سجدہ کیا ہے؟
عقیدے اور مذہب سے پھوٹے ہوئے احساسِ عبادت کی تجسیم۔ ایک اَن دیکھی ہستی پر ایمان کا بے کراں جذبہ، جو اظہار کے لیے مچل اٹھے تو ایک عمل میں ڈھل جائے۔ ایک ایسی ہستی کا خیال جو خالق ہے اور جس کی نعمتیں بے شمار۔ اس کی جلالت کا احساس اور اس کے احسانات کا بار، جب ایک انسان کے وجود کا احاطہ کر لے اور اس کا دل چاہے کہ اس کے روبرو خود کو ڈھا دے اور وہ اپنا سر اس کی چوکھٹ پر رکھ دے۔ وہ حقیقتِ منتظر، جسے وہ لباسِ مجاز میں دیکھنے کا متمنی ہے لیکن جانتا ہے کہ انسانی آنکھ اسے پا نہیں سکتی، وہ پیغمبر ہی کی کیوں نہ ہو۔
الہامی شریعتوں میں عبادت صرف خدا کے لیے ہے جو اس کا سزاوارِ حقیقی ہے۔ جب اس جذبے کا محرک اور مصداق کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تو اس سے جنم لینے والے اعمال کسی دوسرے کے لیے کیوں؟ ان اعمال میں سب سے برتر سجدہ ہے۔ عبادت کا جوہر اور اس کی جان۔ عبادت جس کے لیے ہوگی، لازم ہے کہ سجدہ بھی اسی کے لیے ہو۔ ہم سب دن میں کئی بار یہ جملہ دھراتے ہیں: ایاک نعبد وایاک نستعین۔ ہم میں بہت کم ہیں جنہوں نے کبھی اس جملے کے مطلب پر غور کیا ہے۔ اس اسلوبِ کلام میں 'حصر‘ ہے: عبادت اس کے علاوہ کسی اور کی نہیں۔ استعانت اس کے سوا کسی اور سے نہیں۔
انسان کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ خدا بننا چاہتا ہے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لانے والے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بد نصیب بھی ہوتے ہیں جو اس کی 'عبادت‘ کے لیے دلائل تراشتے ہیں۔ ہماری علمی تاریخ میں 'سجدہ تعظیمی‘ پر ضخیم لٹریچر وجود میں آ چکا۔ اس کے لیے دلیل بھی خدا کے حکم سے لائی جاتی ہے کہ اس نے ابلیس کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرے۔ گویا معبود نے خود غیراللہ کے سجدے کے لیے گنجائش پیدا کر دی۔ اس گنجائش کے سہارے پر غیراللہ کا سجدہ روایت بن گیا۔ آج یہ ایک پامال راستہ ہے جس پر ان گنت قدموں کے نشان ہیں، 'مواحدین‘ کے قدموں کے نشان۔
'سجدہ تعظیمی‘ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ کوئی تفصیل جاننا چاہے تو مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر ''تدبرِ قرآن‘‘ میں سورہ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر پڑھ لے۔ قرآن مجید نے سورہ حجر میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ آدم کو سجدہ الہامی سکیم کا حصہ تھا جس کا اعلان تخلیقِ آدم سے پہلے کر دیا گیا تھا۔ گویا اس کا تعلق کسی واقعے کے نتیجے سے نہیں، یہ الگ بات کہ اس کا اظہار ایک واقعے کی صورت میں ہوا۔
انسان جب خدا بننے چلا تو اس نے اپنا سجدہ کرانا چاہا۔ جہاں اسے ساجدین میسر آئے اور اس کے دلائل دینے والے، وہاں ایسے بھی تھے جنہوں نے انکار کیا۔ ''گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے‘‘ کون ہے جس نے اقبال کا یہ مصرعہ نہیں سن رکھا؟ شیخ احمد سرہندی سے بھی چاہا گیا کہ وہ سجدہ تعظیمی کریں۔ انہوں نے انکار کیا۔ اس واقعے کو ہماری تہذیبی روایت میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ میرا احساس ہے کہ حضرتِ شیخ کو استعارہ بنانے میں اس واقعہ کا بنیادی کردار ہے۔
سجدہ سیاست میں ایک اور راستے سے بھی آیا۔ یہ توہم پرستی کا راستہ ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ خدا بننے کے متمنی توہم پرست بھی ہوتے ہیں۔ وہ کسی مافوق الفطرت سہارے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کے نہاں خانۂ دل میں یہ احساس چھپا ہوتا ہے کہ کوئی ماورائے اسباب، ان کا ہاتھ تھامے اور مسندِ اقتدار پر بٹھا دے۔ تصوف کی روایت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ امورِ دنیا انہیں سونپ دیے گئے۔ 'رجال الغیب‘ یہی کام کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایک ممتازجدید صوفی اپنی کتاب 'کہے فقیر‘ میں اپنے شیخ کا قصہ سنا چکے جو ترکی میں کہیں مامور تھے اور ان کے ذمہ جاپان میں زلزلہ برپا کرنا تھا۔
یہ لوگ اقتدار بھی دلواتے ہیں۔ صوفیا کے تذکروں میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے کہ کیسے بڑے بڑے بادشاہ ان کے در سے نوازے گئے۔ یہی سبب ہے کہ دورِ حاضر کے اہلِ سیاست، آکسفورڈ کے پڑھے ہوں یا لاہور کے، ایسے دروازوں کے مستقل سوالی ہیں۔ قرآن مجید نے ایسے کرداروں پر تبصرہ کیا جن سے لوگ مانگتے ہیں۔ ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو واپس نہیں لے سکتے ہیں: کتنے کمزور ہیں یہ طالب اور یہ مطلوب (الحج)
الہ اور عبادت کا تصور جب سیاست سے مربوط ہوا تو افکار میں افراط و تفریط نے جنم لیا اور رویوں میں بھی۔ ایک طرف اگر مزاروں پہ سجدہ کرنے والے تھے تو دوسری طرف وہ بھی تھے جنہوں نے دنیا کے ہر سیاسی نظم کو الہ کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ رجال الغیب کے قائل بھی معمولی لوگ نہیں تھے اور سیاسی نظام کو طاغوت اور الہ کا درجہ دینے والے بھی جلیل القدر عالم تھے۔ انہوں نے دلائل کے انبار لگا دیے کہ 'غیر اسلامی‘ سیاسی بندوبست کے احکام کو ماننا گویا اسے الہہ سمجھنا ہے اور اس کی عبادت کرنا ہے۔
توحید سیاسی انتظام و انصرام سے ماورا ایک ما بعدالطبیعاتی تصور ہے۔ یہ عقیدہ ہے اور اس کے عملی مضمرات بھی ہیں۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو اس عالم کا تکوینی حاکم و خالق ماننا ہے۔ یہ کائنات اسی کے حکم سے قائم ہوئی اور اسی کے احکام کی پابند ہے۔ انسان بھی، اس امتیاز کے ساتھ کہ اسے دیگر مخلوقات کے برخلاف ارادے اور عمل کی آزادی دی گی ہے۔ حکم انسان کے لیے بھی یہی ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرے جو اس کا خالق ہے۔ اور یہ کہ اس کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ عبادت اسی کی اور استعانت بھی اسی سے۔ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے اور یہ سب سے بڑاظلم ہے۔
سیاست میں مذہب کا غلبہ ہوا تو اس نے توحید جیسے عقیدے کے باب میں معاشرے کو جس طرح بے حس بنا دیا، وہ میرے لیے تعجب کا باعث ہے۔ دوسروں کا ذکر کیا کہ غیر سیاسی نظام کو طاغوت اور الہ ماننے والے اس عوامی سطح پر توحید کے بارے میں حساس نہیں رہے۔ پھر وہ جنہوں نے عقیدے کو لٹھ بنایا ہوا ہے، ان کا حال تو ناگفتہ بہ ہے۔ وہ لوگوں کو مزاروں پہ سجدے کرتے دیکھتے ہیں مگر ان کی حمیتِ دین جوش میں نہیں آتی۔ سیاست و مذہب کو یکجا سمجھنے والے، توحید سے کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں؟
توحید اسلامی عقیدے کی اساس ہے۔ اس کے بارے میں اگر ایک ایسا معاشرہ حساس نہ رہے جسے اپنے مذہبی تشخص پر اصرار ہے تو یہ ایک غیرمعمولی انحراف ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ جو سمجھتا ہے کہ توحید کے معاملے میں لاپروائی کے باوجود، ریاست مدینہ جنم لے سکتی ہے تو اس کی فراست قابلِ مذمت ہی نہیں، باعثِ افسوس بھی ہے۔
میرے نزدیک یہ سیاست کا موضوع نہیں۔ یہ سماجی تعلیم کا موضوع ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ 'ویلنٹائن ڈے‘ پر سر بکف باہر نکلنے والے، توحید سے انحراف پر کبھی پریشان نہیں ہوتے۔ ایک مسلم معاشرے کا تہذیبی وجود اگر توحید پر نہیں کھڑا تو اس کی تہذیب جو بھی ہو، اسلامی نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کو بھی جب مشترکات کی طرف دعوت دی تو اس کی پہلی اساس توحید کو بنایا۔ مجھے تاویل کی وسعت کا اندازہ ہے مگر میں نہیں جانتا کہ غیر اللہ کے در پر سجدے کے لیے کوئی تاویل پیش کی جا سکتی ہے۔
میں توحید کو ایک سیاسی تصور کے بجائے، ایک عقیدے اور تہذیبی قدر کے طور پر دیکھتا ہوں۔ جو لوگ مذہب پر یقین رکھتے ہیں، توحید کے باب میں ان کی بے حسی مجھے کھَلتی ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ جس دن توحید کے باب میں میرے حساسیت ختم ہو گئی، میرا وجود اسی دن مٹ جائے گا۔ع
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن