"KNC" (space) message & send to 7575

برادرِ یوسف یا برادرِ جمہوریت؟

شہباز شریف ''برادرِ یوسف‘‘ تو نہ بنے لیکن وہ 'برادرِ جمہوریت‘ بھی نہ بن پائے۔ سیاست میں اصل رشتہ داری نسبی نہیں، نظریاتی ہوتی ہے۔ جو آج 'برادرِ جمہوریت‘ نہیں ہے، وہ بردارِ یوسف ہی تو ہے۔
جمہوریت دو سالوں سے بے اماں و بے ردا، ملک کے کوچہ و بازار میں رسوا ہو رہی تھی۔ نواز شریف نے 'ووٹ کو عزت دو‘ کی چادر سے اس کا سر ڈھانپ دیا۔ وہ بیٹی سمیت جیل جا پہنچے تو یہ ذمہ داری شہباز شریف کی تھی کہ وہ اس چادر کی حفاظت کرتے۔ وہ مسلم لیگ کے عَلم کو جمہوریت کی ردا بنا دیتے۔ اوباشوں کے حملوں سے اس کو محفوظ رکھتے۔ نواز شریف کا بھائی ہونے کا تقاضا تھا کہ وہ جمہوریت کو بھی اپنی عم زاد سمجھتے جس کی عزت کے تحفظ کے لیے نواز شریف نے اپنی جان داؤ پر لگا دی۔ وہ یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکے۔
اگر وہ مسلم لیگ کا عَلم بچا لیتے تو ہم سمجھتے کہ چادر تو سلامت ہے۔ کسی وقت جمہوریت کے سر پر ڈالی جا سکتی ہے۔ افسوس یہ بھی نہ ہو سکا۔ آج گلی بازار میں نون لیگ زیر بحث ہے۔ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ نون لیگ کو ایک بار پھر مقتدر حلقوں کی باندی بنانے کی کوشش ہے۔ باندیوں کے تو اپنے سر پر چادر نہیں ہوتی۔ یہ چار گرہ کپڑا ہی ہوتا ہے جو آپ کی سماجی حیثیت متعین کرتا ہے۔ کبھی گریبان بن کر، کبھی ردا کی صورت اور کبھی عَلم بن کر۔ یہ گلیوں میں رل جائے اور بازیچۂ اطفال بن جائے تو لوگ سوال کرتے ہیں:
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میر ا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلم ہے
جمعرات کو نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ راہنماؤں کا نتیجۂ فکر ملاحظہ کیجیے ''مسلم لیگ (ن) آزادی مارچ کی سیاسی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گی‘‘۔ مزید سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ''مسلم لیگ کے کارکنوں پر آزادی مارچ میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں‘‘۔ مجھے یہ بیان پڑھ کر اہلِ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی یاد آ گئی، جن کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کا ہم ستر سال سے اعادہ کرتے آئے ہیں۔ اگر نون لیگ نے آزادی مارچ کا اسی طرح ساتھ دینا ہے جیسے پاکستان نے کشمیریوں کا دیا تو پھر سیاسی لوگ جان سکتے ہیں کہ اس مارچ کا انجام کیا ہو گا۔ میرا خیال ہے مولانا فضل الرحمن بھی اس کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔
جمہوریت کا سر ڈھانپنے کا مطلب تصادم نہیں ہے۔ نواز شریف نے کیا تصادم کیا؟ یہ تو ایک جدوجہد ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی قوت مزاحم ہوتی ہے تو اس کا سامنا صبر، عزیمت اور مظلومانہ عزم سے کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک قیمت ہے جو کبھی جان بھی ہو سکتی ہے۔ جو اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتا، اس کا یہ حق نہیں کہ وہ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرے۔ پھر وہ کسی گوشۂ عافیت میں جا بیٹھے۔
نواز شریف نے مظلومانہ جدوجہد کی۔ کسی کے سر پر لٹھ نہیں ماری۔ ریاست کا کوئی قانون نہیں توڑا۔ جیل کی صعوبتوں کو قبول کیا۔ ان کی مظلومیت برگ و بار لائی۔ اہلِ اقتدار کو اندازہ ہونے لگا کہ ان کا جیل میں گزرنے والا ایک ایک دن ان کے اقتدار پر بہت بھاری ہے۔ یہ سب کچھ آسان نہ تھا۔ اس کے لیے نواز شریف کو سود و زیاں سے بے نیاز ہونا پڑا۔ مظلومیت کی طاقت اسی طرح ظہور کرتی ہے۔ وہ بیمار ہوئے تو ریاستی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ انتقام کی جگہ خوف نے لے لی۔ انہیں رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر کہہ دیا ہے کہ ان کا علاج تو بعد کی بات ہے، مرض کی تشخیص بھی پاکستان میں ممکن نہیں۔ یہ حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹرز کا بیان ہے۔ نواز شریف صاحب کو، لگتا ہے کہ اب ملک سے باہر جانا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ نون لیگ کیا کرے گی؟ کیا اُن کے بیانیے کی وارث بنے گی؟ شہباز شریف کیا جمہوریت کے بھائی بنیں گے؟ کیا اس کے سر پر چادر دیںگے؟
اس میں شبہ نہیں کہ بطور منتظم، انہوں نے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تعصبات حائل نہ ہوں تو کسی کے لیے اس کا اعتراف کیے بنا چارہ نہیں۔ پاکستان کو گزشتہ پچاس سال میں ان سے بہتر منتظم نہیں ملا۔ لوگ ان کی دیانت کے بھی معترف ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ میرٹ کو پیش نظر رکھا ہے، جتنا موجودہ نظام میں ممکن ہو سکا۔ اس اعتراف کے ساتھ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ وہ منتظم تو ہیں لیڈر نہیں۔ مسلم لیگ میں لیڈر نواز شریف تھے یا پھر مریم نواز ہیں۔
نون لیگ کے لیے آج اہم سوال یہ ہے کہ وہ 1980ء کی دہائی کی طرح محلاتی سازشوں کی سیاست کرے گی یا عوام کی؟ اگر پہلے طرز کی سیاست کرنی ہے تو پھر شہباز شریف صاحب ہی کو قائد ہونا چاہیے۔ اگر اسے نواز شریف کے بیانیے کی راہنمائی میں آگے بڑھنا ہے تو پھر مریم نواز ہی اس کی فطری راہنما ہیں۔ اگر وہ گرفتار ہو جاتی ہیں‘ جس کا پورا امکان ہے‘ تو پھر ایک اجتماعی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپ دینی چاہیے۔
نواز شریف صاحب کی اب بھی یہ کوشش ہے کہ مسلم لیگ متحد رہے اور شہباز شریف ان کے بیانیے کو لے کر آگے بڑھیں۔ وہ شہباز شریف کو ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن صاحب سے رابطہ رکھیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کی یہ خواہش پوری ہونے والی نہیں۔ شہباز شریف صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ نواز شریف صاحب پر یہ واضح کر دیں کہ وہ ان سے غلط توقعات وابستہ کر رہے ہیں۔ ان سے وہی کام لیا جائے، وہ جس کے لیے آمادہ ہیں یا جس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے اہلِ سیاست کو ایک معرکہ ہر صورت میں لڑنا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ یہ معرکہ ووٹ کی عزت کا ہے۔ عوام کے حقِ اقتدار کا ہے۔ یہ معرکہ سیاست کے میدان میں لڑا جانا ہے اور ظاہر ہے کہ جمہوری اقدار اور ملک کے آئین کے مطابق۔ نواز شریف نے اس بات کو سمجھ لیا اور یوں انہوں نے اس مشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اب اس جدوجہد کو کسی اور نے آگے بڑھانا ہے۔ شہباز شریف صاحب نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں‘ نہ اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ موجود نظام میں راستہ نکالنے کے قائل ہیں۔ وہ نظام جو عوامی حاکمیت کی نفی پر کھڑا ہے‘ جس میں عوام کے نمائندوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
اس بیانیے کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ اس کی قیادت پنجاب کے پاس ہو۔ یہ ملک کی جغرافیائی، انتظامی اور ثقافتی ساخت کا تقاضا ہے۔ نون لیگ کے پاس آج ایک سنہری موقع ہے۔ سندھ، بلوچستان اور کے پی میں ایک بڑا طبقہ موجود ہے جو عوام کی حاکمیت کے بیانیے پر نواز شریف کو اپنا قائد ماننے پر تیار ہے۔ 1970ء کے بعد تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سب صوبے پنجاب کی قیادت تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ وفاق کو مضبوط اور متحد رکھنے کا اتنا اچھا موقع شاید ہی کبھی ہاتھ آئے۔ اگر نون لیگ نے اسے گنوا دیا تو یہ قومی جرم ہو گا۔
اگر نون لیگ یہ مقدمہ نہیں لڑے گی تو پھر پنجاب سے کوئی نئی سیاسی قوت ابھرے گی۔ یہ پنجاب پر اب قرض ہے۔ بڑا صوبہ ہونے کے ناتے، یہ پنجاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب صوبوں کو ساتھ لے کر چلے۔ انہیں یہ احساس دلائے کہ پاکستان سب کا ہے اور یہاں ایک بلوچی، پختون یا سندھی کے ووٹ کی بھی وہی اہمیت ہے جو کسی پنجابی کے ووٹ کو حاصل ہے۔ یہ خدمت صرف ایک سیاسی جماعت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ اس لیے میں تکرار کے ساتھ لکھتا رہا ہوں کہ ملک کو صرف سیاسی جماعتیں متحد رکھ سکتی ہیں، ریاستی ادارے نہیں۔
شہباز شریف اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے یہ تو ثابت کر دیا کہ وہ برادرِ یوسف نہیں لیکن یہ قرض ادا کرنے کے لیے کسی برادرِ جمہوریت کی ضروری ہے۔ وہ جو اس کے بے ردا سر کو ڈھانپ دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں