قرآن مجید کا کہنا یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ایک قوم کے ہاتھوں دوسری قوم کو دفع نہ کرتا تو اس زمین پر کوئی مسجد،کلیسا، راہبوں کے ٹھکانے اور عبادت گاہ باقی نہ رہتی۔ (الحج:40)۔ انسانی تاریخ کی گواہی یہی ہے کہ افراد کی طرح قومیں بھی فساد پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے مملو ہے جب سلطانوں اور سلطنتوں نے انسانی معاشروں کو تاراج کیا۔ محض اپنی سرحدوں کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالا اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا۔
یہ کہا گیا کہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ دراصل انسان کی توسیع پسند سرشت کے سامنے بند باندھنے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ انسان سلطنتوں کے دور سے نکلا اور اب قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ سرحدیں کھینچ دی گئی ہیں اور اب کسی کی مجال نہیں کہ کوئی کسی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ جنگ قصہ پارینہ ہوئی اور قوموں کی آزادی کا دور شروع ہوا۔
معلوم یہ ہوا کہ جو سنا تھا محض افسانہ تھا۔ اقوامِ متحدہ کی موجودگی میں اہلِ فلسطین کو ان کے گھروں سے نکالا اور بے دخل کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ نے اجازت دینے سے انکار کیا، مگر اس کے باوجود، امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا۔ افغانستان پر ایک نہیں، کئی ملکوں کے اتحاد نے حملہ کیا۔ ایک اتحاد آج یمن پر حملہ آور ہے۔ تازہ ترین واقعہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے۔
ان سب اقدامات کا استدلال کیا ہے؟ امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو بتایا گیا کہ اس کا مقصد اہلِ عراق کو ایک ظالمانہ نظام سے نجات دلانا تھا۔ اس مہم کو 'فریڈم‘ کا نام دیا گیا۔ یہودیوں کو ساری دنیا سے لا کر فلسطین میں آباد کیا گیا اور صدیوں کے مکینوں کو وہاں سے بے دخل کیا گیا تو اسے مظلوم یہود کی حمایت کہا گیا۔ نیٹو افغانستان پر حملہ آور ہوا تو یہی کہا گیا کہ دنیا کو اہلِ فساد سے نجات دلانا مقصود ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے اس سے صرفِ نظر کیجیے کہ عراق، افغانستان یا کسی اور خطے کے بارے میں یہ مقدمہ کتنا درست ہے، سوال یہ ہے کہ ان حملوں کے لیے، کیا جواز تلاش کیا گیا؟ یہی کہ ظلم کے خاتمے کے لیے اگر ناگزیر ہو تو جنگ کی جا سکتی ہے۔ یہ استدلال کسی ایک ملک کا نہیں، سب ممالک کا ہے۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کا موقف بھی یہی ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ دنیا میں کئی مقامات پر قیامِ امن کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام جنگی اقدام کیا جاتا ہے؟
دینِ اسلام کا موقف بھی اس باب میں یہی ہے۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ فتنہ یعنی مذہبی جبر کے خلاف تلوار اٹھائی جا سکتی۔ اگر کسی پر ظلم ہو، اسے گھروں سے نکالا جائے، صرف اس جرم پر کہ اس کا دین آپ کے دین سے مختلف ہے تو اس کے لیے قتال کیا جا سکتا ہے۔ اسلام نے اس کے علاوہ کسی دوسرے مقصد جیسے مسلمانوں کے غلبے یا کسی خاص مذہب کی بالا دستی کے لیے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ مذہبی آزادی اللہ تعالیٰ کے قانونِ آزمائش کا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ دین کا غلبہ رسالت مآبﷺ کے کارِ منصبی سے متعلق تھا۔ آپ اسے ادیانِ عرب پر غالب کر کے دنیا سے تشریف لے گئے۔ یوں یہ ایک واقعے کا بیان ہے جو اب تاریخ کی ناقابلِ تردید حقیقت ہے؛ تاہم دعوت اور آزادانہ مرضی سے اگر کوئی قوم اسلام قبول کر لے تو یہ دروازہ کھلا ہے۔
