"KNC" (space) message & send to 7575

اب کس کی باری… آصف زرداری؟

آصف زرداری صاحب کے لیے کلمہ خیر کہنا آسان نہیں۔
یہ جسارت تو خیر جملہ اہلِ سیاست کے حق میں نہیں کی جا سکی الا یہ کہ کوئی تحریکِ انصاف میں ہو۔ زرداری صاحب کا معاملہ مگر سیاست دانوں میں خاص ہے۔ ان کے حق میں ایک جملہ قلم سے کیا نکلا کہ جواب میں دشنام کی لغت مرتب ہو گئی۔ یہ تکنیک کامیاب رہی ہے۔ اب لکھنے والے اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ خاموش رہیں۔ یوں زرداری صاحب اور اہلِ سیاست کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا آہنگ بند ہوتا جاتا ہے اور ان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں مدہم۔
میرا کسی سیاست دان سے کبھی ذاتی تعلق نہیں رہا۔ برادرم ڈاکٹر بابر اعوان جیسی چند مستثنیات ہیں مگر اُن سے تعلق کا سبب سیاست نہیں ہے۔ علاقہ، قبیلہ، رشتہ داری، ذوق یا کوئی اور غیر سیاسی وجہ ہو سکتی ہے جو ان کے ساتھ قرب کا باعث ہو۔ یہ کسی خوبی یا خامی کا نہیں، امرِ واقعہ کا بیان ہے۔ اس لیے زرداری صاحب سے تعلق کا تو کوئی سوال نہیں۔ ان سے رشتہ داری ہے نہ ذوقی نسبت۔ ان کے ساتھ دو تین ملاقاتیں ہوئیں یا چند بار فون پر بات ہوئی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ نواز شریف صاحب کے ساتھ تعلق کا بھی ہے۔
حالاتِ حاضرہ پر لکھنے والا لیکن اُن شخصیات سے غیر متعلق نہیں رہ سکتا جن کے افکار و اعمال سے سیاست عبارت ہوتی ہے۔ آصف زرداری صاحب ایک قومی سیاسی جماعت کے راہنما ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں عصبیت حاصل ہے اور زرداری صاحب اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ عصبیت شخصی نہیں لیکن وہ ایک طرح سے اس کے محافظ ہیں۔ اس لیے ان کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے‘ نہ ان کے ساتھ روا سلوک کو۔ حکومت و ریاست ان کے ساتھ جیسا معاملہ کریں گے، ملک اور عوام اس سے متاثر ہوں گے۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
زرداری صاحب نے ہمیشہ وفاق کی سیاست کی ہے اور یہی پیپلز پارٹی کی سیاست ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ناگہانی اور غیر فطری موت سے وفاق خطرات میں گھر گیا تھا۔ اس موقع پر زرداری صاحب نے سنبھالا دیا۔ پانچ سال وہ ملک کے صدر رہے اور ریاستی اداروں کو ان سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ بلوچستان کو وفاق کے ساتھ جوڑے رکھنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ کرپشن کے عنوان سے، اس ملک میں جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہے، اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بنیادی باتوں کو صحیح سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہو گیا۔
زرداری صاحب کا معاملہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ چونکہ ان پر کرپشن کے الزامات ہیں، اس لیے ان کی دیگر خدمات بے معنی ہو گئیں یا ان کی تحسین یا ان کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ان سے منسوب کرپشن کی تائید کی جا رہی ہے۔ اب اُن کے ساتھ ریاست یا حکومت نے جو سلوک روا رکھا، اسے جائز سمجھ لیا گیا ہے۔ اس سے قومی یک جہتی کو جو نقصان پہنچ رہا ہے، افسوس کہ لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔
اُن پر لگے کرپشن کے الزامات کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ جب انہیں 'مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کہا گیا۔ اس کا حاصل وہ مقدمات ہیں جو نواز شریف صاحب کے دور میں بنے اور سیف الرحمن کی قیادت میں 'احتساب‘ کا عمل آگے بڑھا۔ آٹھ نو سال انہیں جیل میں رکھا گیا اور اس میں مشرف دور بھی شامل تھا۔ ان کے خلاف مقدمات کو طوالت دی گئی اور انہیں انصاف سے محروم رکھا گیا۔ انصاف میں تاخیر بھی انصاف سے محرومی ہے۔ یہاں تک کہ عدالت نے انہیں بے قصور قرار دے دیا۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ان پر لگے الزامات کا کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں تھا جسے عدالت میں پیش کیا جا سکے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد اس سوال کا اٹھنا ناگزیر تھا کہ جیل میں گزرے، ان کے آٹھ سال کا حساب کون دے گا؟ اس کا کوئی جواب آج تک نہیں مل سکا۔ ان سنگین الزامات کے باوجود وہ ملک کے صدر بن گئے اور بر بنائے عہدہ، پاک فوج کے سپریم کمانڈر بھی۔
کرپشن کے ان الزامات کے دوسرے دور کا آغاز نواز شریف صاحب کے پچھلے دور میں ہوا جب چوہدری نثار علی خان وزیر داخلہ تھے۔ انہی دنوں عزیر نام کا ایک آدمی ٹیلی وژن سکرین پر نمودار ہوا اور اس نے بتایا کہ کیسے وہ زرداری صاحب اور فریال تالپور صاحبہ کے کہنے پر بڑے بڑے جرائم کا مرتب ہوا۔ ان میں قتل سے لے کر لوگوں کی جائیدادوں پر قبضوں تک، نہیں معلوم کتنے جرائم شامل تھے۔
حکومت بدلی تو ان پر نئے الزامات سامنے آ گئے۔ معلوم ہوا کہ منی لانڈرنگ کا بھی ایک وسیع کاروبار ہے، زرداری صاحب جس میں ملوث ہیں۔ شہزاد اکبر صاحب کی پریس کانفرنسیں، دراصل چوہدری نثار صاحب کی بریفنگز ہی کا تسلسل ہیں۔ سوال بڑا سادہ ہے: اگر ثبوت اور گواہ موجود ہیں تو ان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کیوں نہیں ہو رہا؟ کیا اب بھی آٹھ سال کا انتظار کیا جائے گا؟ اگر ثبوت اتنے واضح ہیں جیسے چوہدری صاحب اور شہزاد اکبر بتا رہے ہیں تو فیصلوں میں تاخیر کیوں؟ اگر اب بھی آٹھ سال بعد فیصلہ آتا ہے اور وہ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو ان کی زندگی کے سولہ سال کا حساب کون دے گا؟
پھر یہ کہ وہ بیمار ہیں۔ قانوناً وہ ابھی تک ملزم ہیں۔ علاج ان کا حق ہے اور انہیں کراچی منتقل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں‘ اگر وہاں ان کیلئے علاج کی بہتر سہولتیں موجود ہیں۔ یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ ایک سیاسی عصبیت کے نمائندے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جو تعصب اور نا انصافی کا تاثر دے تو یہ رویہ وفاق کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں تو انہیں سزا دی جائے۔ نہیں ہیں تو انہیں جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اہلِ سیاست کے احتساب کے دو طریقے ہیں۔ ایک عدالتی اور ایک عوامی۔ عدالت کی نظر میں مجرم لازم نہیں کہ عوام کی نظر میں بھی مجرم ہو۔ اسی طرح عدالت کی نظر میں بے گناہ لازم نہیں کہ عوام کی نگاہ میں بھی بے گناہ ہو۔ اس کی تائید میں بے شمار مثالیں موجود ہیں اور لوگ ان سے واقف ہیں۔ عدالت ایک شخص کو قاتل قرار دیتی ہے، عوام اسے شہید سمجھتے ہیں۔
اس لیے آصف زرداری صاحب کے خلاف اگر ایسے ثبوت موجود نہیں جس کی بنیاد پر انہیں عدالت میں مجرم ثابت کیا جا سکے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں رہائی ملے۔ اس دوران میں اگر وہ مریض ہیں تو انہیں علاج کا حق ملنا چاہیے۔ اگر 'پوسٹ ٹرتھ‘ کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے تو اس سے قومی یک جہتی کو شدید نقصان پہنچے گا۔
اس معاملے میں کسی پر اندھا اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے کسی کو چور کہہ دیا تو وہ چور بن گیا۔ اس باب میں گزشتہ روز چیف جسٹس صاحب نے بہت واضح لفظوں میں قانون کی روح کو بیان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا ''جب مجھے نظر بھی آ رہا ہے کہ اس نے قتل کیا، تب بھی قانون سے ثابت ہونا ضروری ہے‘‘۔ مناسب ہے کہ اس کا اطلاق زرداری صاحب پر بھی ہونا چاہئے۔
کرپشن کے نام پر جاری یہ کھیل قومی سلامتی اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ لازم ہے کہ اس کھیل کو ختم کیا جائے۔ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور اُن کا احتساب عوام پر چھوڑ دیا جائے، اگر عدالت میں پیش کرنے کے لیے آپ کے پاس ثبوت موجود نہیں۔ اس بات کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہ کی جائے کہ وہ ایک سیاسی عصبیت کے نمائندے ہیں جس کی جڑیں سندھ میں ہیں۔ وفاق کے لیے پیپلز پارٹی کی خدمات متقاضی ہیں کہ اسے قومی سطح پر اپنا کردار آزادانہ طور پر ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس کے لیے زرداری صاحب کے ساتھ انصاف ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں