عمران خان، زینہ بزینہ، رومان کے آسمان سے، حقیقت کی زمین پر اتر رہے ہیں۔
کبھی وہ آئی ایم ایف کے قرض پہ خود کشی کو ترجیح دیتے تھے۔ اب قرض کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی وہ ریلوے کے ایک حادثے پر وزیر کے استعفے کو مہذب ریاست کی علامت سمجھتے تھے۔ اب سو حادثات کے بعد بھی، وہ وزیر کے استعفے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ کبھی وہ وفاقی کابینہ کی تعداد کو بیس تک محدود رکھنے کے حامی تھے۔ آج یہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھ رہی ہے تو انہیں اس پر کوئی تشویش نہیں۔ یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ گزشتہ ایک سال میں اتنے واقعات پیش آ چکے کہ اس موضوع پر مناسب ضخامت کی ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ اب اس فہرست میں امتِ مسلمہ کے بارے میں ان کا رومان بھی شامل ہو گیا ہے۔
اقتدار، سیاسی معاملات میں انسان کو عین الیقین کے درجے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ اپوزیشن میں اور حکومت سے باہر رہ کر، کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھتے ہیں تو زمینی حقائق آپ کے استقبال کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ طلب و رسد کا بے رحم اصول سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ مسائل اور وسائل کا تفاوت آپ کو گھیر لیتا ہے۔ عوام کی توقعات عملی معاملات سے متصادم ہو جاتی ہیں۔ حقائق کا سامنا کیے بغیر ایک قدم چلنا محال ہوتا ہے۔میں نے یہ مقدمہ حسنِ ظن کی بنیاد پر قائم کیا ہے‘ ورنہ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اپوزیشن میں لوگوں کو حقائق کا ادراک نہیں ہوتا۔ اہلِ سیاست اقتدار تک پہنچنے کیلئے عوام کا جذباتی استحصال کرتے ہیں‘ انہیں سبز باغ دکھاتے ہیں؛تاہم کسی کو سادہ لوح مان لیا جائے، تو بھی وہ زمینی حقائق کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتا۔
عمران خان امتِ مسلمہ کے باب میں بڑے گرم جوش تھے۔ مہاتیر محمد کی جرأتِ رندانہ انہیں متاثر کرتی تھی۔ طیب اردوان کی بلند آہنگ باتیں بھی انہیں اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ انہوں نے گمان کیا کہ ان کے ساتھ مل کر وہ عالمِ اسلام کو زندہ کر سکتے ہیں۔ حسنِ ظن کی بنیاد پر، میں یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے ایسا چاہتے تھے۔ اب اس سمت میں انہوں نے پہلا قدم ہی اٹھایا تھا کہ زمینی حقائق ان کے پاؤں سے لپٹ گئے۔ انہیں الٹے قدم لوٹنا پڑا۔ خان صاحب فرطِ جذبات میں درست تجزیہ نہیں کر سکے۔ امتِ مسلمہ کے وجود و عدم کے بارے میں، میں نے بارہا نظری بحث کی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر، اس وقت یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کیوں ترکی اور ملائیشیا کی طرح آزادانہ رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہ ان ممالک کی قیادت کے منصوبے بھی کتنے با معنی اور قابلِ عمل ہیں؟ آنے والے دنوں میں، ایسے اقدامات کے کیا نتائج ممکن ہیں؟
ملائیشیا اور ترکی نے، اس جگہ تک پہنچنے کیلئے بے پناہ محنت کی ہے۔ ملائیشیا نے ایک طویل عرصہ تک داخلی استحکام کو اپنی واحد ترجیح بنائے رکھا۔ اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔ سیاسی طور پر ملائیشیا کو ایک قوم بنایا، جو متنوع نسلی شناختوں کا حامل ملک ہے۔ اس کے بعد وہ مرحلہ آیا کہ ملائیشیا عالمی سطح بڑی حد تک ایک آزادانہ موقف اختیار کر سکتا ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی اہم ہے۔ ملائیشیا کو بھارت جیسے کسی ہمسایے کا سامنا نہیں۔ اسے اپنے دفاع پر خطیر رقم اور وسائل صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ یوں اس کی معیشت کو ریاست اور عوام کا دوہرا بوجھ نہیں اٹھانا۔
ترکی نے بھی داخلی استحکام کیلئے محنت کی۔ خود اردوان صاحب کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ان کے لیڈر نجم الدین اربکان اسلامی تحریک کے نمائندہ تھے۔ ان کی سیاست پر نظریاتی پہلو غالب تھا۔ انہوں نے وقت سے بہت پہلے مسلمان دولتِ مشترکہ کا تصور پیش کیا۔ ان کے برعکس، اردوان نے پہلے مرحلے پر ترکی کے استحکام کو اولیت دی۔ ترکی کا معاشی حجم بھی ہم جانتے ہیں کہ کیا ہے۔ پھر ترکی کا مسئلہ صرف امتِ مسلمہ نہیں، ترک تفاخر بھی ہے۔ وہ خود کو عالمی سیاست کا ایک کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ عالمِ اسلام کی قیادت کے حوالے سے عربوں سے ان کا تاریخی تنازع بھی رہا ہے۔ ترکوں کا مسئلہ صرف امتِ مسلمہ نہیں، اس سے سوا بھی ہے۔ پھر ٹی وی چینل قائم کرنے اور متبادل کرنسی کا انتخاب کرنے میں بھی بہت فرق ہے۔ پہلا کام تو کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے، دوسرا البتہ غور طلب ہے۔ اس لیے کوالالمپور کانفرنس میں بھی یہ اقدام کا نہیں، غور کا موضوع بنا۔ یہ مہاتیر محمد کا پرانا خواب ہے۔ وہ کئی سال پہلے یہ تجویز پیش کر چکے‘ لیکن کوئی ایک عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ میں معیشت کا ماہر نہیں لیکن پولیٹیکل سائنس کا ایک طالب علم ہوتے ہوئے، جان سکتا ہوں کہ اس کے راستے میں کون سے ایسے عوامل حائل ہیں‘ جن کا تعلق عالمی سیاست سے ہے۔
تاہم یہ کوئی ایسا خواب نہیں کہ جس کی کوئی تعبیر ممکن نہ ہو۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سے حالات تھے‘ جنہوں نے ڈالر کو ایک بین الاقوامی کرنسی کی حیثیت دلوائی۔ دنیا کو ایک ملٹی کرنسی معاشی نظام دینے کے لیے کون سے ابتدائی اقدام ناگزیر ہیں۔ اس راستے میں کس طرح کی مزاحمت پیش آ سکتی ہے اور اس کا سامنا کیسے کیا جائے گا؟ کیا اس عمل کو روس جیسے ممالک کی معاونت میسر آ سکتی ہے؟
یہ مسئلہ لازم ہے کہ پہلے مرحلے پر عالمِ اسلام کی سطح پر بحث کا موضو ع بنے اور اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ سعودی عرب اور عرب امارات کو اعتماد میں لیے بغیر اس تصور کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ عجلت کے باعث، اسے ابتدا ہی میں، خود مسلمانوں میں متنازعہ بنا دینا کوئی اچھی حکمتِ عملی نہیں تھی۔ اب امتِ مسلمہ کے اتحاد کے ساتھ، اس میں عربوں کو نیچا دکھانے کی خواہش بھی شامل ہو گئی ہے۔ اردوان نے پاکستان کی عدم شرکت پر جو کچھ کہا، اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس سارے عمل کو عرب و عجم کے اختلاف سے الگ کرتے ہوئے، محض عالمِ اسلام کا مسئلہ سمجھنا مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان کا معاملہ ملائیشیا اور ترکی، دونوں سے مختلف ہے۔ یہ سیاسی و معاشی تعمیر کے ان مراحل سے ابھی نہیں گزرا جن سے یہ دونوں گزر چکے۔ پاکستان تو آج تک اپنے سیاسی و معاشی نظام پر کوئی اتفاقِ رائے پیدا نہیں کر سکا۔ یہ اپنی دفاعی ضروریات سے بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ہمارے مفاد میں یہی ہے کہ ہم مسلمان ممالک میں وحدت پیدا کرنے کے لیے کوشش کریں اور ممکن حد تک خود کو گروہی سیاست سے دور رکھیں۔ اس دوران میں اپنی توجہ ملکی استحکام پر مرتکز رکھیں۔
اس پس منظر میں، عمران خان کا کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ درست تھا۔ پاکستان کے مفادات کا تقاضا یہی تھی۔ انہیں شاید ابتدا میں اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ معاملہ عالمِ اسلام کا کم اور عرب و عجم کے اختلاف کا زیادہ ہے۔ اسلام کو سب اپنے اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کی دیگر عصبیتیں، ان کی مذہبی عصبیت پر غالب ہیں۔
ہمارے دل میں ملائیشیا، ترکی اور ایران کیلئے بہت عزت ہے کہ انہوں نے کشمیر کے معاملے میں ہماری تائید کی۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کے بجائے مسلمانوں کا مسئلہ سمجھا اور دینی حمیت میں اس کو اٹھایا۔ یہ جذبہ قابلِ تعریف ہے؛ تاہم مناسب یہ تھا کہ وہ ان معاملات میں وزارتِ خارجہ سے اچھی طرح بریفنگ لیتے اور پھر کسی اجتماعی اقدام کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ میں تمام مضمرات کو نظر انداز کرتے ہوئے، تقریر کر ڈالی۔ جب اس تقریر پر عمل کرنے کا وقت آیا تو انہیں الٹے پاؤں لوٹنا پڑا۔ حسنِ ظن سے کام لیں تو خان صاحب کا جذبہ لائقِ تحسین تھا لیکن ریاستی امور سے عدم واقفیت نے ان کیلئے مشکل پیدا کر دی۔ امید کرنی چاہیے کہ وہ مستقل میں داخلی اور بین الاقوامی سیاست میں خواب اور تعبیر کے درمیان حائل فاصلے کو پیشِ نظر رکھیں گے۔ وہ داخلی سیاست میں تو کب کے رومان کو خیر باد کہہ چکے۔ اللہ کرے ان کے متاثرین کو بھی یہ توفیق نصیب ہو۔ حقیقت پسندی ان کو اس اذیت سے بچا سکتی ہے، جو غلط اقدامات کی مدافعت سے ہوتی ہے۔