فرقہ واریت بڑھ رہی ہے، اس کا علاج؟ ''تمام علما کو ایک جہاز پر سوار کرا دیا جائے اور پھر اسے سمندربرد کر دیا جائے‘‘۔ ایسے تیقن سے جواب ملتا ہے جیسے کسی آفاقی حقیقت کا بیان ہو۔
'کیا اچھا علاج ہے جو اتا ترک نے کیا۔ کیا اصلاح ہے جو خمینی صاحب نے کی! پاکستان کو بھی ایک اتا ترک چاہیے۔ ہمیں بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے‘۔
ایک خواہش ہے جو برسوں سے دلوں میں پنپ رہی ہے۔ کیا اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے؟ کیا پاکستان کو ایک فاشسٹ ریاست بنایا جا رہا ہے؟
سیاسی ماحول میں بکھرے خیالات اور آرزوئوں نے اس سوال کو جنم دیا ہے۔ کسی جواب تک پہنچنے سے پہلے، یہ جاننا اہم ہے کہ 'فاشزم‘ کیا ہے؟
فاشزم بیسویں صدی میں اٹھنے والی ایک مقبول عوامی تحریک تھی اور سیاسی نظریہ بھی۔ سادہ لفظوں میں آمرانہ مزاج کو جب عوامی تائید کا ساتھ میسر آ جائے تو فاشزم جنم لیتا ہے۔ تاریخ میں ہٹلر اور مسولینی اس کی نمائندہ شخصیات سمجھی جا تی ہیں۔ صدر ٹرمپ کو 'نیو فاشسٹ‘ کہا جاتا ہے۔ فاشزم کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ جمہوریت کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ جمہوریت اکثریت کی آمریت کا نام ہے۔ یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔
جمہوریت‘ اقدار پر مبنی ایک نظام میں عوامی خواہشات کے بروئے کار آنے کا نام ہے۔ عوام آزادی سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کسے حکمرانی کا حق دینا چاہتے ہیں۔ یہ حکمرانی ایک جماعت یا طبقے کو ایک عمرانی معاہدے کے تحت میسر آتی ہے، جسے آئین کہتے ہیں۔ آئین اقتدار ہی کی حدود طے نہیں کرتا، اقلیتوں کے حقوق کا بھی محافظ ہوتا ہے۔ آزادیٔ رائے کو بھی یقینی بناتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام اس کے لوازم میں سے ہے۔ یوں جمہوریت اکثریت کی آمریت کے ہر امکان کو ختم کر دیتی ہے۔ اکثریت کے نام پر جب بے مہار اور آئین یا اخلاق کے دائرے سے ماورا حقِ اقتدار استعمال کیا جائے تو پھر جمہوریت نہیں، فاشزم جنم لیتا ہے۔
عوامی سطح پر مقبول، کم و بیش ہر شخصیت میں فاشزم کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ہٹلر بھٹو صاحب کی دلچسپی کا خاص موضوع تھا۔ تنویر احمد خان مرحوم ہمارے سیکرٹری خارجہ رہے ہیں۔ کئی ممالک میں سفیر بھی رہے۔ ایک ملاقات میں انہوں نے مجھے بتایا کہ جب بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے اور وہ کسی مغربی ملک میں تعینات تھے تو ایک دن ان کا فون آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی مصروفیات کے باعث وہ کئی ماہ سے کتابوں کی کسی دکان پر نہیں جا سکے۔ ایک سال پہلے تک ہٹلر پر جو کتابیں شائع ہوئیں، وہ ان کے پاس موجود ہیں۔ اگر اس دوران میں اس موضوع پر کوئی نئی کتاب آئی ہو تو وہ انہیں بھجوا دیں۔
آج فاشزم کے بارے میں بہت سا تحقیقی مواد موجود ہے۔ جرمنی اور اٹلی کے علاوہ آسٹریا، ناروے‘ جنوبی افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت، دنیا کے مختلف علاقوں میں جنم لینے والے فاشزم کے مختلف ماڈلز اور ان کے خواص پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس نظریے کی نمائندہ شخصیات کی زندگی اور افکار پر بہت کام ہوا ہے۔ ایک وقت میں یہ کہا جاتا تھا کہ دنیا پر جس شخصیت پر سب سے زیادہ لکھا گیا، وہ ہٹلر ہے۔ مجھے معلوم نہیں آج کیا صورتِ حال ہے۔
انسائیکلوپیڈیاز کے مقالات میں ایک موضوع پر موجود علم کا اچھی طرح احاطہ کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا میں فاشزم پر ایک مبسوط مقالہ موجود ہے۔ اس میں فاشزم کے خواص بتائے گئے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے اس نظریے کی ایک تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ میں اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے، اس نظریے کے مختلف مظاہر کے چند مشترکہ خواص کا یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے اس سوال کا بڑی حد تک جواب مل جائے گا کہ کیا ہم فاشزم کے راستے پر چل نکلے ہیں۔
