ایک نازک مرحلے پر حکومت، علما اور اسلامی نظریاتی کونسل عوام کی راہنمائی کرنے میں ناکام رہے۔ سب کا موقف ابہام کے دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ یہ دھند ایوان ہائے اقتدار سے اٹھی اور پھر اس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں جب یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو حسبِ معمول چاروں طرف سے خطبات جمعہ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں یا اجتماعی دعا کی۔ یہ آوازیں بتا رہی ہے کہ نمازِ جمعہ کے بارے میں کوئی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو سکا۔
ایک سادہ مسئلے کو پیچیدہ اور لا ینحل بنانا کوئی ہم سے سیکھے۔ معاملہ واضح تھا۔ ایک جان لیوا وبا پھوٹ پڑی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ صرف بچنے کی تدبیر کی جا سکتی ہے۔ یہ تدبیر ایک ہی ہے: تنہائی اور اجتماعات سے گریز۔ اب حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے: اجتماعات پر پابندی۔ اجتماعات میں مذہبی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ سادہ حل یہ تھا کہ باقی دنیا کی طرح تمام اجتماعات پر پابندی لگا دی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ یہ سادہ مسئلہ پیچیدہ کیوں بنا؟
یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے۔ یہی ریاست کا مقصدِ وجود ہے۔ جو ریاست اس میں ناکام رہتی ہے، عملاً اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ ریاست اس حوالے سے جو پابندی چاہے عائد کر سکتی ہے۔ اجتماع کی آزادی بنیادی انسانی حق ہے۔ لبرل ازم کی تو بنیاد ہی انسان کی آزادی پر ہے۔ دورِ جدید میں اسلامی ریاست کے جس تصور نے جنم لیا، وہ بھی انسان کے اس حقِ اجتماع کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور قابلِ قبول نہیں۔ دونوں طرح کے نظریات میں جہاں یہ ایجابی اتفاق ہے، وہاں سلبی اتفاق بھی ہے کہ غیر معمولی حالات میں ریاست اس حق کو ختم کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کی علمی روایت میں، اس باب میں کوئی اختلاف نہیں۔
اب جدید ریاست کے حوالے سے دیکھیں یا مسلم روایت کے تناظر میں، ریاست کے پاس ایک سادہ حل موجود تھا کہ وہ ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی لگا دے۔ ساری دنیا نے، مسلم ہو یا غیر مسلم ہو، یہی کیا۔ کہیں مذہبی پیشواؤں سے کسی مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ حکومتوں نے فیصلے کیے اور عقلِ عام کی بنیاد پر کیے۔ ترکی میں فقہ حنفی کا غلبہ ہے۔ وہاں بھی مساجد کو اجتماعات کیلئے بند کر دیا گیا۔ یہاں بھی ریاست حکم دیتی اور اس کے بعد مذہبی طبقات سمیت سب کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پر عمل کریں۔
پاکستان میں یہ سادہ طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ حکومت نے اسے وزارتِ مذہبی امور کے حوالے کر دیا اور یوں اتفاقِ رائے کی تلاش میں اسے الجھا دیا گیا۔ آج کبھی نظریاتی کونسل کی رائے لی جا رہی‘ کبھی علما سے مشاورت ہو رہی ہے‘ کبھی جامعہ الازہر سے فتویٰ لیا جا رہا ہے۔ یہ ساری بے معنی مشق تھی جس کی کوئی شرعی ضرورت تھی نہ عقلی۔
آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ کہیں جمعہ کا اجتماع ہو رہا ہے اور کہیں خاموشی ہے۔ شیعہ اور اہلِ حدیث مساجد بند ہیں اور حکومت کے کہنے پر نہیں۔ اس لیے بند ہیں کہ شیعہ اور اہلِ حدیث علما کا موقف یہی ہے۔ دیگر مسالک کی مساجد کھلی ہیں اور جمعہ کے اجتماعات ہو رہے ہیں۔ ایک طرف فتویٰ دیا جا رہا ہے کہ حکومت کے احکام مانے جائیں اور دوسری طرف کچھ مذہبی رہنما یہ بھی فرما رہے تھے کہ صدر کے ساتھ مشاورت میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوا۔ ایک اور محترم عالمِ دین کا ایک بیان جمعہ کے اخبارات میں چھپا ہے کہ نمازی جائے نماز گھر سے لے کر جائیں اور صاف کپڑے پہن کر مسجد جائیں۔ گویا مسجد جانے سے منع نہیں کیا جا رہا، ترغیب دی جا رہی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا معاملہ یہ رہا کہ وہ اس موقع پر کوئی رائے ہی مرتب نہیں کر سکی۔ حکومت نے کہا تو عجلت میں شعبہ تحقیق نے ایک رائے دے دی جس میں کوئی دوٹوک بات نہیں کی گئی۔ کونسل کے ارکان کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے۔ اس کے لیے اس قلیل وقت میں جمع ہونا اور کسی متفقہ رائے تک پہنچنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس طرح حکومت، علما اور کونسل قوم کو مطلوبہ راہنمائی نہ دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ سادہ مسائل، ہمارے ہاں پیچیدہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایک حکومت جو اہم ترین قومی مسائل پر بھی سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی قائل نہیں، وہ مذہبی اتفاق رائے کے لیے اتنی تگ و دو کیوں کر رہی ہے؟ ایک طرف اپوزیشن کاسہ تعاون ہاتھ میں لیے پھرتی ہے‘ اور اسے حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف حکومت علما میں اتفاق پیدا کرنے کے لیے سرگرداں ہے جو ایک ناقابلِ حصول ہدف ہے۔ کیوں؟
پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور گروہوں کی حیثیت 'مفاداتی گروہ‘ (Interst Group) کی ہے۔ وہ سماج کے ساتھ، ریاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ حیثیت خود ریاست نے ان گروہوں کو دی ہے۔ مذہبی جماعتیں اگرچہ ابتدا ہی سے سیاست میں سرگرم تھیں لیکن ان کی سیاست پاکستان کے آئین کے تابع تھی۔ یوں عمومی رویے میں وہ دیگر سیاسی جماعتوں جیسی تھیں۔ جیسے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام یا جمعیت علمائے پاکستان۔
ان جماعتوں نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا۔ جنرل ضیاالحق نے ان کے رویے کو تبدیل کیا۔ انہوں نے جب مذہب کو اقتدارکے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو علما کے طبقے کو متبادل سیاسی قوت کے طور پر ابھارا۔ افغانستان کے بحران کی وجہ سے وہ جماعت اسلامی کو استعمال کرنے میں کامیاب رہے لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ جماعت اسلامی کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ تادیر ایک آمر کا ساتھ دے۔ یوں انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کیا۔
متبادل کے طور پر لسانی اور علاقائی قوتوں کے ساتھ، وہ ان علما کو سامنے لائے جو اصلاً درس و تدریس سے متعلق تھے۔ ضیاالحق صاحب نے ایک طرف انہیں مجلس شوریٰ میں لا بٹھایا اور دوسری طرف ریاست کی اسلامائزیشن کا ایک عمل شروع کیا‘ جس سے علما اور نظام کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بینچ بنا تو علما کیلئے جج بننے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ الازہری اسی کے نتیجے میں جج بنے۔ اس کے ساتھ انہوں نے مدارس کی اسناد کو عمومی تعلیمی اسناد کے مساوی قرار دے کر مدارس کے فضلا کیلئے حکومتی اداروں تک رسائی کے دروازے کھول دیے۔
ضیاالحق صاحب نے اس سے دو بڑے فوائد حاصل کیے۔ ایک طرف عوام میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اپنے لیے ایک عصبیت پیدا کی۔ دوسری طرف اپنے سیاسی عزائم کے لیے یہ چاہا کہ علما سے فتوے لیے جائیں۔ جیسے اسلام میں سیاسی جماعتیں حرام ہیں۔ ہمارے مذہبی طبقات نے اس صورت حال کا پورا فائدہ اٹھایا اور نظام پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت میں، کئی گنا اضافہ کر لیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکمران آمر ہو یا جمہوری، اسے سیاسی جماعتوں کا خوف نہیں، ان مذہبی طبقات کا خوف ہے کہ اگر یہ مخالف ہو گئے تو اس کا اقتدار باقی نہیں رہے گا۔ مذہبی طبقات اس خوف سے حظ اٹھاتے ہیں اور مفاد بھی۔
ریاستِ پوشیدہ (deep state) بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس خوف کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اسے بھی سیاسی جماعتوں کو وقتاً فوقتاً اپنی اوقات میں رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال فیض آباد کا دھرنا ہے۔ اس طرح ضیاالحق صاحب کا ڈاکٹرائن اپنی جگہ قائم ہے۔ جمہوری حکومتیں چاہیں تو اس خوف سے نکل سکتی ہیں مگر وہ جمہوری ہوں تو نا! جب خود ان کا اپنا وجود کسی کے رحم و کرم پر ہو تو وہ کیسے آزاد فیصلے کر سکتی ہیں؟
اب آپ جان گئے ہوں گے کہ ہمارے ہاں سادہ مسائل پیچیدہ کیوں بنتے ہیں۔ ساری دنیا میں حکومتیں فیصلے کر رہی ہیں اور ہمارے ہاں علما میں اتفاقِ رائے کی تلاش جاری ہے۔ آج ہی وزیر مذہبی امور نے بتایا ہے کہ اس سال حج ہو گا یا نہیں، اس کا فیصلہ بادشاہ سلامت کریں گے۔ اگر یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہوتا تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیا امتِ مسلمہ کو ایک حج پر جمع کیا جا سکتا؟