ہمارا تجزیہ خام کیوں ہے؟
گزشتہ دنوں سیگمنڈ فرائیڈ کے چند مضامین پڑھے۔ وہی فرائیڈ‘ جسے بابائے نفسیات کہا گیا ہے۔ ایرک فرام کی 'خرد مند معاشرہ‘ (The Sane Society) کو بھی ایک بار پھر دیکھا۔ فرائیڈ نے 'پاپولزم‘ کو موضوع بنایا ‘جو عہدِ حاضرکی سیاست کا بھی اہم مسئلہ ہے۔ قضیے کی بنیاد پر اس نے انگلی رکھ دی ہے۔ انسان جبلی تقاضوں کا اسیر ہے‘ اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی خواہشات کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ اس کے بر خلاف سماج ایک تنظیم کا متقاضی ہے ‘جو جبلتوںکو بے مہار چھوڑ دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ زندگی کو اِن دو انتہاؤںکے مابین ہی بسر ہونا ہے۔ ایک توازن کی تلاش اس کا اصل امتحان ہے۔
تنائجِ فکر پر اس وقت بحث نہیں‘ اصل سوال یہ ہے کہ ایک معاشرے میں‘ کیا وہ لوگ موجود ہیں‘ جو واقعات سے جنم لینے والی ابدی صداقتوں کو دریافت کر سکتے اور پھر ان سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اپنے معاشرتی مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں۔ ڈیوڈ ہیوم‘ فرائیڈ‘ فرام اور مارکس جیسے نابغہ ہائے روزگار نے جو کچھ لکھا‘ اپنے عہد کو سامنے رکھ کر ہی لکھا۔ برطانیہ اور جرمنی کا وہ معاشرہ‘ یہ حضرات جس میں زندہ تھے‘ ان کے تجزیے کی بنیاد بنا۔ اُن کے تجزیوں میں آخر ایسی کیا بات تھی کہ وہ ایک نئے عہد کے خالق بن گئے۔ کوئی وجہ تو ہو گی کہ ان کی باتوں کی صدائے بازگشت آج بھی سنی جاتی ہے اور ان سے روشنی لی جاتی ہے۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ مسلم معاشروں میں کم از کم گزشتہ تین صدیوں میں کوئی ایسا بڑا آدمی پیدا نہیں ہوا‘ جس نے سماجی علوم کو اپنی تحقیق کا مرکز مانا ہو اور انہی خطوط پر مسلم سماج کی نفسیاتی ساخت کا جائزہ لیا ہو‘ جس طرح فرائیڈ‘ فرام یا درخیم جیسے لوگوں نے اپنے معاشرے کا تجزیہ کیا ہے۔ لے دے کر‘ ایک شاہ ولی اللہ۔ اس کے علاوہ الہیات کے باب میں چند نام مل جائیں گے‘ مگر اس کے سوا کچھ نہیں۔ جو لوگ نمایاں ہوئے‘ ان میں جمال الدین افغانی جیسے ہی تھے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کی تبدیلیوں کا کسی طور ادراک نہ کر سکے۔ زمانہ ایک کروٹ لے کر سلطنتوں کے عہد سے قومی ریاستوں کے عہد میں داخل ہو رہا تھا‘ اور وہ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کے خواب دیکھ رہے تھے۔
مغرب کے بر خلاف مسلم معاشرے میں تخیّل کے گھوڑے ایک ہی میدان میں دوڑتے رہے: سیاسی اقتدار کا احیا۔ عظمت رفتہ کی بازیافت کیسے ہو؟ علامہ اقبال سمیت کوئی اس خیال کی گرفت سے نہیں نکل سکا۔ مغرب کے علم سے براہ راست آشنائی نے اگرچہ اُن میں یہ احساس بھی پیدا کر دیا تھا کہ قوموں کے عروج و زوال کو سماجیات کے حوالے سے سمجھنا ضروری ہے اور انہوں نے اس باب میں مسلمانوں کو متوجہ بھی کیا‘ لیکن ان کی فکر کا غالب حصہ اسی سیاسی احیا ہی کے گرد گھومتا رہا۔ یوں ہماری صفیں ہیوم اور فرائیڈ جیسے لوگوں سے خالی رہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آخری آدمی جس نے سماجیات کے حوالے سے معاملات کو دیکھا‘ وہ ابنِ خلدون تھے۔ اس سے پہلے غزالی۔
یہ تو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ہاں عقل و عرفان کے سوتے خشک ہو گئے۔ قدرت نے اس باب میں کبھی امتیاز سے کام نہیں لیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ تاریخ کا پیمانہ گردش میں ہے جو کبھی ایک قوم کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور کبھی دوسری قوم کے‘ لیکن اگر کوئی ہاتھ بڑھا کر اٹھا لے تو ساغر اسی کا ہے۔ اس کے لیے اپنا استحقاق ثابت کرنا پڑتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم تین صدیوں سے اس پیالے پر اپنے حق کا کوئی ثبوت فراہم نہیں سکے۔
اہلِ اسلام کا المیہ‘ اس وجہ سے دوچند ہے کہ ان کے پاس تو غیر محرف الہامی ہدایت بھی موجود ہے۔ قرآنِ مجید ہدایت کی کتاب ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اس کا خاص موضوع ہے۔ اس نے جہاں یہ بتایا کہ اس نظم ِ حیات کے بارے میں خدائی فیصلہ کیا ہے‘ وہاں یہ بھی بتایا کہ اس نظمِ کائنات کو کچھ قواعد کا پابند بنایا گیا ہے۔ جو ان کے ساتھ اپنی مطابقت ثابت کر دے گا‘ اس کا وجود ثابت رہے گا۔ ڈارون جیسے لوگوں نے خدا کی دی ہوئی عقل سے اس نظم کے اصول دریافت کرنا چاہے۔ اس ادھورے علم نے تہذیب کے خدوخال بدل ڈالے۔ جنہیں عقل کے ساتھ اپنی کتاب بھی دی‘ گویا پورا علم دیا‘ افسوس کہ وہ انسانوں کی کچھ راہنمائی نہ کر سکے۔
مسلمانوں کا معاملہ تو کئی حوالوں سے حیران کن ہے۔ یقینی علم کے دو ماخذ‘ قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی سنت و حیاتِ مبارکہ‘ روشن چراغ کی طرح سامنے رکھے ہیں اور وہ اُن سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ ظنی علم سے رازِ حیات تلاش کر رہے ہیں۔ ہیروں کو چھوڑ کر سنگ ریزوں سے دامن بھرنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید بتا رہا ہے کہ اجتماعی عروج و زوال کا انحصار کن باتوں پر ہے‘ اور وہ اس سے ہدایت کشید کرنے کے بجائے‘ ضعیف روایات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کو بشارت سنا رہے ہیں یا وعید۔ سادہ سی بات ہے کہ وہ معاملات جن پر عروج و زوال اور آخری نجات کا انحصار ہے‘ ان کا ابلاغِ عام کیا گیا ہو گا یا انہیں اس طرح بتایا گیا ہو گا کہ ان کی سند ہی مشتبہ ہو جائے؟
علم و عرفان کا یہ وہ منظر نامہ ہے‘ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تجزیہ خام رہے۔ تاریخ فطری اصولوں کے تحت کروٹ لے رہی تھی اور ہمارے تجزیہ کار یہ بتا رہے ہیں کہ یہ دراصل قسطنطنیہ کو استنبول بنانے کی سازش تھی۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف تو مان لیا سازش ہوئی‘ سلطنتِ برطانیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ کیوں ختم ہوئی؟ اگر معروضی تجزیہ کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ دراصل تاریخ اپنا پہلو بدل رہی تھی۔ وہ سلطنتوں کے دور سے قومی ریاستوں کے عہد میں داخل ہو رہی تھی۔ خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ برطانیہ کا سورج بھی غروب ہو رہا تھا کہ فطرت کے اصول سب پر یکساں نافذ ہوتے ہیں۔
پاکستان اور ساؤتھ افریقہ کا کرکٹ میچ دیکھتے وقت‘ میں ایک عجیب تجربے سے گزرا۔ میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو فتح مند کر۔ ساؤتھ افریقہ کے کھلاڑی غلطی کریں اور آؤٹ ہو جائیں۔ اسی دوران مجھے خیال آیا کہ یہ بھی اللہ کے بندے ہیں۔ اگر انہوں نے مروجہ طریقوں کے مطابق کھیل میں کامیابی کے لیے تیاری کی ہے تو کیا یہ عدل کے مطابق ہو گا کہ انہیں ایک خدائی مداخلت سے ناکام بنا دیا جائے؟ رب العالمین اور ایک عادل ہستی سے یہ توقع کرنا‘ کیا اس کی شان کے مطابق ہے؟
ایک لمحے میں میری کیفیت بدل گئی۔ مجھے لگا کہ دعا تو میں کروں گا کہ ایک بندہ ہوتے ہوئے‘ یہ میرے منصب کا تقاضا ہے‘ لیکن عالم کا پروردگار اس کی قبولیت کا فیصلہ اپنی شان اور اپنی سنت کے مطابق کرے گا۔ اگر میں کرکٹ کی ضروریات کا خیال نہ کروں‘ صرف دعا مانگتا رہوں اور خود کو مردِ مومن ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کروں‘ یہ سوچ کر کہ اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ 'تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘ تو یہ میرے فہم کا قصور ہے۔ اگر میں ناکام رہتا ہوں تو پھر مجھے اپنے رب سے گلہ نہیں کرنا چاہیے‘ اپنے فہم و فراست کا ماتم کرنا چاہیے۔ میں نے کتاب اللہ کو سمجھا نہ کائنات میں کارفرما سنت اللہ کو۔
مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ یہ ہے کہ وہ الہامی ہدایت کو صحیح تناظر میں سمجھ سکے اور نہ اس عقل ہی سے کام لے سکے جو وحی کے ساتھ اللہ کی عطا کردہ دوسری بڑی نعمت ہے۔ اس کا حاصل خام تجزیے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ تجزیہ تشخیص کی طرح ہوتا ہے۔ جب تشخیص ہی نہ ہو تو علاج کیسا؟ فرائیڈ نے ایک صدی پہلے پاپولزم کے مسئلے کو سماجی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی۔ ہم نے آج تک اس کی کتنی کوشش کی؟