وبا کے موسم میں سب کچھ کس سرعت کے ساتھ بدل جاتا ہے، جان کر حیرت ہوتی ہے۔ انسان جو مسافت صدیوں میں طے کرتا ہے، وبا کے دنوں میں، یہ لمحوں میں سمٹ آتی ہے۔ اہلِ قلم نے اس کی کہانیاں لکھی ہیں۔ جناب آصف فرخی نے ایک عمدہ مضمون میں، اس ادب کا احاطہ کیا ہے جو اردو کی ایک مقبول ویب سائٹ پہ موجود ہے۔
ہم بھی ایک وبا کی گرفت میں ہیں۔ قدرت اس عمل کو ایک مدت بعد دھرا رہی ہے۔ جو ہمارے لیے تاریخ تھی، اب واقعہ ہے۔ یہ کہانی وہ نہیں جو ''ایک دفعہ کا ذکر ہے...‘‘ کے اسلوب میں شروع ہوتی ہے۔ یہ صرف میری ہی نہیں، اس پانچ سالہ بچے کی بھی آپ بیتی ہے جو محسوس کر رہا ہے کہ اس کے گردوپیش میں کوئی انہونی ہو گئی ہے۔ باپ‘ جو کبھی ہفتے میں ایک بار یا کئی دنوں بعد دکھائی دیتا تھا، اب ہر وقت گھر میں رہتا ہے۔ جو چھٹی کے لیے مچلتا تھا، اب بغیر مطالبے کے، چھٹیوں کے مزے لے رہا ہے۔ اس کا ننھا سا ذہن سوچتا تو ہو گا‘ یہ سب کیسے ہو گیا؟
ہم مذہب سے بات شروع کرتے ہیں۔ مذہب انسانی تجربات میں سب سے کم تبدیل ہونے والا عمل ہے۔ ناقدینِ مذہب اسے جمود کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو وجہ یہی ہے کہ مذہب میں قرار ہے۔ مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ آفاقی اخلاقی اقدار کا نقیب ہے جو تبدیل نہیں ہوتے۔ یہی مذہب، لیکن وبا کے دنوں میں اپنی ہیئت بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام کو دیکھیں تو عبادات کی فہرست میں سب سے پہلے نماز ہے۔ یہ کسی فرد کے دعویٰ اسلام کی پہلی عملی تصدیق ہے۔
مسلم معاشرے کو اقامتِ صلوٰۃ کا حکم ہے۔ اس کا ظہور مساجد اور ان میں صف بستہ خواتین و حضرات کی صورت میں ہوتا ہے۔ اذان سے نماز کے لیے اعلانِ عام ہوتا ہے۔ یہ سب مذہب کے شعائر ہیں اور ہر مذہب اپنے شعائر کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ یہ کسی مسلم بستی کا پہلا تعارف ہے۔ آپ اجنبی بھی ہوں تو اذان کی آواز آپ کو یاد دلا دیتی ہے کہ آپ مسلمانوں کے شہر میں ہیں۔ نظامِ صلوٰۃ، لیکن وبا کے دنوں میں اپنی اجتماعی ہیئت بدل رہا ہے۔
مساجد کو تالہ پڑ گیا ہے۔ جمعہ کا اجتماع منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ آن لائن نماز کا اہتمام ہو۔ حسبِ روایت کچھ لوگ مزاحم ہو رہے ہیں اور استہزا کے ساتھ اس تجویز کا جواب دے رہے ہیں۔ فرسودہ ذہن کا یہی المیہ ہے کہ وہ تبدیلی کو قبول کرتا ہے‘ مگر اُس وقت جب تاریخ جبر سے منواتی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہی با جماعت نماز جب لاؤڈ سپیکر کے ساتھ ادا کرنے کی بات ہوئی تو یہ ذہن اس وقت بھی مزاحم ہوا تھا‘ بالآخر اسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ایک صف کی جماعت ہوتی ہے اور امام صاحب پھر بھی لاؤڈ سپیکر کا اہتمام ضروری سمجھتے ہیں۔ وہی لاؤڈ سپیکر جس میں کبھی شیطان بولتا تھا۔ اب تو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس سال شاید حج بھی نہ ہو سکے۔
کچھ دن پہلے تک، کیا کوئی گمان کر سکتا تھا کہ مذہب پر یہ وقت آنے والا ہے کہ بیت اللہ سے لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان تک، مساجد پر تالے پڑ جائیں گے؟ لوگ دورِ جدید کے کسی 'دارالکفر‘ کے بارے میں بھی یہ نہیں سوچ سکتے تھے۔ اہلِ مذہب کو اپنی بقا کے لیے بہت سے باتوں پر مفاہمت کرنا پڑی کہ وبا کے دنوں میں یہی ہوتا ہے۔
صرف مذہب نہیں، دیگر افکار کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دورِ جدید نے جس مذہب کو جنم دیا، وہ لبرل ازم ہے۔ اس کا نقطۂ عروج فرد کی مطلق آزادی ہے۔ یہ ازم مذہب، ریاست، رواج، کسی کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ فرد کی آزادی پر کوئی قدغن لگائے۔ 'بنیادی انسانی حقوق کا دفاع‘ اس کا چارٹر ہے۔ اس میں مذہب کی آزادی شامل ہے اور حرکت کی آزادی بھی۔ آج کا لبرل‘ ریاست کا یہ حق ماننے پر مجبور ہے کہ وہ فرد کی مذہبی آزادی کو سلب کر سکتی ہے اور اس کی حرکت کو بھی روک سکتی ہے۔ اضطرار کا اصول صرف مذہب کے لیے نہیں ہے، لبرل ازم پہ بھی اس کا یکساں اطلاق ہو رہا ہے۔
تہذیبی قدروں کو دیکھیے۔ ہم ملتے ہیں تو ہاتھ ملاتے ہیں۔ اب دور سے کورنش بجا لاتے ہیں۔ قدرے جھک کر سینے پر پاتھ رکھ لیتے ہیں۔ یہ عمران خان صاحب جیسے حکمران ہوں یا طارق جمیل صاحب جیسے شیخ الاسلام، سب اسی طرح مل رہے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسمیں تک بدل گئیں۔ گھر کے تین چار افراد جاتے اور دلہن لے آتے ہیں۔ نہ مہندی کا ہنگامہ نہ ولیمے کا تکلف۔ کوئی مقامی رسم باقی ہے نہ مذہبی۔
یہ صرف ہماری تہذیب کے ساتھ نہیں ہوا، غالب تہذیب بھی مجبور ہے کہ اپنے مظاہر پر مفاہمت اختیار کرے۔ فرانس سے منسوب بوسۂ لب، بوسۂ مرگ میں بدل چکا۔ اب علامتی بوسے (Flying kiss) سے کام چلایا جا رہا ہے۔ مخلوط معاشرت کی دعوے دار تہذیب اب سماجی فاصلے (Social Distancing) کی مدرس ہے۔ اور تو اور محبت کے آداب بدل گئے۔ وہ جو محبوب کے وصل کے لیے بے تاب رہتے تھے، اب قریب آنے سے گریزاں ہیں۔
اس وبا نے عالمی سیاست کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ چین، روس اور ایران کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے جو امریکہ کی دین ہے۔ اقتصاد کے میدان میں لڑی جانے والی جنگ نے ایک نئے محاذ کی طرف رخ کر لیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بین الاقوامی تعلقات کی صورت گری، اب کورونا کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھیے، یہ وائرس انسانوں کو مفاہمت کی طرف لے جاتا ہے یا مخاصمت کی طرف۔
معلوم ہوا کہ یہ بقا کی جبلت ہے جو سب پر غالب ہے۔ اسی کے زیرِ اثر مذہب کی صورت گری ہوتی ہے اور اسی سے افکار جنم لیتے ہیں۔ یہی تہذیب کو جنم دیتی ہے اور اسی سے رسم و رواج وجود میں آتے ہیں۔ جب تک زندگی کو تحفظ حاصل ہو تو مذہب، نظریات، تہذیب اور تمدن ایک فطری انداز میں آگے بڑھتے اور انسانی سماج میں پروان چڑھتے ہیں۔ جب بقا خطرات میں گھر جاتی ہے تو ان سب کو انسان کے اس جبلی تقاضے کے تابع ہو کر اپنا وجود بر قرار رکھنا ہوتا ہے۔ جو انکار کرتا ہے، اس کی اپنی بقا خطرات میں پڑ جاتی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ بقا کی اس جبلت کے زیرِ اثر، کیا انسان ذہنی طور پر موت کو قبول کر سکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل اس تگ و دو میں ہے کہ موت پر قابو پا لے۔ وحی سے ماورا علم کے نتیجے میں، وہ آج تک موت کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتا آیا ہے۔ اس کا خیال یہی ہے کہ موت کا مطلب فنا ہے۔ یوں اس نے مسلسل کوشش کی کہ زندگی کے راز کو پا لے۔ انسان کے مادی وجود میں پوشیدہ مرکزِ حیات کو تلاش کر لے۔
ڈی این اے کی صورت میں اس کا خیال ہے کہ اس نے اس راز کو پا لیا ہے۔ موروثی تعمیر (Genetic Engineering) کے ذریعے، اب وہ آہستہ آہستہ اس راز سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ اگلا مرحلہ مصنوعی ذرائع سے اس ڈی این اے کی تشکیل ہے جس کے بعد زندگی پیدا کرنے کا نظام اس کے ہاتھ آ جائے گا۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، فنا ہی انسان کا مقدر ہے۔
اس کے برخلاف مذہب ابتدا ہی سے موت کا قائل نہیں۔ موت کا لفظ اس کی لغت میں نہیں ہے۔ وہ ایک انسان کو تخلیق کے بعد، مختلف دنیاؤں میں آباد رکھتا ہے۔ عالمِ ارواح سے رحمِ مادر۔ رحمِ مادر سے سطحِ زمین، زمین سے برزخ۔ برزخ سے محشر۔ محشر سے جنت یا دوزخ۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے، جس میں سنگ ہائے میل ہیں اور نقلِ مکانی ہے۔ موت کہیں نہیں۔
کل کا مجھے اندازہ نہیں مگر بقا کی جبلی خواہش کا جواب، آج صرف مذہب کے پاس ہے۔ وبا کے اس موسم میں بھی اگر کوئی فنا کے احساس سے بچا ہوا ہے تو وہ ایک مذہبی آدمی ہو سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کو ابھی ایک مسافت درپیش ہے۔ موت صرف گاڑی کے چلنے کا اعلان ہے، اختتامِ سفر کا نہیں:
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے