عمران خان صاحب کو قدرت نے ایک موقع اوردیا کہ وہ وزیراعظم سے لیڈربن جائیں۔محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے بھی گنوادیا۔ بڑا آدمی وہی ہے جو اپنی ذات سے بلندہو جائے۔ خودپسند اپنے آپ کو اس تمام خیر سے محروم کرلیتا ہے جو اس کے گردوپیش میں پھیلادیا گیاہے۔ وہ خیال کرتا ہے‘ کائنات اس کی ذات سے شروع ہوتی اور اسی پرتمام ہو جاتی ہے۔ جملہ عقلی و نقلی علوم کے دھارے اسکے وجود سے پھوٹتے اور اسکی ذات میں آ کر فنا ہو جا تے ہیں۔ تعریف کاایک جملہ یا تنقیدکے چند لفظ اس کے فکری توازن کو برباد کر دیتے ہیں۔وہ ایک لمحے میں نمائشی لباس کو چاک کرکے اپنی فطری شخصیت کے ساتھ سامنے آکھڑاہوتا ہے۔ نرگسیت کو اسی لیے نفسیات کے ماہرین عارضہ قرار دیتے ہیں۔
ایسے مریض گنوار معاشروں میں زیادہ پائے جاتے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی خود پسند طبیعتوں کو افزائش کیلئے ساز گار ماحول یہیں مل سکتا ہے۔ انہیں تحسین کرنے والے ‘کم یا زیادہ‘ یہیں ملتے ہیں جو عزتِ نفس ہی سے نہیں‘علم و عقل سے بھی محروم ہوتے ہیں۔سطحی باتوں پر داد دیتے ہیں اورخود پسند اس زعم میں مبتلا ہو جا تا ہے کہ افلاطون وارسطو اس کے سامنے کیا بیچتے ہیں۔کچھ چالاک لوگ ایسے خود پسند کے شر سے بچنے کیلئے جھوٹی موٹی تعریف کر دیتے ہیں یا جوابا ً داد کے طالب ہوتے ہیں۔پھر یہ خود پسند ان کے قصیدے کہتا ا ور یوں دونوں مل کر اخلاقی ماحول کوزہر آلود کر دیتے ہیں۔
ایک ایسے معاشرے ہی میں عقیدت کے پہاڑ تراشے جا تے ہیں۔مرید خود ختم ہوجا تا ہے مگر عقیدت تمام نہیں ہوتی۔مریدایسے ایسے القاب دیتے ہیں کہ خود ممدوح کے وہم و گمان میں نہیں ہوتے۔ایک دن آتا ہے کہ خود پسند اسے سچ سمجھنے لگتاہے۔جو زیادہ کم ظرف ہوتا ہے‘بعید نہیں کہ نبوت کا اعلان کر دے۔کیا ہماری تاریخ میں ایسے لوگ نہیں گزرے جو قرآن مجید کے واضح اعلان کے باوصف نبوت کا دعویٰ کرتے پائے گئے؟ تیس سال پہلے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تو انہوں نے نصیحت کی کہ ایک مسلمان کی عقیدت کا مرکز ایک ہی ذات ہے:اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ۔میرا تمہارا تعلق استاد اور شاگرد کا ہے۔وہی جسے مسلم تہذیب نے ایک اعلیٰ انسانی رشتے کی صورت میں مجسم کر دیا۔
تیس عشروں سے اسی نصیحت کو پلے باندھ رکھا ہے۔استادجوتے اتارے تو دل چاہتا ہے آگے بڑھ کراٹھالوں لیکن دوستوں کی مجلس میں استاد کا دینی مؤقف زیر بحث آتا ہے تواسے ایسے ہی دیکھا جا تا ہے جیسے دیگر اساتذہ کی آرا کو دیکھا جاتا ہے۔وہ اساتذہ بھی جن سے بالواسطہ سیکھا‘ جیسے شاہ ولی اللہؒ‘جیسے امام ابن تیمیہؒ۔میں ان بزرگوں یا امام ابو حنیفہؒ کے عہد میں ہوتا تو دوڑ کر ان کے جوتے اٹھا لیتا۔عقیدت کا حقیقی محورلیکن ایک ہی ذات ہے‘وہی جو سراجِ منیر ہے‘وہی جس کی بعثت مجھ پر اللہ کا احسان ِعظیم ہے‘وہی جس کا اسوہ‘اسوہ ٔحسنہ ہے:صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
خود پسند جہاں خود کو بہت سے خیر سے محروم کر لیتا ہے وہاں سماج میں ایک ایسا حلقہ پیدا کر دیتا ہے جواسے حق و باطل کا پیمانہ سمجھتا ہے۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر پسماندہ رہ جاتے ہیں یامفاد کے بندے ہوتے ہیں۔وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی عقل سے نہیں سوچتے۔ یہ مذہبی پیری مریدی میں ہوتا اور سیاست میں بھی۔آدمی تو اسی دن مر جا تا ہے جس روز وہ اپنا ذہن کسی کے پاس گروی رکھ دے۔یہ عمل جب آگے بڑھتا ہے تو معاشرے کو تقسیم کر دیتا ہے۔اسی سے مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت پیداہو تی ہے۔ہم اسی جانب سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور کہیں رک نہیں رہے۔
