتھ۔ انہوں نے منزل پا لی مگر عوام محروم رہے۔
2014ء کے بعد نواز شریف صاحب کو اندازہ ہونے لگا کہ موجودہ پاور سٹرکچر میں ان کی جگہ کم ہوتی جائے گی، اگر وہ اس کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ چاہا کہ اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کا توازن عوامی نمائندوں کے حق میں ہو۔ پہلے مرحلے میں انہیں ناکامی ہوئی اور وہ اس نظام سے باہر کر دیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں انہوں نے چاہا کہ وہ عوامی سطح پر اس نظام کو چیلنج کریں۔ انہیں اس میں کامیابی ہوئی کہ بد ترین حالات میں بھی، عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کے بیانیے کا ساتھ دیا۔ نون لیگ پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ تیسرے مرحلے میں ضرورت تھی کہ وہ عزیمت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور اس بیانیے کی بنیاد پر مستقل جدوجہد کا لائحۂ عمل مرتب کرتے۔ اس مرحلے کو خاموشی اور ابہام نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 
ایسا کیوں ہوا؟ ہم جانتے ہیں کہ شریف خاندان کو بقا کے چیلنج کا سامنا تھا۔ ایک رائے یہ بنی کہ بیانیے کے چکر میں پڑے بغیر اقتدار کی روایتی سیاست کی جائے۔ شہباز شریف اس کے علم بردار تھے۔ نواز شریف صاحب نے خاموشی اختیار کر لی اور شہباز شریف صاحب کو موقع دیا۔ نئی صف بندی سے اندازہ ہوا کہ شہباز شریف کو اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ پاور سٹرکچر انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ نون کے لیے اب ایک ہی راستہ ہے: نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ پُرعزم وابستگی۔
اگر اس باب میں یک سوئی ہے تو پھر حکمتِ عملی کی سطح پر ن لیگ کو دو کام کرنے ہیں: ایک نواز شریف کے بیانیے کی تشہیر اور تفہیمِ عام۔ دوسرا جماعت سازی۔ بیانیے کی تشہیر سے مراد کسی ریاستی ادارے سے تصادم نہیں۔ یہ بیانیہ کسی فرد کے خلاف ہے نہ کسی ادارے کے خلاف۔ عوام کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے اور ریاستی اداروں کو بھی۔ قوم کو بتانا یہ ہے کہ اسی بیانیے سے اداروں کا وقار سلامت رہ سکتے ہیں اور اسی سے ملک ترقی کر سکتا ہے۔ اگر موجودہ صورتِ حال کو باقی رکھا گیا تو ادارے متنازعہ بنتے جائیں گے۔ ان کو ان تنازعات سے بچانا، ان کے مفاد میں ہے اور ملک کے مفاد میں بھی۔ نواز شریف کا بیانیہ اس بات کو یقینی بناتا ہے۔
عوام اور ریاست کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے آئین میں جس تقسیمِ کار کی بات کی گئی ہے، اس کو اختیار کرنے ہی میں بھلائی ہے۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور سلامتی کے اداروں سمیت، سب کا ایک متعین کردار ہے۔ سب کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر بروئے کار آنا چاہیے اور باہمی احترام کو سامنے رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر مدارس اور مذہبی تعلیم کی اصلاح کرنی ہے تو یہ حکومت کا کام ہے۔ آئین کی روح یہ کہتی ہے کہ اس معاملے میں حکومت ہی کو بروئے کار آنا چاہیے۔ اگر کوئی دوسرا ادارہ یہ ذمہ داری اٹھائے گا تو اس کی ممکنہ نیک نیتی اور اخلاص کے باوجود، اس پر سوالات پیدا ہوں گے اور اس کی وجہ تقسیمِ کار کے اصول سے، یعنی آئین سے انحراف ہو گا۔
ریاستی ادارے قوم کا حصہ ہیں۔ وہ بھی قوم میں اٹھنے والی بحث سے متاثر ہوتے ہیں۔ یقیناً وہاں بھی غور و فکر کا عمل، آگے بڑھتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مذہبی انتہا پسندی کے باب میں، آج ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ایک صفحے پر ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ تجربے اور تجزیے نے سب کو ایک صفحے پر جمع کر دیا۔ اگر سلیقے کے ساتھ نواز شریف کا بیانیہ بھی پیش کیا جائے تو سب سطحوں پر اس کی قبولیت ہو سکتی ہے۔ اس کی تائید میں پاکستان کی پوری تاریخ، سیاسیات کا علم اور سیاسی فکر کا ارتقا‘ سب کھڑے ہیں۔ پارلیمنٹ، میڈیا اور عوامی اجتماعات کے ذریعے اس بیانیے کا ابلاغ کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا کام نون لیگ کی تنظیمِ نو ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ شریف خاندان نے، اقتدار میں آنے کے بعد، ہمیشہ مسلم لیگ کو نظر انداز کیا۔ اس کو جماعت بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ اب لازم ہو گیا ہے کہ اس کوتاہی کی تلافی کی جا ئے۔ گاؤں گاؤں اور بستی بستی اگر اس جماعت کی تنظیم قائم ہو جائے اور کارکنوں کی تربیت کا نظام بھی بن جائے تو یہ جماعت سیاسی استحکام میں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
بحران کے اس دور میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے، ان میں شاہد خاقان اور خواجہ سعد رفیق نمایاں ہیں۔ ان کے ہاں جرأت اور بصیرت، دونوں کا امتزاج دکھائی دیا۔ سعد رفیق کو اگر پنجاب مسلم لیگ کا صدر بنا دیا جائے تو مجھے امید ہے کہ نون لیگ بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ اگر نون لیگ کو جمہوری اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے تو فطری قیادت ابھرے گی اور وہی پارٹی کا اثاثہ بنے گی۔ پرویز رشید جیسے لوگوں کو بھی بروئے کار آنا چاہیے۔ ان جیسی فکری یک سوئی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
اگر نون لیگ یہ حکمت عملی اختیار کرتی ہے تو وہ خاموشی اور ابہام کے پردے سے نکل آئے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ نواز شریف سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے دل میں امید کی شمع روشن ہو جائے گی۔ اس وقت نون لیگ کو جمع رکھنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر وہ اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کی سیاست بھی فطری ڈگر پر لوٹ آئے۔
نون لیگ اگر اس حکمتِ عملی پر ثابت قدم رہتی ہے تو اس کے نتیجے میں مریم نواز کی قیادت میں نون لیگ ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے گی۔ جس دن یہ ہو گیا، یہ پارٹی پاور سٹرکچر میں اپنی شرائط پر واپس آ جائے گی۔ اگر اس کا راستہ غیر فطری طور پر روکا گیا تو یہ کہیں بڑے فساد کو جنم دے گا۔ اللہ کرے کہ سب کردار ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور یہ مرحلہ کبھی نہ آئے۔
نون لیگ نے ایک اچھا فیصلہ کیا۔ بصیرت، عزیمت اور صبر کو اگر اس نے زادِ راہ بنایا تو اس کا مستقبل روشن ہے۔ ملک کو ایسی جماعت کی اشد ضرورت ہے جو کسی بیانیے کی بنیاد پر کھڑی ہو۔ نون لیگ اس خلا کو بھر سکتی ہے۔ نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد، یہ ضرورت بڑھ گئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں