آپ کا بچہ ایک مجرمامہ ذہنیت کے حصار میں ہے؟ کیا آپ کو اس کا ادراک ہے؟
بچوں کا جنسی استحصال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ خاندان، تعلیمی ادارہ، محلہ، کوئی جگہ ایسی نہیں جو اس ذہنیت کی گرفت میں نہ ہو۔ رشتے دار، استاد، محلے دار، آپ نہیں جانتے کہ مجرم کس روپ میں ہے۔ سپیکر کے پی اسمبلی کے مطابق ایک تھانے میں ایک سال کے اندر اس نوعیت کے 250 مقدمات درج ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک بیمار معاشرے میں زندہ ہیں۔ ایسے پریشان کن واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ آدمی سنتا اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ لازم ہے کہ سماج کا ہر طبقہ خبردار ہو اور ایک اجتماعی قوت کے ساتھ، اس ذہنیت کا مقابلہ کرے۔
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جس نے اس کی سنگینی کو محسوس کیا اور اس کے تدارک کے لیے متحرک ہوا۔ معاملے کی ہمہ جہتی کے پیشِ نظر، ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ارادہ کیا کہ ماہرین نفسیات، کرمنالوجی، پولیس، علما، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ شعبوں کے نمائندوں کو جمع کیا جائے اور اس باب میں ان کے علم و فضل اور تجربے سے استفادہ کیا جائے۔ 23 اکتوبر کو یہ سب لوگ ایک مشاورتی نشست میں شریک ہوئے اور اس صورتِ حال کی تلافی کے لیے تجاویز مرتب کیں۔
6,7 جنوری کو کونسل کے اجلاس میں ان تجاویز کو پیش کیا گیا۔ اراکین نے اس میں اپنی بصیرت کو شامل کیا اور یوں ان سفارشات کو حتمی شکل دے دی گئی۔ یہ سفارشات، کہا جا سکتا ہے کہ کسی ذمہ دار ادارے کی پہلی مربوط کاوش ہے۔ اس میں حکومت، والدین، اساتذہ اور معاشرے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ وہ بچوں کو اس ذہنیت سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
کے پی کے اسمبلی نے پہل کی اور ان سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کا آغاز کیا۔ سپیکر صوبائی اسمبلی نے، جو ان سفارشات کے اجرا کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے، اعلان کیا کہ ان سفارشات کو بنیاد بنا کر، ایک سہ جہتی حکمتِ عملی بنائی جا رہی ہے جو قانون سازی، نفاذِ قانون اور آگہی کو محیط ہو گی۔ یہ ایک حوصلہ افزا قدم ہے، اس لیے کہ محض قانون نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا‘ اگر اس کا نفاذ نہ ہو اور عوام مسئلے کی سنگینی سے آگاہ نہ ہوں۔
بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کیوں ہوتا ہے؟ اس کے اسباب نفسیاتی ہیں یا فکری؟ مجرموں میں زیادہ تعداد غربا کی ہے یا امرا کی؟ سماجی اداروں کی لا تعلقی، کس حد تک اس کی ذمہ دار ہے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کیے بغیر اس ذہنیت کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے سدِ باب کی کوئی صورت تجویز کی جا سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ان سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، ایک نظامِ فکر کے تحت اپنی سفارشات مرتب کی ہیں۔
اس نظامِ فکر کو کونسل کے رکن محترم احمد جاوید نے اپنے بصیرت افروز خطبے میں بیان کیا جو ان سفارشات کے اجرا کی تقریب میں ارشاد کیا۔ احمد جاوید صاحب ایک ذی علم شخصیت ہیں جو فلسفہ و تصوف، دین و حکمت اور تہذیب و تمدن کا گہرا مطالعہ ہی نہیں رکھتے، سماجی نفسیات کے پس منظر میں اجتماعی مسائل کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ ان کی یہ گفتگو اس قابل ہے کہ افادہ عام کے لیے، اس کے اہم نکات کی تشہیر کی جائے۔
احمد صاحب کا خیال یہ ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد، دراصل اس نظامِ فکر کی قبولیت کا ناگزیر نتیجہ ہے جس میں جنسی لذت کے عروج (Maximization of Pleasure) کا حصول، انسان کا مقصود بنا دیا گیا ہے۔ یوں جنسی تعلق کا فطری دائرے میں مقید رہنا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم جنسیت (homosexuality) کو ایک فطری تعلق کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ ماضی میں اسے ایک نفسیاتی مرض سمجھا جاتا تھا اور اس کا علاج کیا جاتا تھا۔ اب ایسی علاج گاہیں بند ہو رہی ہیں اور ہم جنس پرستی کو ایک نارمل جنسی رویہ قرار دے دیا گیا۔ احمد صاحب اس نظامِ فکر کا انتساب مغرب کے نام کرتے ہیں۔
جب جنسی لذت کے حصول کو عروج تک لے جانا مقصد بنتا ہے تو یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ مردوزن تک محدود رہے۔ پھر یہ کبھی ہم جنسی کی صورت اختیار کرتا ہے، اور کبھی جانور اس عمل کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔ اسی کا ایک ظہور بچوں کے ساتھ جنسی تعلق ہے۔ اسی لیے یہ ذہنیت صرف غریب لوگوں تک محدود نہیں، یہ امرا تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ایک سبب طاقت کی نفسیات بھی ہے جو دولت اور اقتدار سے جنم لیتی ہے۔
وہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں جس نے جنسی لذت کے حصول کو مقصود بناکر اس کی غیر فطری طلب پیدا کی اور اسے ایک تجارت میں بدل دیا۔ چائلڈ پورنو گرافی اسی کا ایک مظہر ہے۔ جنسی لذت کے حصول کو فطرت کے دائرے سے نکالنے کا یہ ناگزیر نتیجہ ہے کہ اس کی کوئی حد نہ رہے۔ سرمایہ داری چونکہ کسی اخلاقیات پر یقین نہیں رکھتی، اس لیے کسی اخلاقی قدر کی پامالی، اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔
احمد جاوید صاحب نے بعض دیگر مفکرین کی طرح، انسانی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا۔ قبل از جدیدیت، جدیدیت اور بعد ازجدیدیت۔ جدیدیت میں خدا کی نفی کی گئی اور ما بعد از جدیدیت میں انسان کی۔ انسان کو شعور کے بجائے جبلت کے تابع کرنا دراصل اسے انسان سے حیوان بنانا (dehumanization) اور اس کے جوہر (Essence) کی نفی کرنا ہے۔ خدا کے انکار کا لازمی نتیجہ انسان کا انکار ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم دراصل انسان کے انکار پر کھڑا ہے۔
جنسی رویوں میں ایسا عدم اعتدال، جو فرد کی نفسیات اور معاشرے کے وجود کو خطرے میں ڈال دے، آج کا بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اس کا ایک مظہر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد ہے۔ کسی معاشرے میں اگر بچے محفوظ نہ ہوں تو یہ سماجی زوال اور ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے۔ اس کا ادراک کرنا اور اس شکست و ریخت کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات میں والدین کو توجہ دلائی ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، بچوں کو اس ذہنیت سے محفوظ رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ جب بچے والدین کے ساتھ ہر بات کا ذکر نہیں کر سکتے تو پھر اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ باہر کی دنیا میں ان کا استحصال ہو۔ پھر محبت کے دو بول ان کو ورغلا سکتے ہیں یا پہلی زیادتی پر والدین کا خوف جب انہیں خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے تو پھر وہ ان کے لیے نفسیاتی عارضہ بن جاتا ہے۔ والدین کے لیے لازم ہے کہ وہ بچوں سے دوستی کریں، انہیں وقت دیں اور یہ دیکھیں کہ وہ کہاں جاتے اور کس سے ملتے ہیں۔ تعلیمی ادارے میں ان کے معاملات کیسے ہیں۔
اسی طرح یہ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کمرہ جماعت کے ماحول پر نظر رکھیں۔ جہاں بچوں کی مخلوط تعلیم ہے وہاں نشستیں الگ رکھیں۔ ایک کلاس میں بچوں کی عمروں میں زیادہ تفاوت نہ ہو۔ اگر استاد کسی بچے کے رویے میں کوئی خلافِ معمول بات دیکھے تو والدین کو خبر کرے۔معاشرے کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کے مواقع پیدا کرے۔ کھیل کے میدان ہوں۔ ثقافتی سرگرمیاں ہوں۔ اسی طرح تحفظِ اقدار کے ادارے ہوں جہاں تہذیب اور اخلاق کے حوالے سے حساسیت پیدا کی جائے۔ حکومت قانون سازی کے ساتھ، قانون کے نفاذ کا بھی اہتمام کرے تاکہ جرائم پیشہ اور اس ذہنیت کے حامل قانون کی گرفت سے باہر نہ رہیں۔
نفاذِ قانون بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کا ایک علاج ہے۔ اصل مسئلہ ان عوامل کو ختم کرنا ہے جو یہ مجرمانہ ذہنیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت کے ساتھ معاشرہ بھی سرگرم ہو۔ محراب و منبر سے میڈیا تک۔ والدین سے اساتذہ تک سب اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں حساس ہوں اور ایسے مجرموں کے خلاف پورا معاشرہ بروئے کار آئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حصے کا کام کر دیا۔ اب دوسروں کی باری ہے۔