ایک وفاقی وزیر نے بھی کشمیرکی صورتِ حال کو غزوۂ ہند کا آغاز قرار دے دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی یہ مذہبی تجسیم، کیا اہلِ کشمیر کے دکھوں کا مداوا کر سکے گی؟
تاریخ یہ ہے کہ مذہب جب اقتدار کی کشمکش میں فریق بنتا ہے تو پھر اپنے جوہر سے محروم ہو جاتا ہے۔ مذہب کا جوہر کیا ہے؟ انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ۔ اسلام کی نظر میں اُخروی کامیابی کے لیے تیاری۔ اہلِ مذہب نے اقتدار کو اپنا مقصد بنایا تو معاشرہ کیا تبدیل ہوتا، اقتدار کی کشمکش میں ان کا اپنا اخلاقی وجود ہی تحلیل ہو گیا۔
اکیسویں صدی 'ازمز‘ (Isms) کی صدی ہے۔ نیشنلزم، کمیونزم، فاشزم۔ یہ نظریاتی سیاست کا آغاز ہے۔ یہ سیاست کو ایک نظریے کے تابع کرنے کا عمل ہے۔ پہلے ایک نظریہ (Ideology)، پھر اس کے پیروکاروں کی تنظیم۔ پھر انہیں اقتدار تک پہنچانے کی جدوجہد۔ تصور یہ ہے کہ ریاست کو ایک نظریاتی وجود مان لیا جائے۔ مثال کے طور پر کمیونزم کا نظریہ ہے کہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور انفرادی ملکیت انسانی مسائل کے حقیقی اسباب ہیں۔ انسانوں کو ایک ایسی ریاست چاہیے جو اس نظریے پر قائم ہو اور بالجبر اس تقسیم کو ختم کر دے۔ اس سے انسانی دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔ کمیونزم کی اصل یہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، اس کی فروعات ہیں۔
اہلِ مذہب جب سیاست میں متحرک ہوئے تو انہوں نے نظمِ اجتماعی کی اساسات مذہب میں تلاش کیں۔ جہاں یہ موجود نہیں تھیں، وہاں مذہبی عصبیت کو آواز دی گئی اور ایک مذہب کے ماننے والوں کو کسی دوسرے گروہ کے خلاف لا کھڑا کیا گیا۔ جیسے مسیحیت۔ سینٹ پال نے، مسیحیت کے پیروکاروں کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کر دیا۔ اب مسیحی معاشرے میں نفاذِ شریعت کی بحث ختم ہو گئی۔ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تو اہلِ کلیسا نے مذہبی عصبیت کو آواز دی اور مسیحی عصبیت کو مسلم عصبیت کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔
یہی معاملہ ہندو مت کا ہے۔ اس کی سیاسی تجسیم ہوئی تو ہندوتوا جیسی تعبیرات سامنے آئیں۔ اس کی بنیاد ہندو عصبیت ہے۔ یہ ہندو قانون کے نفاذ کا سوال نہیں، دوسرے گروہوں پر ہندو تصورات کو بالجبر نافذ کرنا ہے۔ جیسے گائے آپ کے لیے مقدس ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ اسے سماجی یا ریاستی طاقت سے دوسروں کے لیے بھی مقدس بنا دیں۔
یہودیت اور اسلام کی تاریخ مختلف ہے۔ دونوںکا ورثہ مذہب بھی ہے اور ریاست بھی۔ بنی اسرائیل کو زمین پر اقتدار ملا اور بنی اسماعیل کو بھی۔ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر کا ورثہ، مذہب ہے، ریاست نہیں۔ یہودیوں نے انہیں ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ یوں مسیحیت ایک الگ تشخص کے ساتھ مذہب بن گئی جس کے خدوخال کا تعین سینٹ پال نے کیا۔ مسیحیت کی مذہبی تاریخ میں ریاست نہیں، یہ الگ بات کہ جب روم کے حکمرانوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو طاقت کے زور پر دوسروں کو مسیحی بنایا۔ اسی سے پاپائیت وجود میں آئی۔
پاپائیت مذہب کے بالجبر نفاذ کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ایران میں تو اسلام ایک عوامی انقلاب کی شکل میں آیا‘ لیکن وہ بھی پاپائیت میں بدل گیا۔ طالبان کا افغانستان بھی ایسا ہی تھا جس میں اقتدار مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان میں ایک نیا تجربہ کیا گیا۔یہ قومی ریاست کو مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش تھی۔ اس کا نتیجہ ایک فکری پراگندگی ہے جو ستر برس سے نہ صرف قائم ہے بلکہ روزافزوں ہے۔
ایک نہ ختم ہونے والی بحث یہ ہے کہ قائد اعظم نے کہیں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا‘ اور وہ اسلام کا نفاذ چاہتے تھے۔ اسے یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کے موقف کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے‘ لیکن اصل اہمیت اس سوال کی ہے کہ جمہور کیا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم بھی ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں جمہور کی رائے ہی نظام کی تشکیل میں بنیاد بنے۔
