سوال یہ ہے کہ کون ہے جسے مذہب پر اذنِ کلام ہونا چاہیے؟
میڈیا سر تا پا انٹرٹینمنٹ ہے: تفریح۔ مولانا وحید الدین خان کے الفاظ میں انٹرٹینمنٹ دو طرح کی ہوتی ہے: مذہبی اور سیکولر‘ ٹی وی چینلز کے مذہبی پروگرام دراصل مذہبی انٹرٹینمنٹ کی فراہمی کا ایک ذریعہ ہیں۔ مذہب اگر تفریح اور تجارت کے لیے ہے تو پھر ان پروگراموں کی ذمہ داری کسی اداکار ہی کو سونپی جائے گی، وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ اس لیے اس بحث میں اہم تر سوال یہ ہے کہ میڈیا کے لیے مذہب کیا ہے؟ تجارت، تعلیم یا دعوت؟
پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد سے پہلے بھی یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا تھا۔ جب آئی ایس پی آر نے ان ماہرین کی ایک فہرست جاری کی جنہیں دفاعی امور پر کلام کا اذن دیا گیا تھا تو وفاق المدارس نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے، یہ مطالبہ کیا کہ مذہبی ماہرین کی بھی ایسی ہی ایک فہرست مرتب ہونی چاہیے۔ ہر کسی کو مذہب پر گفتگو کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تجویز بین السطور اس حسنِ طلب کا مظہر تھی کہ یہ حق دینی مدارس کو دے دیا جائے کہ وہ ان افراد کی فہرست جاری کریں۔ روایتی مذہبی علما کا یہ معلوم موقف ہے کہ دینی امور پر بات کرنے کا مجاز وہی ہے جو مدرسے کا فارغ التحصیل ہو۔
میڈیا اور مذہب کی بحث جب اس دائرے میں داخل ہوتی ہے تو اداراتی مفادات کی اسیر ہو جاتی ہے۔ میڈیا کا ادارہ، مذہبی ادارے، اداکار، سب اپنے اپنے مفادات کے تناظر میں رائے قائم کرتے ہیں۔ یہ سوال کہ خود مذہب کا مطالبہ کیا ہے، پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ تجارت یا کاروبار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ رسد اور طلب کے اصول پر آگے بڑھتے ہیں۔ طلب پیدا ہوتی ہے تو رسد شروع ہو جاتی ہے۔
میڈیا نے جب اپنے پاؤں پھیلائے اور نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو ان تمام موضوعات کا احاطہ کیا گیا جن کی سماج میں کوئی مارکیٹ موجود تھی۔ ان میں مذہب بھی شامل تھا۔ پھر ایسے افراد تلاش کیے گئے جو کم از کم عوامی مذہب کا بقدرِ ضرورت علم اور شعور رکھتے ہوں اور ساتھ ہی ان میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ مذہب کو میڈیا کے تجارتی مقاصد سے ہم آہنگ بنا دیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے لوگ سامنے آئے جو حسبِ موقع مذہبی گیت گا سکتے تھے، مذہبی سوالات اٹھا سکتے تھے، مذہبی جذبات کو مشتعل کر سکتے تھے، رقت آمیز دعا کرا سکتے تھے۔ یہ سب خصوصیات ایک اداکار ہی میں جمع ہو سکتی ہیں‘ جو حسبِ ضرورت کوئی کردار نبھا سکے۔ یوں مذہبی اداکاروں کا ایک گروہ سامنے آیا۔
میڈیا میں ہر شے ریٹنگ سے وابستہ ہے۔ ایک اداکار کی بقا کا تمام تر انحصار اس پر ہوتا ہے کہ کتنے لوگ اسے سکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی سے اس کا معاوضہ وابستہ ہوتا ہے اور پیشہ ورانہ عروج بھی۔ مذہبی اداکاروں کو بھی یہ چیلنج درپیش ہوا۔ انہیں یہ لگا کہ مذہبی جذبات کو زیادہ مخاطب بنانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے پاپولر مذہب کا فروغ۔ یہ زیادہ تر فضائل سے عبارت ہے۔ دوسرا مسلکی اور فرقہ وارانہ موضوعات کا انتخاب کہ ان جذبات وابستہ ہوتے ہیں۔ جب ایسے موضوع پر دو مختلف الخیال لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے تو دونوں گروہ ناظرین میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یوں پروگرام تجارتی حوالے سے کامیاب ہو جاتا ہے۔
اب اس سے میڈیا اور مذہبی اداکاروں کا کاروبار تو خوب چمک اٹھا مگر مذہب اور معاشرہ دونوں خسارے میں رہے۔ مذہب اپنے اصل مقصد سے الگ ہو کر محض کھیل تماشا بن گیا۔ مذہب کا اصل مقصد کیا ہے؟ تزکیۂ نفس۔ تزکیۂ نفس کی پہلی شرط تزکیۂ علم ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ نقصان ہوا کہ وہ خیر کی قوت جو سماج کو پُرامن اور شائستہ بنا سکتی تھی، وہ تقسیم اور اضطراب کا محرک اور جہالت کی علامت بن گئی۔
لہٰذا آج بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ مذہبی معاملات پر کون گفتگو کرے؟ اصل سوال یہ ہے کہ میڈیا کے نزدیک مذہب کا کردار کیا ہے؟ جنسِ بازار جس سے پیسہ کمایا جائے یا تزکیہ نفس کی وہ قوت جس کا کام علم اور اخلاق کی اصلاح ہے؟ اگر مذہب سے پیسہ کمانا مطلوب ہے تو پھر وہی چہرے مذہب کی نمائندگی کریں گے جو اس وقت کر رہے ہیں۔ اگر مقصد دوسرا ہے تو پھر مذہبی پروگراموں کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرنا پڑے گا جو اسے ایک سنجیدہ موضوع سمجھتے ہیں اور ان کی سماجی شہرت یہ ہے کہ انہوں نے فرقہ واریت اور مسلکی تعصب کے بجائے مذہبی علم کو فروغ دیا اور اخلاقی تزکیے کو اس کا مقصود مانا ہے۔ میڈیا جب یہ طے کر لے گا تو اسے حسبِ خواہش افراد بھی میسر آ جائیں گے۔
اس بات سے البتہ میں اتفاق نہیں کر سکا کہ ہر فرد کو مذہب پر ماہرانہ رائے دینے کا لائسنس مل جانا چاہیے۔ ہر آدمی یہ حق تو رکھتا ہے کہ وہ مذہب کے بارے میں سوال اٹھائے لیکن اگر وہ مذہب کے مبادیات سے بھی واقف نہیں تو اسے مذہب کا مدعا متعین کرنے اور پھر بیان کرنے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ مذہب زندگی کا سب سے سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس کے ساتھ میرا لا متناہی مستقبل وابستہ ہے۔ میں اس کے معاملات کسی ایسے فرد ہی کو سونپ سکتا ہوں‘ جس کے علم اور بصیرت پر مجھے اعتماد ہو گا۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ حق کسی مخصوص مذہبی طبقے کو دے دیا جائے۔ یقیناً اسلام میں کسی غیر پیغمبر کو یہ منصب حاصل نہیں کہ وہ مذہب کے باب میں حجت ہو؛ تاہم مجھے مذہب کے لیے ایسے فرد یا ادارے کی طرف رجوع کرنا ہو گا جس نے مذہب کو سنجیدہ مطالعے اور تحقیق کا موضوع بنایا ہو۔ اب ایسا فرد یا ادارہ کون سا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا انتخاب ہر فرد اپنے علم اور رسائی کی بنیاد پر کرے گا جس طرح وہ دیگر انفرادی اور اجتماعی معاملات میں کرتا ہے۔ ڈاکٹر سے لے کر سیاسی جماعت تک، عام آدمی اسی اصول پر کاربند ہے۔
اگر اس مقدمے کو مان لیا جائے تو پھر نہ صرف اداکاروں، بلکہ بہت سی ایسی مذہبی شخصیات کو بھی مذہب پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جنہوں نے مذہب کو فساد کے لیے استعمال کیا ہے اور یہ سماجی سطح پر معلوم بات ہے۔ اسی لیے میرا یہ کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ میڈیا کے ذمہ داران کو اس سوال کی روشنی میں کرنا ہے کہ وہ مذہب کو کس مرض کی دوا سمجھتے ہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ جنہوں نے مذہبی معاملات پر معاشرے میں اشتعال پھیلایا اور اس کے نتیجے میں کئی افراد اپنی جانوں سے گئے، وہ آج بھی باقاعدگی سے میڈیا میں مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں؟ مذہب اور معاشرے کو جتنا نقصان مذہبی اداکاروں نے پہنچایا ہے، اس سے زیادہ ان سکہ بند مذہبی راہنماؤں نے پہنچایا ہے۔ میڈیا نے ان کے معاملے میں بھی کسی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ میڈیا میں استثنا بھی ہے۔ ''دنیا‘‘ ٹی وی کو یہ کریڈٹ ملنا چاہیے کہ اُس کے مذہبی پروگرام سنجیدگی کا مظہر ہوتے ہیں۔ ''علم و حکمت، غامدی کے ساتھ‘‘ تو اس کی شاندار مثال ہے۔ انیق احمد صاحب کے پروگرام میں بھی مذہبی سنجیدگی کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح میں آفتاب اقبال صاحب سے ملا تو وہ بھی پوری طرح یکسو دکھائی دیے کہ تجارتی مقاصد کے لیے کسی صورت، مذہب کا وقار اور اصل پیغام مجروح نہیں ہونے چاہئیں۔ یقیناً میڈیا کے ذمہ داران میں کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں گے جو مذہب کے معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بروئے کار آنا چاہیے۔
مجھے اندازہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے کچھ اپنے مطالبات ہیں۔ ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی مذہبی پروگراموںکی سنجیدگی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ سکرین اپنی ضرورت کے مطابق چہروں کا انتخاب کرتی ہے۔ سکرین کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وژن ہو تو میڈیا کی ضروریات اور مذہب کی سنجیدگی کو ہم آہنگ بنایا جا سکتا ہے۔