'الرسالہ‘ کا تازہ شمارہ میرے سامنے رکھا ہے۔ میں اسے ایک نشست میں پڑھ چکا۔ کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اس کا کوئی پرچہ ملا ہو اور میں نے اسے ایک سے زیادہ نشستوں میں پڑھا ہو۔ مولانا وحیدالدین خان کو، دعوتی تحریروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص قلم عطا کیا ہے۔ اس پر مستزاد ان کا دینی و عصری علوم کا مطالعہ اور فکری مراقبہ۔ مولانا طارق جمیل کا معاملہ بھی یہ ہے کہ انہیں دعوت کی زبان عطا ہوئی ہے۔ لوگوں کو ان کی دعوتی گفتگو مسحور کر دیتی ہے۔
'الرسالہ‘ کا نیا شمارہ پڑھتے وقت، میں بے ارادہ دونوں کے مابین تقابل پر مجبور ہو گیا۔ ستمبر کا 'الرسالہ‘ جنت کے موضوع پر ہے۔ اس کے سرورق پر لکھا ہے: 'خصوصی شمارہ... جنت کی دنیا‘۔ جنت، مولانا طارق جمیل کے خطبات کا بھی خصوصی موضوع ہے۔ جنت کا تصور کیا ہے، اس کی نعمتیں کیسی ہوں گی، یہ کن لوگوں کا مقدر بنے گی، جنت اپنی نوعیت میں کیا ہے، یہ سب سوالات دونوں کے ہاں زیرِ بحث آئے ہیں۔
جب میں نے سوچنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ دونوں کا تصورِ جنت، بعض مظاہر کی یکسانیت کے باوجود، ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ مولانا وحیدالدین خان اسے جس سوچ اورطرزِ عمل کا حاصل بتا رہے ہیں، وہ اس سوچ اور طرزِ عمل سے مختلف ہے جو مولانا طارق جمیل کے نزدیک کسی کو جنت کا مستحق بناتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل نے جنت کی نعمتوں کو جس طرح بیان کیا ہے، اس سے مذہب بیزار یا مذہب مخالف طبقات کو یہ موقع ملا کہ وہ اسے استہزا کا موضوع بنائیں۔ مجالس میں ان کے مواعظ کو ذکر ہوتا ہے اور نوجوانوں کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔
اس کے بر خلاف، مولانا وحیدالدین خان کے ہاں جنت، فکری حوالے سے ایک علمی مقدمہ، جمالیات کے اعتبار سے اعلیٰ جائے قرار اور اپنے تصور میں لطافت کا غیر معمولی پیکر ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جو اعلیٰ ترین جمالیاتی اور علمی ذوق رکھنے والوں کا مستقل ٹھکانہ ہو گی۔ یہ ان ہی کا مقدر ہو گی جو فطرت کے تقاضوں کو اعلیٰ ترین جمالیاتی سطح پر پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔ یہ خدا کی اس معرفت کا انعام ہے جو انسان کا ایک شعوری تجربہ ہوتے ہوئے، اس کے لیے ایک پیکرِ محسوس میں ڈھل جاتا ہے۔
جنت کیا ہے؟ وحیدالدین خان، دیکھیے اس سوال کا کیا جواب دیتے ہیں: ''اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی۔ ہر اعتبار سے یہ ایک پرفیکٹ دنیا تھی۔ اللہ نے یہ مقدر کیا کہ اس دنیا میں ایسے افراد بسائے جائیں جو ہر اعتبار سے معیاری انسان ہوں۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے، اس کو سیارہ ارض پر آباد کیا۔ اس نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی۔ موجودہ دنیا اس منصوبے کے لیے ایک سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہاں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ تاریخ کے خاتمے پر یہ ہو گا کہ آزادی کا غلط استعمال کرنے والے افراد ریجیکٹ کر دیے جائیں گے، اور جن افراد نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، ان کو منتخب کر کے جنت میں آباد کر دیا جائے گا۔ جنت کے تصور کو کچھ لوگ انسانی تمناؤں کی خوب صورت نظریہ سازی (Idealization) کا نام دیتے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوب صورت تعبیر (Interpretation) کہا جائے‘‘۔
یہ محض جنت کا بیان نہیں، اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ دین بس اسی کا نام ہے۔ اتنے کم الفاظ میں دین کا جامع تعارف مولانا وحیدالدین خان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔
وہ واضح کرتے ہیں کہ جنت کوئی پراسرار اور نا قابلِ فہم تصور نہیں۔ جو آدمی شعوری سطح پر خدا کی سکیم کو جان لیتا ہے اور پھر اس کی تکمیل کے لیے جت جاتا ہے، اس کے لیے جنت انسانی زندگی کا فطری اور منطقی انجام ہے۔
