ختمِ نبوت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ انکار کی صورت میں کوئی عذاب۔ تنبیہات باقی ہیں اور تا صبحِ قیامت باقی رہیں گی۔
عقیدہ اس لیے نہیں ہوتا کہ منکرین کو ایذا پہنچانے کے لیے اُسے ہتھیار بنا لیا جائے۔ عقیدے کے انسانی علم اور عمل پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، اگر وہ انسان کے شعور کا حصہ بنے۔ بصورتِ دیگر وہ صرف ایک عصبیت ہے، جس کا زندگی سے کوئی عملی تعلق نہیں۔ محض ایک امتیازی نشان، جس سے صرف دوسروں کی زندگی اجیرن بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر حلق سے نیچے نہیں اترتا۔
ختم نبوت ایک ایسا عقیدہ ہے، مذہبی روایت میں جس کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس کو یہ حیثیت دیے بغیر، الہام کی تفسیر ممکن ہے نہ تاریخ کی تفہیم۔ اس کا ایک پہلو قانونِ اتمامِ حجت سے ہے۔ اتمامِ حجت کا تصور مسلم علمی روایت کا حصہ ہے‘ جس کے آثار جید اہلِ علم کے ہاں پائے جاتے ہیں؛ تاہم مکتبۂ فراہی نے اسے ایک بالکل نیا آہنگ اور استدلال دیا ہے۔ یہ قانون استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کے علمی کام کے نتیجے میں اب ایک علمی مسلمہ ہے۔
ختمِ نبوت کا عقیدہ، تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک دور سیدنا آدمؑ سے شروع اور سیدنا محمدﷺ پر تمام ہو گیا۔ دوسرا دور وہ ہے جو خلا فتِ راشدہ کے خاتمے سے شروع ہوتا ہے اور اب اسے تادمِ قیامت جاری رہنا ہے۔ پہلے دور کے بارے میں اللہ کے قوانین کچھ اور، دوسرے کے بارے میں کچھ اور ہیں۔ قانونِ اتمامِ حجت کا تعلق پہلے دور کے ساتھ ہے۔
اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں کچھ اقوام کو منتخب کیا جن کی طرف اپنے رسول بھیجے۔ ایک تو خدا کی ہدایت کا عمومی نزول ہے جو ہر قوم پر ہوا اور ان کی طرف انبیا کی بعثت ہوئی۔ ایک اس ہدایت کا خصوصی نزول ہے۔ اس کے لیے انبیا میں سے بعض لوگوں کو منصبِ رسالت پر فائز کیا گیا اور انہیں ان منتخب اقوام کے لیے حجت بنا دیا گیا۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن یہ لازم نہیں کہ ہر نبی رسول بھی ہو۔ قانونِ اتمامِ حجت کا تعلق رسولوں اور ان کی مخاطب اقوام کے ساتھ ہے۔
یہ قانون کیا ہے؟ اسلام کا اصل پیغام یہ ہے کہ آدمی کو مرنا اور اپنے رب کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ یہ پیشی یومِ حساب کو ہو گی۔ اس دن انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ایک وہ جنہوں نے دنیا کی زندگی اللہ کی ہدایت کے مطابق گزاری جو انبیا کی معرفت ان تک پہنچی اور دوسرا وہ جس نے اس ہدایت کا جانتے بوجھتے انکار کیا۔ پہلا گروہ کامیاب ہے اور اس کا اجر ایک من پسند زندگی ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ یہ جنت کی زندگی ہے۔ دوسرا گروہ ناکام ہوا اور اس کی سزا ایک اذیت ناک زندگی ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے، اگر اللہ چاہے گا۔ یہ جہنم کی زندگی ہے۔
یہ سب کیسے ہو گا؟ قیامت کیسے برپا ہو گی؟ یہ جزا سزا کیسے واقعہ بنیں گے؟ ان سوالات کے جواب کا ایک طریقہ تو استدلالی ہے یعنی انسان کے عقل و بصیرت کو مخاطب بنا کر ان کے جواب دیے گئے۔ اس جواب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا۔ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس دنیا میں وقتاً فوقتاً ایک قوم کا انتخاب کرتا رہا ہے، جن کی طرف اس نے اپنے رسول بھیجے۔ رسول کی مخاطب قوم کو یہ بتایا گیا کہ جزا سزا کا جو معاملہ پوری انسانیت کے ساتھ، ایک دن پیش آنے والا ہے، وہ ان کے لیے اسی دنیا میں واقعہ بننے والا ہے۔ اگر وہ رسول پر ایمان لائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اسی دنیا میں انعام سے نوازے گا اور اگر رسول کی مخالفت کریں گے تو اللہ اسی دنیا میں سزا دے گا۔ یہ آخرت کی جزا و سزا کے علاوہ ہے۔