بر سبیلِ تذکرہ اسے بھی سمجھنا چاہیے کہ قائد اعظم جب اسلام کو راہنما سمجھتے تھے تو اس سے ان کی مراد کیا تھی۔ 'اسلامی ریاست‘ کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے جس کا ایک متعین مفہوم اسلام کی علمی تاریخ میں پایا جاتا ہو۔ یہ علمِ سیاسیات کی اصطلاح ہے جو اسلام کی ایک خاص تعبیر سے پھوٹی جسے 'سیاسی اسلام‘ کہا جاتا ہے۔ اسے بیسویں صدی میں 'خلافت‘ کے متبادل کے طور پر اختیار کیا گیا۔
قائد اعظم کبھی اس تعبیر سے متعلق نہیں رہے۔ اس لیے جب وہ یہ کہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کی تعلیمات کو راہنما حیثیت حاصل ہو گی تو اس کا مفہوم 'سیاسی اسلام‘ کی روشنی میں طے نہیں ہو سکتا۔ یہ غیر علمی رویہ ہو گا کہ ہم قائد اعظم کے خیالات کو اپنے تصوراتِ ریاست کی روشنی میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ وہ علمی معاملات میں علامہ اقبال کو اپنا راہنما مانتے تھے۔ ہمارے ہاں اقبال کو بھی 'اسلامی ریاست‘ کے خاص پیراڈائم میں ڈھالنے کی کوشش ہوتی ہے، حالانکہ ان مباحث میں ان کی منفرد حیثیت ان کے خطبات سے پوری طرح واضح ہے۔
یہ بات کہ پاکستان کو اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک جدید مملکت ہونا چاہیے، علامہ اقبال، علامہ مشرقی، مولانا مودودی، غلام احمد پرویز صاحب سمیت بہت سے لوگ کہہ رہے تھے۔ سب کی بات کا مفہوم ایک نہیں ہے۔ قائد اعظم کے بارے میں علامہ مشرقی یا علامہ مشرقی کے بارے میں مولانا مودودی کی آرا پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قائد اعظم چونکہ اسلام چاہتے تھے، لہٰذا وہ اور علامہ مشرقی ہم خیال ہیں۔ پرویز صاحب کا کہنا تھا کہ وہ دراصل فکرِ اقبال ہی کے شارح ہیں۔ ان کے اس دعوے کو قبولیتِ عامہ نہیں مل سکی۔
مسلم تاریخ میں، ایک فکری اور سماجی ارتقا کے نتیجے میں مذہب اور سیاست کے دائرے الگ ہو گئے تھے۔ اسی سے اہلِ سیاست اور علما کے دو ادارے قائم ہوئے۔ سیاست دانوں نے امورِ مملکت کو سنبھالا اور علما نے سماج کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے تمام سماجی طبقات کے لیے انذار کی ذمہ داری ادا کی جس میں حکمران طبقہ بھی شامل تھا۔ اگر اربابِ اقتدار نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ایک مسلمان حکمران کا ہونا چاہیے تو اسے انذار کیا لیکن کسی عالم نے خود حکمران بننے کی کوشش نہیں کی۔
یہی تقسم فطری ہے۔ اس سے پاپائیت وجود میں نہیں آتی۔ بیسویں صدی میں دین کی جامعیت کا جو تصور سامنے آیا، اس نے علما اور سیاست دانوں کی تقسیم کو ختم کر دیا۔ 'اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘ کا یہ مطلب سمجھا گیا کہ حکومت کو علما کے حوالے کر دیا جائے۔ مسلم لیڈر کا یہ تصور سامنے آیا کہ اسے مجتہد ہونا چاہیے اور ساتھ ہی شمشیر زن بھی۔ یہ ممکن نہیں تھا‘ لہٰذا اب تک مولوی کو سیاست دان بنانے کی ہر کوشش کا انجام ناکامی ہی نکلا ہے۔
ہمارے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم اس فطری تقسیم کی طرف لوٹ جائیں جو مسلم معاشرے کا تاریخی تجربہ ہے۔ مسیحی معاشرے نے کلیسا اور ایوانِ اقتدار کو الگ کر دیا۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہو گا؛ تاہم یہ فرق پیشِ نظر رہے گا کہ اسلام چند انفرادی عبادات کا نام نہیں ہے۔ وہ سیاسی اور سماجی رویوں کے بارے میں بھی راہنمائی دیتا ہے۔ اس لیے مسلم سماج کی سیاست و معاشرت، مذہب کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتی۔ ہم سیاسی و سماجی نظام کی تشکیل میں اسلام سے راہنمائی لیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عقل اور تجربے جیسے دیگر ذرائع علم کو اپنے ماخذات سے خارج کر دیں گے۔
مسلم معاشرے کو اس تقسیم کی طرف جانا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ تیونیسیا میں اس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے میں شاید دس سال مزید لگ جائیں۔ ہمارا مذہبی ذہن 'اسلامی ریاست‘ کے تصور کی گرفت میں ہے۔ علی محمد خان جیسے ہمارے بعض وزرا بھی انہی میں سے ہیں۔ اس لیے وہ کشمیر کی نئی صورتِ حال کو غزوہ ہند کے آغاز سے تعبیر کر رہے ہیں۔
غزوہ ہند کی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت پر اہلِ علم نے سوالات اٹھائے ہیں۔ اس سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے، میں مسئلہ کشمیر کی مذہبی تجسیم کو خود کشمیریوں کے لیے خطرناک سمجھتا ہوں۔ اس کا پہلا نتیجہ اس عالمگیر عوامی حمایت سے محرومی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف پیدا ہوئی ہے۔