عمران خان صاحب کو کئی باریہ موقع ملا کہ وہ اس تقسیم کو بڑھنے سے روک دیتے‘مگروہی افتادِ طبع۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ آج بھی اپنی ذات کی قید سے نہیں نکل سکے جب قوم کو ایک لیڈر کی ضرورت تھی۔وہ ایک جست میں وزیراعظم سے لیڈر بن سکتے تھے۔اس جست کے لیے مگر جو اخلاقی قوت چاہیے‘نرگسیت اسے چھین لیتی ہے۔خود پسندی آد می کو محدود کر دیتی ہے۔
خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل بناتے۔اس کا پہلا نکتہ یہ ہوتا کہ کیسے پوری قوم کو اس وبا کے خلاف یکسو کر نا ہے۔دوسرا نکتہ حکمتِ عملی کی تشکیل ہوتا۔تیسرا اس کا نفاذ۔پہلے نکتے کے لیے وہ تمام سیاسی قیادت کو مدعو کرتے اور انہیں وحدتِ فکرو عمل کی دعوت دیتے۔یہ اس لیے ضروری تھا کہ خان صاحب پوری قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔قوم کی اکثریت نون لیگ‘پیپلزپارٹی‘جمعیت علمائے اسلام‘جماعت اسلامی‘ اے این پی اور دوسری جماعتوں سے وابستہ ہے۔وہ پہل کرتے تو یہ لوگ ساتھ دیتے‘ جیسے وہ سپیکر کے بلانے پر پہنچ گئے تھے۔قیادت خان صاحب ہی کے پاس ہوتی۔ پھر میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو بلاتے اور ان سے کہتے کہ اس وقت پوری قوم کی نمائندہ قیادت نے اس حکمتِ عملی پر اتفاق کیا ہے ا ور آپ اس کو عوامی شعور کا حصہ بنانے کے لیے سرگرم ہو جائیں۔ساتھ ہی وہ علما کو مدعو کرتے اور ان سے درخواست کرتے کہ محراب و منبر کو سماجی شعور کی بیداری کے لیے وقف کیا جائے۔آج ہر مسلک کی مسجد سے ایک ہی آواز آنی چاہیے کہ ہم نے مل کراس وبا کے خلاف لڑناہے اور اس وقت اسلام کا پیغام یہی ہے۔اسی کے لیے تدبیر کرنی ہے اور اسی کے لیے دعا۔
خان صاحب تاجروں اور مخیر حضرات کو بلاتے کہ وہ مریضوں کے علاج اور دیہاڑی داروں کو وسائل کی فراہمی کے لیے حکومت کے دست و بازو بنیں۔ساتھ الخدمت اور ایدھی جیسی سماجی تنظیموں کو بھی شامل کرتے اوران کی صلاحیتوں اور جذبوں کو سراہتے۔یوں تھوڑی سی مشقت سے وہ پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیتے۔خان صاحب چنددن میں وزیراعظم سے لیڈر بن جا تے۔
افسوس کہ وہ اس نازک مرحلے پر بھی اپنی ذات کی قید سے نہیں نکل سکے۔مرض کی شدت کا یہ عالم ہے کہ دوسروں کی بات سننا بھی گوارا نہیں کیا۔وہ کرکٹ کے ورلڈ کپ کی طرح‘کسی کو اپنے کریڈٹ میں شریک کرنے پر تیار نہیں۔تشکر کا ایک جملہ ان کی زبان سے نہیں نکل سکا۔کاش وزیر مذہبی امور یا برادرم علی محمدانہیں اللہ کے آخری رسول ﷺ کا یہ پیغام سنا سکتے کہ: جو بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا‘وہ اللہ کا شکر گزار بھی نہیں ہو تا۔
آج اللہ کا شکر ہے کہ قوم بیدار ہے۔لوگ انسانوں کی فلاح کے لیے میدان میں ہیں لیکن یہ کوششیں منتشر ہیں۔فوج مصروف ہے۔جماعت اسلامی کے فلاحی تنظیم الخدمت ہمیشہ کی طرح متحرک ہے۔نون لیگ نے ایک مہم کا آغاز کر دیا ہے۔صوبائی حکومتیں بھی کام کر رہی ہیںاور دیگررضا کاربھی بروئے کار ہیں۔یہ کوششیں انشاء اللہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔تاریخ لیکن جہاں قوم کی اس اخلاقی قوت کا ذکرکرے گی‘وہاں یہ بھی لکھے گی کہ یہ کام کسی لیڈر کے بغیر ہوا۔جب پاکستانی قوم پر یہ سخت وقت آیا تو اس کے پاس کوئی لیڈر نہیں تھا۔
ہمارے پاس اس وقت وہی راستہ ہے جو اختیار کیا جا چکا۔لوگوں کو اپنے طور پر بروئے کار آنا چاہیے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے پورا تعاون کرنا چاہیے۔ کسی مناظرے یا بحث سے بچنے کی پوری کوشش کر نی چاہیے۔اس کے ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ وبائیں صرف بیکٹیریا یا وائرس کی صورت میں نہیں ہوتیں‘کچھ وبائیں نفسیاتی اور اخلاقی بھی ہوتی ہیں۔انہی میں سے ایک خود پسندی ہے۔یہ رائے سازوں میں پھیل جائے تو توازن ِفکر جاتا رہتا ہے۔سیاست دانوں میں پھیل جائے تو قوم لیڈروں سے محروم ہوجاتی ہے۔