عرفان صدیقی صاحب کی ضمانت ہو گئی۔ وہ تو جیل سے نکل آئے مگر حکومت، کیا اِس گرفتاری کے اثرات سے نکل پائے گی؟
صدیقی صاحب ایک عرصے سے خاموش ہیں۔ اِن دنوں کسی اخبار میں ان کا کالم نہیں چھپتا۔ سوشل میڈیا پر بھی وہ دکھائی نہیں دیتے۔ نواز شریف صاحب لندن سے لوٹے تو وہ ان کے ہم سفر تھے۔ اس تاریخی سفر کی روداد انہوں نے لکھی جو ایک اخبار میں شائع ہوئی۔ پھر سوشل میڈیا پر ایک آدھ تحریر اور اس کے بعد مکمل سکوت۔ بظاہر سیاست و صحافت سے لا تعلق ایک فرد پر حکومت کی یہ نوازشات کیوں؟
میرے نزدیک یہ نئے پاکستان کی منطقی ضرورت ہے۔ نئے پاکستان کے تصور میں نواز شریف صاحب کی حیثیت ایک ولن کی بن دی گئی ہے۔ وہ پرانے پاکستان کی یادگار ہیں۔ نیا پاکستان اس وقت تک تعمیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام نقشِ کہن مٹا نہ دیے جائیں جو پرانے پاکستان کی یاد دلاتے ہیں۔ نواز شریف صاحب اگر ولن ہیں تو ان سے وابستہ ہر فرد، حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبہ بھی نئے پاکستان میں قابلِ قبول نہیں۔
مسلسل پروپیگنڈے سے یہ باور کرایا گیا کہ یہ منصوبے دراصل فرد کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ اکثر ایسے تجزیے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ جتنے پیسوں سے لاہور کی میٹرو بنی، اس سے تو پورے شہر کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا سکتا تھا۔ نتیجہ اس سے یہ نکالا جاتا ہے کہ اگر لاہور کے شہری صاف پانی سے محروم ہیں تو اس کی ذمہ دار میٹرو بس سروس ہے۔ اس طرح ایک شہری ایک منصوبے سے روزانہ فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن پروپیگنڈے کے زیرِ اثر یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ دراصل اس کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔
ہیجان اور رومان کی فضا میں منطق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اب کوئی یہ سننے کے لیے تیار نہیں کہ جب کسی شہر کی آبادی ایک کروڑ سے بڑھ جائے تو ایسے شہر کے لیے اس طرح کا ٹرانسپورٹیشن سسٹم پینے کے صاف پانی سے کسی طور کم اہم نہیں ہوتا۔ ولن کا تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اسے سراپا شر بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ یوں میٹرو جیسے منصوبے، ایک ولن سے منسوب ہونے کی بنا پر پرانے پاکستان کی علامتیں بن جاتے ہیں جنہیں مٹانا ضروری ہوتا ہے۔
عرفان صدیقی صاحب کا معاملہ بھی یہی ہوا۔ انہیں نئے پاکستان میں ایک نقشِ کہن کے طور پر دیکھا گیا۔ یوں اس کو 'مٹانا‘ ضروری ہو گیا۔ چونکہ حکومت میں ابھی ایک گروہ ایسا موجود ہے جس کا پس منظر سیاسی ہے، اس لیے اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ عرفان صدیقی صاحب کی شناخت صرف اتنی نہیں کہ وہ نواز شریف صاحب سے قربت رکھتے ہیں۔ اصلاً وہ ایک صاحبِ قلم ہیں۔ ان کی بنیادی شناخت صحافت ہے۔ اگر انہیں ہدف بنانے کی کوشش کی جائے گی تو اسے آزادیٔ رائے سے الگ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی ہوا اور حکومت کو اس معاملے میں ندامت اٹھانا پڑی۔
یہ گرفتاری اور رہائی حکومت کے لیے ایک اہم سوال چھوڑ گئی: منتخب حکومت کو فاشزم کے طرز پر چلانا بہتر ہے یا جمہوری طریقے سے؟ اس وقت اگر حکومت میں شامل لوگوں کا تجزیہ کیا جائے تو ایک طبقہ وہ ہے جس کا پس منظر سیاسی ہے۔ دوسرا غیر سیاسی ہے۔ کوئی کسی ریاستی ادارے کا ریٹائرڈ افسر ہے اور کسی کی واحد خوبی اس کا صاحب ثروت ہونا ہے۔ اب حکومت کے اہم ترین مناصب ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو غیر سیاسی پس منظر رکھتے ہیں یا دولت مند ہیں۔
یہ لوگ ریاست کے نظام کو سیاسی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سیاست اور تاریخ کے باب میں نیم خواندہ ہیں۔ سطحی سیاسی تجزیے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ جبر اور خوف سے نظام بدل جاتے ہیں۔ انقلاب کا نام انہوں نے سن رکھا ہے‘ لیکن یہ نہیں جانتے کہ انقلاب کیسے برپا ہوتے ہیں اور معاشروں پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ہیجان اور رومان کی فضا سے انقلاب برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ یوں جمہوری عمل پر فاشزم کی چھاپ لگ جاتی ہے۔
