حکومت تو خیر تھی ہی، ایسی نالائق اپوزیشن بھی ہماری تاریخ میں کبھی نہیں آئی۔
نئے سال کا استقبال پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہوا۔ 2019ء رخصت ہوا تو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا تحفہ دے کر۔ گزشتہ سال کے دوران گیس کی قیمت میں پچپن فیصد اور اٹھارہ غذائی اشیا کی لاگت میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔ اگست 2018ء سے اکتوبر 2019ء کے دوران بجلی کی قیمت بارہ دفعہ بڑھائی گئی۔ ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ افراطِ زر کی شرح‘ جو 2017ء میں 2.1 فی صد تھی، آج 12 فی صد ہو چکی۔ ہمارا قرض جو 2017ء میں جی ڈی پی کا 61.4 فی صد تھا، آج 79.1 فیصد ہو چکا ہے۔ عوام مضطرب ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود، اپوزیشن عوامی جذبات کو زبان نہ دے سکی۔
احتساب کا نظام بھی اپوزیشن کا منہ چڑا رہا ہے۔ شریف خاندان اور زرداری صاحب کو عملی سیاست سے دیس نکالا دیا جا چکا۔ اب اگر احتساب کا قانون بدل بھی جائے تو اُن کے کس کام کا۔ ان کے ساتھ جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ اب قانون وہی رہے یا تبدیل ہو، نواز شریف صاحب کو اس کا کوئی فائدہ ہے نہ زرداری صاحب کو۔ احتساب کے نام پر سیاست کا سارا منظر بدل دیا گیا مگر اپوزیشن یہاں بھی کہیں دکھائی نہیں دی۔
قانون سازی کا معاملہ یہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ آرڈیننس پہ آرڈیننس لایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے لیے حکومت کے ذمہ داران کے دل میں رتی برابر عزت نہیں۔ وزیر اعظم سے وزیرِ احقر تک، جب بولتے ہیں، اپوزیشن کی خوب عزت افزائی کرتے ہیں۔ کہنے کو اپوزیشن کی سینیٹ میں اکثریت ہے لیکن یہ اکثریت کسی قوت میں نہیں ڈھل سکی۔ اپوزیشن تعاون کا کشکول اٹھائے پھرتی ہے اور حکومت اس میں کوئی خیرات نہیں ڈالتی۔ اس کے باوجود اپوزیشن خوش ہے کہ عزت محفوظ ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے نواز شریف اقتدار ہی نہیں، جان پر کھیل گئے۔ جب عدالت نے تاریخی فیصلہ سنایا تو نون لیگ نے زبانِ حال سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔ شہباز شریف صاحب نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے: نواز شریف کیا اسی جماعت کے لیڈر تھے؟ کیا اس جماعت کے لوگوں کو معلوم ہے کہ نواز شریف نے مشرف صاحب کو یہاں تک پہنچانے کے لیے کیا کیا جتن کیے؟ تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار۔
دوسری طرف دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ خان صاحب کوئی حرفِ ندامت کہے بغیر مشرف صاحب کے دفاع میں کھڑے ہو گئے۔ اپوزیشن بس منہ دیکھتے رہ گئی۔ کسی کو شرمندہ کر سکی نہ عوام کو بتا سکی کہ آئین کا احترام کیوں ضروری ہے اور کیوں اس کے بغیر مہذب ریاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔رانا ثنااللہ صاحب کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ میڈیا تھا جس نے ان کا مقدمہ لڑا۔ ان پر لگائے الزامات کو چیلنج کیا۔ سوچیے! اگر میڈیا خاموش رہتا تو رانا صاحب کے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا تھا؟ وہ نون لیگ پنجاب کے صدر تھے۔ ان کی جماعت سے تو یہ بھی نہ ہو سکا کہ ان کے حق میں ڈھنگ سے کوئی احتجاجی مظاہرہ ہی ترتیب دے دیتی۔ پنجاب اسمبلی ہی میں کوئی قابلِ توجہ آواز اٹھاتی‘ جہاں وہ سب سے بڑی جماعت ہے۔ اپوزیشن ہر روز حکومت کو نالائقی کا طعنہ دیتی ہے۔ کیا اس سے زیادہ نالائق اپوزیشن کبھی کسی نے دیکھی؟نون لیگ نے ایک دن مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا۔ یہ مظاہرے اس بے دلی کے ساتھ منظم کیے گئے کہ عوام میں کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوئی۔ جب کارکن ہی پُرجوش نہ ہوں تو عوام میں دلچسپی کیسے پیدا ہو؟ اب ''دنیا‘‘ کے باخبر رپورٹر طارق عزیز کی اطلاع یہ ہے کہ پارٹی نے مارچ تک مزید خاموشی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سب پروگرام منسوخ۔ مریم اورنگزیب ٹی وی سکرین پر مسلم لیگ کی موجودگی کا احساس دلاتی تھیں۔ سنا ہے کہ وہ بھی ڈیڑھ مہینے کے لیے ملک سے باہر رہیں گی۔ گویا جو تھوڑی بہت رونق تھی، وہ بھی ختم۔
نواز شریف اور مریم نواز نے ملک میں بیداری کی ایک لہر اٹھا دی تھی۔ سیاست میں ایک متبادل بیانیہ جڑ پکڑ رہا تھا۔ چھوٹے صوبے بڑے اعتماد کے ساتھ بڑے بھائی پنجاب کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ ان کا بھی مقدمہ لڑے گا۔ پنجاب کے بارے میں صدیوں سے قائم تاثر بدل رہا تھا۔ وفاق مضبوط ہو رہا تھا کہ وہ عوامی قوت منظم ہو رہی تھی جو ملکوں کو متحد رکھتی ہے۔ جب یہ واقعہ ہو چکا تو نون لیگ نے چپ سادھ لی۔ شہباز شریف صاحب لندن جا بیٹھے۔ کیا اسی کا نام اپوزیشن ہے؟ کیا سیاست اسی کو کہتے ہیں؟
حکومتی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اس کی آبرو ایک لڑکی کے 'ٹک ٹاک‘ کی مار ہے۔ وزرا جو خان صاحب کا ذاتی انتخاب ہیں، حکومت اور پارٹی کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنے رہے۔ ذرا اس اپوزیشن کا تصور کیجیے جو ان وزرا کے ہوتے ہوئے بھی، عوام میں حکومت کے خلاف کوئی تحریک نہ اٹھا سکی۔ ایک بلاول متحرک ہیں مگر بغیر کسی سنجیدہ ایجنڈے کے۔
اپوزیشن ملک کو متبادل قیادت فراہم کرتی ہے۔ وہ امید کا چراغ بجھنے نہیں دیتی۔ وہ مایوس عوام کو حوصلہ دیتی ہے کہ قوم کے پاس مسائل کا دوسرا حل بھی موجود ہے۔ یوں اس کا وجود ایک جمہوری عمل میں تسلسل پیدا کرتا ہے۔ لوگوں کا ملک پر عمومی اعتماد قائم رہتا ہے۔ پھر ویزوں کے لیے، دوسرے ممالک کے سفارت خانوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں دکھائی نہیں دیتیں۔آج ہر کوئی ملک چھوڑ دینا چاہتا ہے۔ لوگوں کی آمدن میں اوسطاً پچاس فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ وسائل اور اخراجات میں عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے۔ اکثریت اپنی بچتوں سے معاشی توازن قائم رکھے ہوئے ہے‘ لیکن آخر کب تک؟ سٹریٹ کرائمز میں اضافے نے عدم تحفظ کا احساس گہرا کر دیا ہے۔ حکومت سے وابستہ توقعات دم توڑ رہی ہیں۔ ایسے میں کوئی سیاسی قوت ایسی نہیں جو ان کا اعتماد بحال کر سکے۔ انہیں بتا سکے کہ اگر اس ملک کو اچھا منتظم میسر آ جائے تو یہاں بھی امکانات کے ان گنت چراغ روشن ہو سکتے ہیں۔آج بہت سے سوال جواب طلب ہیں: اس وقت ہماری کشمیر پالیسی کیا ہے؟ کشمیر کا معاملہ پس منظر میں جا چکا۔ دنیا کشمیر کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔ ہم اس کو اپنی سفارتی قوت نہیں بنا سکے۔ حکومت کا وژن بس اتنا ہی تھا کہ جمعہ کو آدھ گھنٹے کے لیے ٹریفک روک دی جائے۔ دو تین ہفتوں کے بعد، اس سے بھی دست بردار ہو چکی۔ کیا ایسی بچگانہ حرکتوں سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ اپوزیشن نے کشمیر کے معاملے میں قوم کو کیا راہنمائی فراہم کی؟ اسے نئے حالات سے کتنا باخبر رکھا؟
معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی پالیسی نہیں کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر، بغیر سوال اٹھائے، عمل کرے۔ معاشی ٹیم کی ساخت اس پر گواہ ہے۔ آئی ایم ایف کہے کہ بجلی کی قیمت بڑھاؤ تو بڑھا دی جائے۔ وہ کہے کہ عوام کو رعایت (subsidy) نہ دو تو نہ دو۔ اگر معیشت کو بحال کرنے کا یہ نسخہ شفا بخش ہے تو یہ مصر اور دوسرے ممالک کی بیمار معیشت کو کیوں صحت مند نہ بنا سکا؟ کیا پاکستان کے پاس اس کے متبادل کوئی معاشی پالیسی ہو سکتی ہے؟ کیا اپوزیشن نے ان معاملات میں کوئی متبادل سوچ دی ہے؟
جو اپوزیشن اپنی عزت نہ کروا سکے‘ ملک کو متبادل قیادت نہ دے سکے۔ موجود امکانات کے چراغوں کو روشن نہ کر سکے۔ نواز شریف جیسے لوگوں کی قربانیوں کی قدر نہ کر سکے۔ عوامی جذبات کو زبان نہ دے سکے۔ حکومت کو پارلیمنٹ کی اہمیت جتا نہ سکے۔ جو عوام کی آنکھوں میں جھانکے کے بجائے، مقتدر حلقوں کے اشارۂ ابرو کی طرف دیکھتی ہو۔ ایسی اپوزیشن عوام کے کس کام کی؟
میں سوچتا ہوں اس سیاسی ماحول میں رانا ثنااللہ، شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید، مشاہداللہ خان، خواجہ سعد رفیق، چوہدری منظور اور قمر زمان کائرہ جیسے لوگوں کے لیے، کیا کوئی جگہ ہے؟ کیا یہ حسبِ خواہش کوئی کردار ادا کر سکیں گے؟
ملک آج ایک مشکل مقام پہ کھڑا ہے۔ جس نے حکومت سے امیدیں باندھیں، اسے مایوسی ہوئی اور جس نے اپوزیشن سے لو لگائی، اس کو بھی کچھ نہ ملا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اب کس کی طرف دیکھیں؟ آج قوم کا لیڈر کون ہے؟ لائق کون ہے اور نالائق کون؟