مولانا اپنی تحریروں میں خدا کی معرفت کو انسانی سعی و جہد کی منزل سمجھتے ہیں؛ تاہم ان کے نزدیک خدا کی معرفت کوئی پراسرار واقعہ نہیں، جس طرح تصوف یا روحانیت کی دنیا میں بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ذہنی سفر ہے۔ یہ انفس و آفاق میں پھیلی خدا کی نشانیوں پر غور کا نتیجہ ہے۔ یہ انسان کو مادیت سے اٹھا کر معنویت تک پہنچا دیتا ہے۔ جو لوگ اس سطح پر خدا کی معرفت حاصل کرتے ہیں، وہی جنت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل اور مو لانا وحیدالدین خان کے تصورِ جنت میں ایک فرق یہ ہے کہ طارق جمیل صاحب کے ہاں جو نعمت مرکزی اہمیت رکھتی ہے، مولانا اس کا شمار ضمنی نعمتوں میں کرتے ہیں۔ جیسے حور۔ مرد و زن کے جمالیاتی مطالبات میں صنفِ مخالف کی رفاقت بہت اہم ہے اور وہ اسے ہمیشہ ایک آئیڈیل سطح پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جنت میں اس کا بھی اہتما م ہو گا۔
مولانا وحیدالدین خان کے ہاں حور کی نعمت، جنت کے تصور کا حصہ ہے لیکن اس کی حیثیت مرکزی نہیں۔ یوں وہ اس کے خدوخال کے بیان میں اپنے قلم کی جولانیوں کا بہت کم مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف مولانا طارق جمیل کے ہاں معلوم ہوتا ہے کہ حور کی نعمت بہت مرکزی ہے۔ یہ حور کیسی ہو گی، جب وہ اسے موضوع بناتے ہیں تو طلاقتِ لسانی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ وہ اپنی خطابت کو گویا اس میں نچوڑ دیتے ہیں۔
یہ فرق کیوں ہے؟ میرے نزدیک اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک دین فہمی کا درجہ ہے۔ مولانا وحیدالدین خان دین کو اعلیٰ سطح پر سمجھتے اور چاہتے ہیں کہ عوامی شعور بھی اس درجے تک بلند ہو۔ وہ خدا کی معرفت کو ایک علمی و فکری سرگرمی کے طور پر دیکھتے اور یوں اسے ایک اعلیٰ علمی مقدمے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل، اندازہ ہوتا ہے کہ ایک عامی کو اپنا مخاطب بناتے ہیں جو کام و دہن کے مطالبات سے آگے کم ہی سوچتا ہے۔ اس کے لیے نعمت کا تصور اس کے سماجی پس منظر میں جنم لیتا ہے۔ یوں جنت یا دین کے باب میں کوئی علمی سرگرمی ان کے پیشِ نظر نہیں۔
دوسرا فرق ماخذ کا ہے۔ مولانا وحیدالدین خان دین یا جنت کا تصور بیان کرتے ہیں تو اس کی بنیاد قرآن مجید پر رکھتے ہیں۔ وہ اگر دیگر ذرائع سے استفادہ کرتے ہیں تو اس کی حیثیت معاون ذریعۂ علم کی ہے۔ یوں جنت کا جو تصور سامنے آتا ہے، اس میں اس دنیا کی کمزوریوں کا مداوا اور انسان کے فطری مطالبات کی مثالی سطح پر تکمیل کا اہتمام ہے۔ جنت کے اس تصور سے علمی اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، اس کا استہزا ممکن نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل اگرچہ قرآن مجید سے بھی استفادہ کرتے ہیں لیکن ان کے تصورِ مذہب کا بنیادی ماخذ وہ روایات ہیں جو فضائل اعمال کے باب میں بیان کی جاتی ہیں اور جن کی روایتی اور درایتی تحقیق کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔ ان روایات میں، مثال کے طور پر، حور کا جس طرح ذکر ہوتا ہے اور اس کے خدوخال کی وسعت کو جس مبالغہ آمیز انداز میں بیان کیا جاتا ہے، اس سے جمالیات کا کوئی تعلق نہیں۔ یوں جب یہ تصورات عوامی حلقوں میں دہرائے جاتے ہیں تو لوگ اسے استہزا کا موضوع بنا لیتے ہیں۔
میرا تیس سال کا مطالعہ اور اہلِ علم سے استفادہ بتاتا ہے کہ جب قرآن مجید دین کا اصل ماخذ بنتا ہے تو دین ایک ایسے علمی مقدمے کے طور پر سامنے آتا ہے جس سے اختلاف کے لیے لازم ہے کہ جوابی طور پر کوئی علمی مقدمہ قائم کیا جائے۔ محض استہزا سے اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بر خلاف دین جب غیر مصدقہ اخبار سے ثابت کیا جاتا ہے توغیر سنجیدہ حلقوں کا موضوع بن جاتا ہے۔ مو لانا طارق جمیل کی مساعی کے اعتراف کے ساتھ، واقعہ یہ ہے کہ ان کی دعوت عصری علمی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ میرا تاثر ہے کہ وحیدالدین خان جس طرح دین کو ایک سنجیدہ علمی مقدمے کے طور پر پیش کر رہے ہیں، عالمی سطح پر دعوتِ اسلام کے لیے وہی موزوں ہے۔