فاشزم چونکہ انقلابی سوچ سے اپنی طاقت کشید کرتا ہے، اس لیے انقلاب کی طرح رومان اور ہیجان اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہوتے ہیں۔ فاشزم میں بظاہر جمہوری لبادہ اوڑھ لیا جاتا ہے جیسے انتخابات وغیرہ لیکن اقتدار ملنے پر اس لبادے کو اتار پھینکا جاتا ہے۔ ہٹلر اور میسولینی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایسے طرزِ حکومت میں عوامی غصے کو کسی گوئبلز کی مدد سے وہ استدلال فراہم کیا جاتا ہے جو ہیرو اور ولن کے مطلوب تصور کو پختہ کرتا ہے۔ اس میں پروپیگنڈا اتنا موثر ہوتا ہے کہ لوگ الزام کو جرم سمجھتے ہیں۔
آج تحریک انصاف کے نوجوان کو ذرہ برابر شبہ نہیں کہ شریف خاندان کرپٹ ہے۔ اس یقین کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس کوئی نا قابلِ تردید دلیل ہے۔ یقین کا سبب وہ پروپیگنڈا ہے جس میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ کسی دوسرے زاویہ نظر کو قابلِ غور بھی سمجھا جائے۔ اس کو جج ارشد ملک صاحب کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ساری بحث اس پر ہو گی کہ ان کی وڈیو کیوں بنائی گئی۔ کوئی اس سوال پر غور کرنے پر آمادہ نہیں کہ ان فیصلوں کی کیا حیثیت ہے جو جج صاحب نے صادر کیے؟
اب اگر کوئی اس طرح کے سوالات اٹھائے تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس کے استدلال کو مخاطب بنانے کے بجائے، اس کی اخلاقی حیثیت ہی کو مشتبہ بنا دیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی آپ کے بیانیے کو چیلنج کرنے قابل نہیں رہے گا۔ فاشزم کا مطلب ہی یہ ہے کہ معاشرے میں صرف ایک بیانیہ چل سکتا ہے، دوسرا نہیں۔ اسی لیے فاشزم میں یک جماعتی نظام فروغ پاتا ہے۔
جمہوریت اس کے برعکس تنوع کے فروغ کا نام ہے۔ یہ اختلافِ رائے کے احترام کا نام ہے۔ اس میں دوسرے نقطہ ہائے نظر کو قبول کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ سب کی بات سنیں اور پھر اپنی آزادانہ مرضی سے فیصلہ کریں۔ اس میں زبان بندی نہیں ہوتی۔ اس میں ایسے قوانین نہیں بنتے جن کی مدد سے مخالف آوازوں کو دبایا جائے۔ اس میں حیلوں بہانوں سے جبر کا نظام مسلط نہیں کیا جاتا۔
عمران خان صاحب اسی سوچ کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کا ہر عوامی خطاب اس کا مظہر ہے۔ بد قسمتی سے ان کی کابینہ میں بھی ایسے لوگوں کا غلبہ ہے جو یہی سوچ رکھتے ہیں۔ یوں جمہوری اقدار کے ساتھ موجودہ حکومت کی وابستگی دن بدن مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری کو بھی سماج نے اسے حوالے سے دیکھا ہے۔
عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری اور اس پر سیاسی و صحافتی حلقوں کے ردِ عمل سے کیا حکومت کچھ سیکھے گی؟ کیا اسے اندازہ ہوا ہے کہ جمہوریت میں عوامی مقبولیت رکھنے والے کسی راہنما کو حکومتی جبر سے ولن نہیں بنایا جا سکتا؟ کیا اسے اندازہ ہے کہ جمہوریت انقلاب کا نہیں ارتقا کا نام ہے۔ کیا اسے معلوم ہے کہ ارتقا روایت کو قبول کرتا ہے۔ یوں لازم نہیں کہ ماضی کا ہر نقش مٹانے کے لیے ہی ہو۔
ان سوالات کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ اگر فیصلہ سازی کا عمل ان ہاتھوں میں ہو گا جو جمہوری مزاج کے بجائے فسطائی سوچ رکھتے ہیں تو پھر یہ سلسلہ عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری پر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ صدیقی صاحب کا بیٹا تو صاحبِ مکان تھا۔ کل اگر نواز شریف صاحب کے کسی حامی کرایہ دار کے خلاف، مالک مکان کرایے کی عدم ادائیگی کی درخواست دے دے تو اسے گرفتاری سے کون بچا سکتا ہے؟ اگر ایسی بنیادوں پر مقدمات بننے لگے تو پھر کون ہے جو محفوظ رہ سکے گا؟