ٹی وی ڈرامے نے ایک پامال موضوع کو پھر سے بحث کا عنوان بنا دیا۔
اس بحث کا نتیجہ بھی وہی رہا جو ایسے مباحث کا ہوتا ہے: تقسیم۔ کوئی مرد کے حق میں کھڑا ہو گیا اور کوئی عورت کے ساتھ۔ برتری اور کمتری کی بحث اٹھا دی گئی۔ ڈرامہ نگار کے لیے ممکن ہے کہ کردار اپنے قلم سے تخلیق کرے۔ حقیقی کردار کا تعین مگر سماج کے ارتقائی عمل کے ہاتھ میں ہے۔ یہ سماجی ارتقا ہے جو ان کرداروں کی صورت گری کرتا ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے، اس کو سمجھنا چاہیے۔
کارل مارکس نے سماج کے سمجھنے میں ہماری مدد کی۔ ہم ان سے اختلاف تو کریں گے لیکن ان کے شکر گزار بھی رہیں گے کہ انہوں نے بہت سی فکری گرہوں کو کھولا۔ وہ سماج کے ارتقا میں ذرائع پیداوار کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ذرائع پیداوار ہی ہیں جنہوں نے مرد اور عورت کے سماجی کردار کا تعین کیا ہے۔
معاشرتی سطح پر مرد کی برتری کا تصور کیسے پیدا ہوا؟ انسانی تہذیب میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب انسان کا جسم ہی 'ذریعہ پیداوار‘ تھا اور طاقت کا منبع بھی۔ شکار اور کھیتی باڑی پر زندگی کی بقا کا انحصار تھا۔ یوں جسمانی قوت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔ جسمانی طور پر مرد زیادہ توانا ہے۔ ایک گھر میں مردوں کی تعداد کا زیادہ ہونا، اس کی طاقت کے زیادہ ہونے کی علامت تھا۔ اس گھر کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی تھی کیونکہ یہاں وہ ذرائع زیادہ تھے جو شکار کر سکتے اور فصل اگا سکتے تھے۔
پھر انسان کو بقا کے لیے محارب قبائل اور درندوں کا بھی سامنا تھا۔ جس قبیلے کے پاس دست و بازو زیادہ ہوتے، وہ بہتر انداز میں دشمنوں کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ یوں مردوں کا زیادہ ہونا ایک معاشی اور سماجی ضرورت بن گئی۔ اب ہر خاندان اور قبیلہ یہ چاہتا کہ اس کے مردوں کی تعداد زیادہ ہو۔ یہیں سے اولادِ نرینہ کی خواہش پھوٹی اور اس نے ایک سماجی قدر کی حیثیت اختیار کر لی۔
اجتماعی خاندان کے تصور کا ماخذ بھی یہی سماجی ضرورت ہے۔ زرعی معاشروں میں ریاست کا کوئی منظم نظام موجود نہیں تھا، اس لیے معاش اور حفاظت کا اہتمام ایک قبیلے اور خاندان کی اپنی ذمہ داری تھی۔ زمین کی قیمت زیادہ نہ تھی، یہ ممکن تھا کہ بڑا گھر بنایا جائے اور کئی خاندان ایک ساتھ آباد ہوں۔ اس طرح کئی نسلوں تک لوگ ساتھ رہتے اور اجتماعی خاندان وجود میں آتے۔
صنعتی انقلاب نے ذرائع پیداوار کی نوعیت کو بدل دیا۔ انسان کی جگہ مشینوں نے لے لی۔ اب انسانی دست و بازو کی وہ اہمیت باقی نہ رہی جو زرعی معاشرے میں تھی۔ ایک مشین کئی افراد کی مشترکہ قوت کا متبادل تھی اور اجتماعی کوشش کے مقابلے میں زیادہ پیداوار دے رہی تھی۔ اس طرح جو صنعتی معاشرہ وجود میں آیا، اس میں اولادِ نرینہ کی اہمیت کم ہو گئی۔ مشین کا وجود انسان کے ذہن کی دین ہے۔ یہ اس کے تخیل کی پرواز ہے جس نے مشین کو جنم دیا۔ گویا اب مصدرِ طاقت، جسم کی جگہ دماغ بن گیا۔
دماغ کا معاملہ یہ ہے کہ اس میدان میں عورت مرد سے کم تر ثابت نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے عورت کو موقع ملتا گیا، اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور یوں مرد کی برتری کا تصور دھندلانے لگا۔ اب پیداوار میں اس کا حصہ بھی اتنا ہی تھا جتنا مرد کا تھا۔ اس کا اثر سماج پر بھی پڑا۔ ایک تو یہ کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں انسان دیہات سے شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے۔ یہ فطری تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے زرعی دور میں انسانی بستیاں پانی کے قریب آباد ہوتی تھی۔ اکثر انسانی تہذیبیں دریاؤں کے کنارے پھلی پھولی ہیں۔
شہروں کی طرف منتقلی کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اجتماعی خاندان کی جگہ 'نیوکلیئر فیملی‘ نے لے لی جو میاں بیوی اور بچوں تک محدود تھی۔ شہروں کی زمین دیہات کے مقابلے میں کہیں قیمتی تھی۔ اسی وجہ سے کثیرالمنازل عمارتوں اور فلیٹس یا اپارٹمنٹس کا تصور پیدا ہوا۔ خاندان کی ضروریات بڑھیں تو معلوم ہوا کہ محض ایک شخص کی کمائی سے خاندان نہیں چل سکتا۔ نیوکلیئر فیملی میں اب خاتونِ خانہ کو بھی خاندان کی کمائی میں شریک ہونا پڑا۔
نئے دور میں مسابقت کا میدان جسمانی نہیں، ذہنی قوت تھا۔ یوں عورت مرد کے مقابل آ کھڑی ہوئی۔ وہ اس قابل ہو گئی کہ مرد کے مساوی ہو جائے یا بعض عورتیں بعض مردوں سے بہتر بھی ثابت ہوں۔ عورت جب معاشی عمل کا حصہ بنی تو ناگزیر نتیجے کے طور پر فیصلہ سازی میں شریک ہو گئی۔ اب اس کا سماجی کردار وہ نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔ فیصلہ سازی کا میدان خاندان سے ریاست تک کے امور کو محیط ہو گیا۔
ماضی میں قوت کا منبع چونکہ مرد تھا، اس لیے معاشرے کی اجتماعی نفسیات مرد کی برتری کے تصور کو قبول کیے ہوئی تھی۔ وہی فیصلہ ساز تھا اور وہی قوت کا مرکز بھی۔ نئی صورت حال میں جب اسے عورت کو فیصلہ سازی میں شریک کرنا پڑا تو ایک 'کمتر‘ کو اپنے مساوی یا بعض اوقات برتر حیثیت میں قبول کرنا آسان نہیں تھا۔ مرد عورت کی نئی سماجی حیثیت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ اسے اپنی حیثیت منوانے کے لیے جدوجہدکرنا پڑی اور بالآخر مرد نے بڑی حد تک اس کی مساوی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔
اس ارتقا پر غور کیجیے تو صاف معلوم ہوتا کہ مرد اور عورت کے سماجی کردار کا تعین کوئی نظریہ نہیں کر رہا۔ یہ تاریخی عمل ہے جو دونوں کی حیثیت متعین کر رہا ہے۔ یہ تاریخ کا جبر ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ آج بعض معاشروں کو قدیم روایات پر اصرار ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ہی ان موضوعات پر ڈرامے بنتے ہیں اور انہیں تقسیم کر دیتے ہیں۔ یہ تاریخی عمل سے بچھڑ جانے کا اعلان ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے معاملات میں مذہب کیا کہتا ہے؟ یہ مذہبی علما کی ذمہ داری ہے کہ اس سماجی ارتقا کی روشنی میں عوام کی راہنمائی کریں۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے۔ اس میں ان تمام ارتقائی مراحل کا لحاظ رکھا گیا ہے جو قیامت تک پیش آنے والے ہیں۔ اسی وجہ نے اسلام میں بطور صنف مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر اگر دونوں میں سے کوئی جرم کرتا ہے تو ان کی سزا ایک جیسی ہے۔ اگر سزا ایک جیسی ہے تو لازم ہے کہ جزا بھی ایک جیسی ہو۔
مذہب کا اصل مسئلہ انسان کا اخلاقی تزکیہ ہے‘ اس لیے ان معاملات میں راہنمائی اس کا بنیادی وظیفہ ہے جن کا تعلق انسانی اخلاق سے ہے۔ اسلام کا کہنا ہے کہ انسان کی اخلاقی پاکیزگی کے لیے خاندان کا ادارہ لازم ہے جو مرد اور عورت کے مابین ایک سماجی معاہدے، نکاح کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ وہ اس ادارے کی بقا کے لیے خاوند اور بیوی دونوں کو ہدایات دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ خاندان کے نظم میں سربراہی کا منصب خاوند کے پاس ہے۔ اس کا تعلق مرد کی کسی صنفی برتری سے نہیں، خاندانی نظم کی بقا سے ہے۔
تاہم یہ ایک اصولی بات ہے جس کا تعلق عموم سے ہے۔ انفرادی سطح پر یہ ممکن ہے کہ کسی خاندان کا نظم عملاً خاتون کے ہاتھ میں چلا جائے۔ مرد کو سربراہی کا حق اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ قوام ہے۔ یعنی معاشی بوجھ اٹھاتا ہے۔ جہاں یہ بوجھ عورت نے اٹھا رکھا ہے، وہاں غیر ارادری طور پر فیصلہ سازی کا حق بیوی کو مل جاتا ہے اور سربراہی کا بھی۔ نا اہل مرد کے ہاتھ میں خاندان کی باگ تھمانا، اسے برباد کرنا ہے۔
کاش یہ ارتقا بھی ڈراموں کا موضوع بنے اور معاشرے کی تعلیم ہو۔ پھر یہ لا یعنی تبصرے ختم ہو جائیں کہ عورت میں حیا اور مرد میں وفا ہوتی ہے۔ حیا اور وفا کو الگ کرنا ممکن نہیں۔ وفا حیا کا لازمی نتیجہ ہے اور حیا وفا کا۔ ان اقدار میں مرد و عورت کی تفریق کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