یوں رسول کی مخاطب قوم کے لیے ایک قیامتِ صغریٰ اسی دنیا میں برپا کر دی گئی۔ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے، ان کی مخاطب اقوام کو پہلے ہی خبردار کیا۔ انہیں بتایا کہ انکار کی صورت میں ان پر عذاب آئے گا۔ یہ آسمان سے بارشوں کی صورت میں اتر سکتا ہے اور زمین سے زلزلوں اور آفات کی شکل میں بھی آ سکتا۔ اس عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رسول کے ساتھیوں کے ذریعے منکرین کا خاتمہ کر دیا جائے۔
عذاب کے نزول سے پہلے رسول کی مخاطب قوم پر اتمامِ حجت کر دیا جاتا ہے۔ اتمامِ حجت کا مطلب یہ ہے کہ ان پر حق اس طرح واضح کر دیا جاتا ہے کہ مخاطبین کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اس کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ کرتا ہے کہ یہ کون ہیں جو جان بوجھ کر انکار کر رہے ہیں اور ان پر کب عذاب آنا ہے۔ ماضی میں یہ عذاب کیسے آئے، اس کی بعض تصاویر قرآن مجید نے دکھا دیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔
رسالت مآب سیدنا محمدﷺ اللہ کے نبی تھے اور رسول بھی۔ آپؐ کے مخاطب قوم پر بھی اِسی طرح اتمامِ حجت ہوا۔ ان کو بتا دیا گیا کہ ان کے پاس کتنی مہلت ہے اور کب ان پر عذاب آئے گا۔ قرآن مجید اس قانونِ اتمامِ حجت کی شرح اور تفصیل ہے۔ قرآن مجید اس کے ایک ایک مرحلے کو واضح کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک مرحلے پر، وہ متعین طور پر رسول کے مخالفین کو بتا دیتا ہے کہ اب ان کے پاس صرف چار مہینے باقی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر وہ انکار پر قائم رہے تو پھر رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں ان پر عذاب مسلط کر دیا جائے گا۔
دنیا نے دیکھا کہ چار ماہ کے بعد کیا ہوا۔ رسول کے مخالفین کا یومِ حساب آ گیا اور وہ مٹا دیے گئے۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوا، جس کا اعلان قرآن مجید میں پہلے ہی کر دیا گیا تھا۔ لوگ جوق در جوق دین میں داخل ہوئے۔ اللہ نے ایمان والوں کو اقتدار دیا اور ان کی حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل دیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے مشہود کر دیا کہ وہ کیسے ایک دن پوری انسانیت کے لیے قیامت برپا کرے گا اور انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دے گا۔
خدا کی اجتماعی نافرمانی کی صورت میں آسمان سے عذاب اترنے کا دروازہ ختمِ نبوت کے بعد بند ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عذاب کے لیے اتمامِ حجت ضروری ہے اور اتمامِ حجت کے لیے رسول کا آنا۔ اب رسول تو کیا، کسی نبی نے بھی نہیں آنا، اس لیے آج کوئی یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ انسانوں پر حجت تمام ہوئی اور ان پر عذاب نازل ہو گا؛ تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہات کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ وقتاًفوقتاً انسان کو متنبہ کرتا ہے کہ اس عالم کا ایک خالق ہے جو انسان کا بھی خالق ہے اور آدم کی تمام اولاد کو ایک دن اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ یہ تنبیہہ زلزلے کی صورت میں ہو سکتی ہے اور کورونا کی شکل میں بھی۔
استاذی جاوید احمد غامدی صاحب نے قانونِ اتمامِ حجت کو بہت شرح وبسط کے ساتھ اپنی کتاب ''میزان‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ انہوں نے ''دنیا‘‘ ٹی وی کی ایک گفتگو میں عذاب اور تنبیہہ کا فرق بھی واضح کر دیا ہے۔ اس کی روشنی میں کورونا وائرس کو سمجھا جائے تو یہ ایک تنبیہہ ہے۔ خدا کے حضور پیش ہونے کی یاددہانی۔ اس کو قرآن مجید نے اللہ کے آخری رسولﷺ کی سرگزشتِ انذار کی صورت میں اس طرح بیان کر دیا ہے کہ اس کا انکار اب آسان نہیں رہا۔
یہ ختمِ نبوت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ مکرر عرض ہے کہ پیغمبر کے بغیر اتمامِ حجت ممکن نہیں اور اتمامِ حجت نہ ہو تو عذاب نہیں آ سکتا۔ ختمِ نبوت کو اگر قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اس سے منکرین کو ایذا پہنچانے کا کام لیا جائے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی روشنی میں خدا کے الہام کو سمجھا جائے اور اپنے تصوراتِ علم اور عمل کی اصلاح کی جائے۔