بس ایک واقعہ۔ ممکن ہے بظاہر بہت معمولی ہو‘ نا قابلِ ذکر لیکن تاریخ رقم کر سکتا ہے!
غصہ جب گلی بازار میں پھیل جائے تو ایک واقعہ دیا سلائی بن جاتا ہے۔ پھر ایک آگ بھڑک اٹھتی اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ واقعہ واقعے سے جڑتا، جیسے کڑی سے کڑی ملتی اور ایک ایسی زنجیر میں بدل جاتی ہے جو بالآخر نظمِ اقتدار کے لیے ہتھ کڑی بن جاتی ہے۔ بے بس حکمران اور بے قابو عوام۔ حکومت کے ایوانوں میں براجمان اگر سیاسی حرکیات کا علم رکھتے ہوں تو اس کی نوبت نہیں آنے دیتے۔ افسوس کہ آج کوئی رجلِ رشید کسی منصب پر موجود نہیں ہے۔
تیونیسیا کا عزیزی تو آپ کو یاد ہو گا۔ وہی بے حیثیت رہڑی بان جس نے پولیس کے ظلم سے تنگ آ کر خود سوزی کر لی تھی۔ اس کے وجود سے لپٹی آگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل گئی تھی۔ مصر کی 'عرب بہار‘ سے شام کی خانہ جنگی تک، کئی برس شعلوں کا راج رہا۔ سب کچھ خاکستر ہو گیا۔ تعمیرِ نو کا مرحلہ ابھی بہت دور ہے کہ چنگاریاں آج بھی سلگ رہی ہیں۔ یہ ایک ہی واقعہ تھا، بظاہر معمولی اور نا قابلِ ذکر۔ ایک خاص پس منظر میں، لیکن ایک نئی تاریخ کا عنوان بن گیا۔ عوام کی بے چینی جب حد سے گزر جائے تو یہی ہوتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ حکومت کے بارے میں حسنِ ظن ختم ہو چکا۔ مسائل چند ماہ میں حل نہیں ہوتے۔ حکومت ابتدائی دنوں میں صرف یہ تاثر قائم کرتی ہے کہ وہ سنجیدہ ہے اور مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ تاثر اُس گمان کو جنم دیتا ہے جو اقتدار کے تسلسل کی ضمانت بن جاتا ہے۔ عوام پُر امید ہو جاتے ہیں اور یوں حکومت کے خلاف اٹھنے والی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنتے۔ آج کی حکومت اس طرح کا کوئی تاثر قائم کر نے میں مطلق نا کام رہی ہے۔
سٹیٹ بینک نے بتا دیا ہے کہ آٹھ ماہ میں مہنگائی دگنی ہو گئی ہے۔ اس میں مزید اضافہ ہونا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیں کہ جیسے جیسے مہنگائی بڑھے گی، عوامی اضطراب میں اسی نسبت سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ معاشی عوامل پر حکومت کی گرفت کم و بیش ختم ہو چکی۔ نئی معاشی حکمتِ عملی نے کم از کم دس لاکھ افراد کو بے روزگار کیا ہے۔ یہ لوگ کسی آگ کا تو ایندھن بنیں گے۔ یہ جرم کی آگ ہو سکتی ہے اور حکومت مخالف تحریک کی بھی۔ یہ دلیل اب زائد از مدت (Expire) ہو چکی کہ یہ سب پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ اب نئی مہم یہ ہے کہ سارا ملبہ وزیروں مشیروں پر ڈال کر عمران خان سے نئی نسل کے رومان کو بچا لیا جائے۔ تاریخ مگر یہ ہے کہ زمینی حقائق رومان کو کھا جاتے ہیں۔ ساحر نے برسوں پہلے رومان سے جنم لینے والے مخمصے کے متاثرین کو مشورہ دیا تھا کہ
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
مشاہدہ یہی ہے کہ عام طور پر لوگ دوسرے مصرعے میں بیان کی گئی نصیحت ہی پر عمل کرتے ہیں۔ بے روزگاری اور ڈھلتی عمر کا روگ‘ دونوں اس رومان کو کھا جائیں گے جو عمران خان سے وابستہ ہے۔
وقت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تھمتا نہیں۔ قرار اس کاخاصہ نہیں۔ اس کی باگ کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں کہ جب چاہے اس کو روک دے۔ عمران خان جس سیاسی منظر نامے میں ابھرے، وہ اب تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ نواز شریف اور آصف زرداری کا اینٹی تھیسس تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ دونوں ماضی کا حوالہ بن جائیں گے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو کی صورت میں ان کا ظہورِ ثانی ہو چکا۔ نواز شریف اپنے بیانیے اور مریم کے روپ میں زندہ رہیں گے۔ بلاول دراصل بے نظیر بھٹو کا احیا ہے۔ زرداری صاحب بہت جلد قصۂ پارینہ ہوں گے۔ جیسے ہی یہ دونوں منظر سے ہٹیں گے، عمران خان صاحب کا وجود بے معنی ہو جائے گا۔ جب تھیسس نہیں رہے گا تو اینٹی تھیسس کیسے رہ سکتا ہے؟
سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو چکی۔ سیاست کرکٹ کا کھیل نہیں، یہ ریلے ریس ہے۔ نواز شریف اور زرداری نے اپنی اپنی مشعل نئے کھلاڑیوں کو دے دی۔ عمران خان کی مشعل تھامنے والا کوئی نہیں۔ نئے منظر نامے میں وہ اپنی جگہ بنا سکتے تھے اگر وہ مفاہمت کی سیاست کرتے اور قوم کو مجتمع کر دیتے۔ اس طرح وہ ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز بن جاتے اور یہ دور ان سے منسوب ہو جاتا۔ اپنی افتادِ طبع کے باعث انہوں نے یہ موقع کھو دیا۔
اس پس منظر میں، نئے سیاسی اتحاد کی کامیابی کے امکانات وسیع دکھائی دیتے ہیں۔ آج ایک سیاسی اتحاد پہلے سے موجود ہے۔ یہ تحریکِ انصاف، قاف لیگ اور ایم کیو ایم کا اتحاد ہے جو برسرِ اقتدار ہے۔ اس کے جواب میں ایک نیا اتحاد قائم ہو رہا ہے۔ سیاست میں اتحاد سازی کوئی ان ہونا واقعہ نہیں۔ اس کے لیے مکمل اتفاقِ رائے بھی ضروری نہیں ہوتا۔ ہمیشہ کسی مشترکہ مطالبے یا مقصد کے لیے اتحاد بنتے ہیں۔ عمران خان صاحب خود پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ساتھ اتحاد بنا چکے۔ اس لیے اس اتحاد کے خلاف حکومت کی حالیہ مہم بے ثمر رہے گی۔
ایک پیش رفت اور ہے جس کا ایک مظہر پی ٹی ایم ہے۔ معلوم نہیں ہمارے مقتدر حلقوں کو کب یہ احساس ہو گا کہ جب قومی سیاسی جماعتوں کے راستے بند کئے جاتے ہیں تو ایم کیو ایم جیسے گروہ نمودار ہوتے ہیں۔ سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر، میں پورے تیقن سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ضیاالحق صاحب پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو آزادی سے کام کرنے دیتے تو ایم کیو ایم کبھی وجود میں نہ آتی۔ اسی طرح آج اگر قومی جماعتوں کو آزادی عمل میسر ہوتا تو پی ٹی ایم جیسی جماعتیں جنم نہ لیتیں۔ اب ان کا ظہور ہو چکا۔ آج اگر ان کا راستہ طاقت سے روکا جا ئے گا تو یہ ایک نئے بحران کو جنم دے گا۔ فرشتہ جیسی معصوم کلی کو جس طرح مسلا گیا، وہ ایک قومی المیہ ہے مگر اسے نسلی مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ واقعہ اس چھپے خطرے کا پتہ دیتا ہے جو زیرِ زمین پنپ رہا ہے۔
ایک پیش رفت وہ ہے جس کا تعلق خارجی دنیا سے ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ کسی وقت بھی بھڑک سکتی ہے۔ اب اگر ایسا ہوتا ہے تو سعودی عرب اور ایران براہ راست متصادم ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کی آنچ ہم تک بھی پہنچے گی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے جب بھی مشرقِ وسطیٰ میں کوئی بحران اٹھا، ہم اس کے براہ راست متاثرین میں شامل تھے۔
ان سب واقعات کو اگر یکجا کریں تو پاکستان اس وقت دشمنی کی حدوں کو چھوتی سیاسی مخاصمت، مہنگائی، معاشی اضطراب، مایوسی اور فرقہ واریت کی گرفت میں ہے۔ اس کا صرف ایک علاج ہے‘ اور وہ ہے قومی سطح پر ایک میثاق پر اتفاق۔ اس وقت ملک کا نظم جن دیدہ اور نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں ہے، ان میں دور دور تک اس صورتِ حال کا کوئی ادراک نہیں۔ انہوں نے ابھی چوروں کو پکڑنا ہے۔ نواز شریف تو جیل پہنچ چکے۔ زرداری صاحب کو بھی وہاں پہنچا کر دم لینا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم سیاسی قیادت کو جیل پہنچا کر ہی رہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں رہا کرنا پڑا لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایسی صورتِ حال میںکوئی ایک واقعہ دیا سلائی بن جاتا ہے۔ کوئی ایک عزیزی، کوئی ایک فرشتہ۔ میں سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے دل، مگر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات سے دہلتے نہیں۔ وہ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب آگ چاروں طرف پھیل جائے اور اس پر قابو پانا انسانی بس میں نہ رہے۔
رمضان کی ان بابرکت ساعتوں میں، میں اس صورت حال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا طالب ہوں۔ ہم عوام تو صرف دعا کر سکتے ہیں۔