1۔ پارلیمانی جمہوریت کی مخالفت: فاشسٹ الیکشن کے مروجہ نظام کو درست نہیں سمجھتے۔ ہٹلر کے بدنامِ زمانہ وزیر برائے پروپیگنڈا گوئیبلز کا کہنا تھا کہ عوام کبھی حکمران نہیں ہوتے۔ یہ اعیان و خواص ہیں جنہوں نے ہمیشہ تاریخ ساز ادوار کی بنیاد رکھی۔ ہٹلر کا خیال بھی یہی تھا کہ جمہوریت خواص کے فطری انتخاب کے عمل کو برباد کرتی ہے۔ سپین کے فاشسٹ راہنما کا کہنا تھا کہ انتخابات سے سپین کی تعبیر نہیں ہو سکتی۔ مسولینی نے بھی ایک قانون منظور کیا جس کے تحت اکثریت پارٹی کو خود بخود پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جاتی تھی۔
گویا فاشسٹ عوامی تائید پر کھڑے تھے لیکن ان پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے‘ جو پارلیمانی جمہوریت منتخب افراد پر عائد کرتی ہے۔
2۔ مطلق اقتدار کی خواہش: فاشست یہ خواہش کرتے ہیں کہ انہیں ایسا اقتدار ملے جس پر کوئی قدغن نہ ہو۔ ہٹلر نے کوشش کی کہ اقتدار میں آنے کے بعد تمام سیاسی و سماجی ادارے ان کے کنٹرول میں آ جائیں۔ اس نے تو 'ہٹلر یوتھ‘ کے جو گروپس بنائے، ان میں نوجوانوں کی حب الوطنی کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ وہ گھر کے ان افراد کی نشان دہی کریں جو نازی ازم کے مخالف ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا کہ کس طرح گھر گھر میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہو گی۔ مسولینی نے بھی نعرہ دیا کہ ''لیڈر ہمیشہ درست ہوتا ہے‘‘۔ لوگوں کو اس پر اندھا اعتماد ہونا چاہیے۔
3۔ عسکری اقدار: فاشسٹ عوام کو ایک خاص فوجی نظم و ضبط میں لانے کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قوم میں بھی فوجی ڈسپلن ہونا چاہیے، جیسے جرأت۔ سوال کیے بغیر، غیر مشروط اطاعت۔ اس باب میں مسولینی کے اقوال بہت مشہور ہوئے جیسے 'میدان جنگ کا ایک لمحہ طویل پُرامن زندگی سے بہتر ہے‘ 'شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی بھیڑوں کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘۔
4۔ عوامی حلقوں‘ بالخصوص نوجوانوں کا تحرک: فاشسٹ تحریکوں کی حکمتِ عملی میں لوگوں میں ہیجان برپا کرنا بہت اہم رہا ہے۔ ہٹلر اس کا خاص اہتمام کرتا تھا۔ اس کے لیے مارکیٹنگ اور تشہیر کی جدید تکنیک استعمال کی جاتی تھی۔ جلسوں میں ایک خاص ڈرامائی ماحول بنایا جاتا‘ جس میں عقل سے زیادہ جذبات مخاطب ہوتے تھے۔ اسی طرح فوجی طرز کی موسیقی سے کام لیا جاتا تاکہ لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا جائے۔ ہٹلر دن کے بجائے رات کو اجتماعات کا انعقاد کرنا کیونکہ رات کو ایک مصنوعی ماحول تخلیق کرنا آسان ہوتا ہے۔
5۔ واحد قیادت کا تصور: فاشسٹ تحریکوں میں ایک واحد لیڈر کے تصور کو فروغ دیا جاتا۔ ایک فردِ واحد کو گلیمرائز کیا جاتا اور سب کو اس کی غیر مشروط اطاعت کا درس دیا جاتا۔ پس منظر یہی تھا کہ اس کی صلاحیت اور دیانت شک و شبے سے بالا تر ہے۔
6۔ فاشزم میں ایک مخصوص کردار کی تعمیر کو فکری ارتقا و تعمیر پر ترجیح دی جاتی۔ اس میں آزادیٔ فکر کو معیوب سمجھا جاتا اور اس بات کو پسند کیا جاتا کہ فرد ایک خاص کردار میں ڈھل جائے جو ریاست یا قیادت کو مطلوب ہے۔ ایک نازی لکھاری ہرمن کلاس کے مطابق استاد کا کام محض علم دینا نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک سپاہی ہے جو سیاسی و ثقافتی محاذ پر لڑتا ہے۔
فاشسٹ تحریکوں کے اور خواص بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ اس کالم میں محض یہ واضح کرنا مطلوب تھا کہ فاشزم جوہری طور پر کیا ہے۔ ہم پاکستان میں ابھرنے والی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کا جائزہ لے کر بتا سکتے ہیں کہ ان میں کون سے فاشسٹ رجحانات رکھتی ہیں۔ ان فاشسٹ تحریکوں کا کیا انجام ہوا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ آج جرمنی میں ہٹلر برائی کی علامت ہے اور قوم اس ماضی سے اعلانِ برات کر چکی‘ جو نازی ازم سے منسوب ہے۔ ہٹلر نے بالآخر خود کشی کر لی اور مسولینی کو فائرنگ سکاڈ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا۔