گویا یہ بات اصولی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ الہامی ہدایت ہو یا انسانی عقل پر مبنی کوئی فکر، دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو اسے روکنے کے لیے جنگ کی جا سکتی ہے۔ اس اصولی اتفاق کے بعد، یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا کہ کہاں ظلم حد سے بڑھ گیا ہے اور کون یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرے؟
مذہب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انسانی جان کی حرمت کو ہر شے پر مقدم رکھتا ہے۔ صرف دو صورتوں میں وہ انسانی جان لینے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک انسانی جان کے بدلے میں اور دوسرا فساد اور فتنے کی وجہ سے۔ پھر وہ یہ حد بھی لگاتا ہے کہ اس کا فیصلہ نظمِ اجتماعی یعنی حکومت کرے گی، کوئی فرد یا غیر منظم گروہ یا قوت نہیں۔ پھر یہ کہ جنگ صرف ناگزیر صورت میں لڑی جائے گی اور اس میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہب کے نزدیک فرد، انفرادی سطح پر خدا کے ہاں جواب دہ ہے۔ اسے کوئی قدم اٹھاتے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا ہے کہ کوئی جذبۂ انتقام یا کوئی دنیاوی غرض اس کے پیش نظر نہیں ہو گی۔ اسے تو سرسبز درخت کا بھی خیال رکھنا ہے۔ محارب اور غیر محارب میں فرق کرنا ہے، عورتوں، بچوں اور بستیوں کو ہدف نہیں بنانا۔ عبادت گاہوں، راہبوں اور عابدوں کا احترام کرنا ہے۔
اس آخری نکتے کے سوا، جس کا تعلق خدا کے سامنے جواب دہی سے ہے، دنیا میں آج جو جنگی قوانین نافذ ہیں، وہ بڑی حد تک مذہب کی تعلیمات ہی کے پرتو ہیں۔ اس لیے یہ کہنا ہے کہ جنگ کوئی راستہ ہی نہیں، نہ الہامی ہدایت کے مطابق ہے، نہ انسانی عقل کے۔ جو لوگ جہاد کی منسوخی یا مذہب کی روشنی میں جنگ کے موقوف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو دین میں اجنبی ہے۔ رہبانیت انفرادی زندگی میں گوارا کی جا سکتی ہے، اجتماعی زندگی میں نہیں۔
جنگ کے اعلان کو مذہب نظمِ اجتماعی کا حق قرار دیتا ہے۔ جدید دور میں یہ حق اقوامِ متحدہ کو دیا گیا ہے۔ یہ ظلم کے خلاف اجتماعی فیصلہ ہے، کسی ایک ملک کا نہیں۔ اب کسی ملک کے خلاف جنگ کے لیے لازم ہے کہ سلامتی کونسل اس کی منظوری دے جیسے افغانستان پر حملے کے وقت یہ منظوری دی گئی۔ سلامتی کونسل نے امریکہ کو عراق پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس لیے عراق پر امریکی حملہ ہر طرح سے ظلم کی تعریف میں آتا ہے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جنگ طلاق کی طرح کبھی انسانوں کا انتخاب نہیں رہی۔ یہ قدم انسان اس وقت اٹھاتا ہے جب کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے اس کا فیصلہ اجتماعی دانش کے تابع رکھا گیا ہے۔ یہی مذہب کی تعلیم ہے اور انسانی بصیرت بھی یہی کہتی ہے۔ پھر جنگ کا آغاز کرتے وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں فتنہ ختم ہو گا یا بڑھے گا۔ دنیا میں بہت سے شوریدہ سر اقدام کے ظلم سے، صرف اس بنا پر صرفِ نظر کیا جاتا ہے کہ کسی جنگی اقدام کے نتیجے میں فتنہ بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ کسی حکم کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس پر ہر صورت میں عمل لازم ہے۔ یہ عمل اسی وقت لازم ہو گا جب حالات اس کی اجازت دیں گے۔ جیسے مذہب میں زکوٰۃ کا حکم موجود ہے لیکن اس کا اطلاق اسی وقت ہو گا جب کوئی صاحبِ نصاب ہو گا۔ اسی طرح جہاد بھی اسی وقت ہو گا جب اس کے اسباب موجود ہوں گے۔ 1857ء میں آزادی کی مسلح جدوجہد ناکام ہوئی تو اس وقت سر سید ہی کی بات درست تھی کہ اب تلوار نہیں، کتاب اور قلم‘ اٹھانے چاہئیں۔
اس وقت بحث یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم جاری ہے مگر اقوامِ متحدہ اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کر نے پر آمادہ نہیں۔ آج اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے خلاف سفارت کاری ناکام ہو چکی۔ دنیا اس ظلم کو روکنے پر آمادہ نہیں تو پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر انشااللہ اگلے کالم میں بات کی جائے گی۔