سب کو اپنا فرقہ اور مسلک مبارک لیکن بصد احترام، فرقہ وارانہ جذبات کی تسکین اور مسلکی مخالفین کے ساتھ حساب چکانے کے لیے، کیا یہ وقت مناسب ہے؟
مسئلہ کشمیر پر عرب و عجم کا ردِ عمل ہمارے سامنے ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر فرقہ پرست اپنے محاذ پر شمشیر بدست اور برسرِ پیکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہی وقت ہے جب ہم مخالفین کو نیچا دکھا سکتے ہیں۔ عرب امارات نے مودی صاحب کو ایوارڈ دیا اور یہاں مطالبہ شروع ہو گیا کہ پاکستان ایران کی قیادت کو ایوارڈ دے۔ گویا ہم ایک بار پھر عرب ایران تنازعے کے لیے اپنے دروازے کھول دیں۔
عرب ممالک کی خارجہ پالیسی کیا ہے، ایران کس تناظر میں سوچ رہا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ میں ان گنت اور ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر یہ رائے رکھتا ہوں کہ ایک عرب پہلے عرب، پھر سنی اور پھر مسلمان ہے۔ اسی طرح ایک ایرانی پہلے ایرانی، پھر شیعہ اور پھر مسلمان ہے۔ الا ماشااللہ۔ یہ کوئی تنقید نہیں، امرِ واقعہ کا بیان ہے۔ متنوع شناختوں کے معاملے میں ہر قوم ایک ترتیب رکھتی ہے۔ اس کا تعلق اس کے تاریخی تجربے اور نظامِ فکر سے ہے۔ میں اسے فطری سمجھتا ہوں اس لیے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
یہ عرب ہوں یا ایرانی، انہوں نے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ان کے قومی مفادات کا تقاضا کیا ہے؟ قوم کا مفہوم ان پر اچھی طرح واضح ہے۔ سعودی عرب نے بارہا معاشی استحکام کے لیے ہماری مدد کی ہے۔ ہماری معیشت کو اگر ماضی قریب میں سنبھالا ملا ہے تو اس میں سعودی عرب کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے معاملے میں ہمیں سعودی عرب سے حسبِ خواہش تعاون نہیں مل سکا۔
ایران کے معاملات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ جب گوادر کی بندرگاہ تعمیر کے حتمی مرحلے میں تھی تو ایران نے چاہ بہار کو ایک متبادل تجارتی مرکز کے طور پر متحرک کرنے کا فیصلہ کیا۔ مئی 2016ء میں جب وزیراعظم مودی نے ایران کا دورہ کیا تو اس منصوبے کے لیے پانچ سو ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ دونوں کے مابین یہ طے پایا کہ منصوبہ مکمل ہو گا تو اس کے انتظامی معاملات ایک بھارتی کمپنی کے سپرد کر دیے جائیں گے۔ ایران کے شہری آبادی کے وزیر عباس اخواندی نے ستمبر2018ء میں بھارت میں یہ اعلان کر دیا کہ یہ بندرگاہ چند روز میں بھارتی کمپنی کے حوالے کی جا رہی ہے۔
بایں ہمہ، ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ مسئلہ کشمیر میں جب بھارت نے ظلم کے نئے دور کا آغازکیا تو ایران کی مذہبی و سیاسی قیادت نے اہلِ کشمیر سے اظہار یک جہتی کیا؛ تاہم انہوں نے ابھی تک 5 اگست کے بھارتی اقدام کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی پاک بھارت کشمکش میں پاکستان کا ساتھ دینے کا کوئی با ضابطہ اعلان کیا۔ پاکستان کی غیر مشروط اور دوٹوک تائید چین نے کی یا ترکی نے۔
مجھے سعودی عرب سے کوئی شکایت ہے اور نہ ایران سے۔ دونوں یہ حق رکھتے ہیں کہ اپنی ترجیحات کا اپنے قومی مفاد کی روشنی میں تعین کریں اور اس کے مطابق فیصلے کریں۔ اگر ایک مسئلے میں ایران نے ہماری حمایت کی ہے تو یہ کہاں لازم آتا ہے کہ دیگر معاملات میں بھی وہ ہماری طرف داری کرے۔ اسی طرح سعودی عرب نے اگر ہمارے معاشی مسائل کے حل میں ہماری مدد کی ہے تو کیا اس پر لازم ہو گیا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پاکستان کے پاس گروی رکھ دے؟
دنیا کا کوئی ملک اپنی خارجہ پالیسی مذہبی بنیاد پر نہیں بناتا۔ ہم مذہب ہونا اضافی فائدہ تو ہو سکتا ہے، جوہری نہیں۔ کیا آج فلسطین پر ساری دنیا کے مسلم ممالک کی حکمتِ عملی یکساں ہے؟ کیا سنکیانگ کے مسلمانوں کیلئے ہمارا موقف امتِ مسلمہ کے کسی تصور سے پھوٹا ہے؟ اگر نہیں ہے تو کشمیر کے مسئلے پر ہم کیوں یہ توقع رکھتے ہیں اسے ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہوئے عالمِ اسلام ہمارے ساتھ کھڑا ہو جائے گا؟
پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں بہت سے لوگوں کی ہمدردیاں اسلام آباد سے زیادہ ریاض یا تہران کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کی سوچ اسی حوالے سے آگے بڑھتی ہے۔ ان کی پوری کوشش ہو تی ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے کو کسی بہانے سے پاکستان میں لے آئیں۔ اب ایک بار پھر کشمیر کو بنیاد بنا کر اسی فرقہ واریت کا علم لہرایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بحث کا بازار گرم ہے اور لوگ حسبِ توفیق اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
پاکستان اس اعتبار سے دنیا کا منفرد ملک ہے۔ کم لوگ ہوں گے جو پاکستان کو ایک قومی ریاست فرض کرتے ہوئے، اس کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوں۔ پاکستان ایٹمی قوت بنا تو اس کی ستائش میں کہا گیا: عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت۔ عمران خان یا نواز شریف نے فلسطین پر کچھ کہہ دیا تو مداحوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا: عمران خان عالمِ اسلام کے قائد بن کر ابھرے ہیں یا نواز شریف نے امتِ مسلمہ کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔
یہ تبصرے دراصل ہماری نفسیاتی کیفیت کا بیان ہیں۔ یہ بتا رہے ہیں کہ ہماری اکثریت کس تناظر میں سوچتی ہے۔ جو مسلکی یا فرقہ وارانہ اختلافات سے بلند تر ہیں، وہ عالم اسلام کے حوالے سے موقف اختیار کرتے ہیں۔ فرقہ پرستوں کی دوڑ اپنے مسلک تک ہوتی ہے۔ جب اشتراکی زندہ تھے تو وہ بھی ماسکو یا پھر تیسری دنیا کو اپنا حوالہ بناتے تھے۔ پاکستان کسی کا حوالہ نہیں بن سکا۔
سادہ بات یہ ہے کہ کشمیر اس وقت کشمیریوں کا مسئلہ ہے یا پھر پاکستان کا۔ ان دو کے علاوہ یہ کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یا پھر ہمارے علاوہ دنیا میں پائے جانے والے وہ پاکیزہ نفوس ہیں جو ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو؟ ہمارا کسی پر کوئی دعویٰ نہیں۔ جو ہماری حمایت کرے گا، اس کا تعلق اس کی اپنی ترجیحات سے ہو گا اور اگر مخالفت گرے گا تو بھی اپنی ترجیحات کو سامنے رکھ کر۔ یہ بات اگر ہماری سمجھ میں آ جائے تو نہ توقعات کا دائرہ وسیع ہو اور نہ ہمیں مایوسی ہو۔
اقتدار اور طاقت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ دنیا میں غیر جانب داری ایک بے معنی شے ہے۔ نواز شریف صاحب نے اپنے دور میں کوشش کی کہ وہ یمن کے تنازعے میں غیر جانب دار رہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ شاید اسی کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں۔ دنیا میں سب کو پوزیشن لینا پڑتی ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات کی ایک پوزیشن ہے۔ اسی طرح ایران کی بھی ہے۔ پاکستان کو بھی پوزیشن لینی ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں سوچنا ہے کہ پاکستان سے ہماری مراد کیا ہے؟ ایک قومی ریاست؟ ایک مسلکی ریاست یا امتِ مسلمہ کا ہراول دستہ؟ میرے نزدیک پاکستان ایک قومی ریاست ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔ واشنگٹن ہمارا حوالہ ہے نہ بیجنگ۔ ریاض نہ تہران۔ ہمارا حوالہ اسلام آباد ہے۔ ہمیں اسی حوالے سے فیصلے کرنے ہیں۔ بطور مسلمان ہماری روحانی وابستگی دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ ان بیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ بھی جو بھارت کے شہری ہیں۔ بحیثیت پاکستانی، ممکن ہے کہ ہمارے مفادات ان سے متصادم ہوں۔ ایک ریاست کے طور پر اگر اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے تو دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے اور اقدام بھی کرنا چاہیے، اگر ہم اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔
آج پاکستان کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک اجتماعی کوشش ہی ہمیں اس سے نکال سکتی ہے۔ یہ جمع ہونے کا وقت ہے، بکھرنے کا نہیں۔ اس موقع پر بھی اگر فرقہ پرست بروئے کار آئیں تو پھر اس سے بڑی بد نصیبی کوئی نہیں ہو سکتی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان رجحانات کی حوصلہ شکنی کریں اور ان معاملات میں لوگوں کی تربیت کریں۔ بعض قلم بردار بھی اس حوالے سے ایک جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو بھی اسے وسیع تر تناظر میں دیکھا چاہیے۔ اگر ہم اس معاملے کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھنے لگے تو یہ قومی المیہ ہو گا۔ ہم اگر اپنے مسائل کم نہیں کر سکتے، ان میں اضافہ تو نہ کریں۔