عالم کا فتویٰ ہے کہ وبا کے دنوں میں رسمِ عبادت بدل جاتی ہے۔ اب عبادت آن لائن بھی ہو سکتی ہے۔
عبادت کی ایک اساس محبت ہے۔ ایک محبوب ہستی اور منعمِ حقیقی کے لطف و عنایت سے جنم لینے والا احساسِ تشکر، جو اظہار چاہتا ہے۔ یہی احساس مجسم ہوتا ہے تو مناسکِ عبادت میں ڈھل جاتا ہے۔ روحِ عبادت انسانی وجود کے داخل میں جنم لیتی ہے اور رسومِ عبادت اعضا و جوارح کی حرکات میں ظہور کرتی ہیں۔ کبھی وہ دو ان سلے کپڑوں میں دیوانہ وار طواف کرتا ہے اور کبھی اسی دیوانگی میں اپنی جبین کو زمین پر رکھ دیتا ہے۔ عبادت کی اساس اگر محبت ہے توکیا وبا کے دنوں میں محبت کی ساری رسمیں بھی بدل جاتی ہیں؟
یہ سوال خود تفصیل طلب ہے۔ محبت سے ہماری مراد کیا ہے؟ محبت کی منزل کیا ہے؟ محبت کی رسمیں مقصد کے تابع ہیں یا تہذیب کے؟ مقصد تبدیل نہیں ہوتا کہ اس کا احساس انسان کی فطرت میں ہے۔ اگر فطرت بھی تبدیل ہوتی ہے، جیسے ہمارے لبرل دوست کہتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ محبت کا مقصد بھی ایک سا نہیں رہتا۔ اگر مقصد خارج سے طے ہوتا ہے تو پانچ ہزار سال پہلے ممکن ہے کچھ اور ہو۔ آج امکان ہے کہ بدل جائے۔ دوسری طرف ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انسان کا لفظ ہی اُنس سے پھوٹا ہے۔ محبت اور انسانیت ایک ہی اصل کی فروعات ہیں۔ تو پھر وجودِ انسانی میں محبت کا ماخذ کہاں ہے؟ کیا یہ جبلت ہے؟
یہاں رک کر میں اپنے پڑھنے والوں سے معافی کا طلبگار ہوں۔ یقین جانیے، جب میں نے کالم کا آغاز کیا تو یہ سوالات میرے ذہن میں موجود نہیں تھے۔ سوچا یہی تھا کہ آج کالم کو فلسفیانہ اور ثقیل مباحث سے آلودہ نہیں ہونے دوں گا۔ ایک سادہ تحریر لکھوں گا جو محبت کے لطیف احساس کے گرد گھومے گی اور پڑھنے والے کوکسی دماغی مشقت میں مبتلا نہیں کرے گی۔ چند سطریں لکھیں تو لگا قلم میرے نہیں، موضوع کی گرفت میں ہے۔ وہ مجھے ایک اور وادی میں لے گیا۔ یہ سوالات اس وادی میں قدم رکھنے کے بعد ہی پیدا ہوئے۔ پیدا تو خیر بہت پہلے ہو چکے۔ یوں کہنا چاہیے کہ میرے ذہن پہ ابھی اترے ہیں۔ اب آپ مجھے معذورِ محض سمجھیے۔ آپ کو بھی اسی وادی میں رہنا ہو گا جب تک قلم چاہے گا۔
محبت کو اہلِ تصوف دو دائروں میں متحرک دیکھتے ہیں: مجازی اور حقیقی۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اہلِ علم کے ہاں، تصوف انسان کو درپیش نظری مسائل کی ایک فلسفیانہ تعبیر کا عنوان ہے۔ عوامی تعبیر اس وقت میرے پیشِ نظر نہیں۔ انسان جب کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اہلِ تصوف کے خیال میں یہ مجازی محبت ہے۔ ارتقاکے پہلو سے یہ محبت کا پہلا درجہ ہے۔ اس محبت کے دوران میں، کسی لمحے، محب پر اس محبت کی اصلیت واضح ہوجاتی ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ وہ محبت کی ایک غیرحقیقی شکل کا اسیر تھا۔ اصل محبت تواس سے اگلا درجہ ہے۔
یہ اللہ سے محبت ہے جو حقیقی ہے۔ اس محبت کا مطالبہ ہے کہ انسان کا دل غیر اللہ کی محبت سے خالی ہو جائے۔ ایک دل میں دومحبتیں نہیں رہ سکتیں۔ دنیا کی محبت تو اس کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اس کا کوئی روپ اس کی محبت کے سامنے قابلِ قبول نہیں۔ ایسا محبِ صادق اگر کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اس لیے کہ اس میں محبوبِ حقیقی کا جلوہ دیکھتا ہے۔ ورنہ اسے کسی قالب سے کوئی مطلب نہیں۔ اس ارتقا کی آخری منزل یہ ہے کہ انسان کا دل دوسرے کی آرزو سے بھی خالی ہو جائے۔ دیکھیے خواجہ عزیزالحسن مجذوب نے اس مضمون کو کس لطافت سے باندھا ہے:
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی
محبت، مجازی ہو یا حقیقی‘ اس کی منزل ایک ہی ہے: وصال۔ محبوب کا ملن۔ تصوف یہاں سے پھوٹا ہے کہ انسان کا خدا سے تعلق وہی ہے جو قطرے کا سمندر سے ہے۔ اس کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ اسی سمندر سے الگ ہوا ہے۔ اس کے اضطراب کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ یہ قطرہ ایک بارپھر سمندر میں جا ملے۔ کائنات کے مظاہر، اس کے سواکچھ نہیں کہ وجودِ حقیقی کی جلوہ آرائی ہے۔ وہ اگر اس کے کسی جلوے کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے، چاہے وہ کسی انسان کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو، تودراصل یہ چاہتا ہے کہ اپنے اصل سے جاملے۔
اس مرحلے پر اگر کوئی مرشد اس کا ہاتھ تھام لے تو اسے مجاز سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ اس کی تربیت کرتا، اس کے دل کو غیراللہ کی محبت سے پاک کرتا اوراس قابل بنا دیتا ہے کہ اس میں خداکی محبت کے سوا کچھ نہ ہو۔ ایسا آدمی زندگی میں یہ مقام حاصل کرلیتا ہے کہ خدا اس کے ہاتھ پہ اپنی قدرت کا ظہور کرتا ہے۔ گویا اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے۔ اس کی موت اپنے اصل کے ساتھ اس کاوصال ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کے یومِ وفات کو یومِ وصال کہا جاتاہے۔ اس دن کو بطور عرس منایا جاتا ہے۔ عرس کا مطلب ہے: شادی،ملن۔
اس راہ کا مسافر جب مجازی محبت کے مرحلے میں ہوتاہے تواس کیلئے محبوب کی جنس بھی اہم نہیں ہوتی۔ وہ کوئی عورت ہو سکتی ہے اور کوئی مرد بھی۔ شمس تبریز اور مولانا روم یا مادھو اور شاہ حسین کے قصوں میں دیکھ لیجیے۔ اس میں محبوب اور محب دونوں مرد ہیں۔ یہاں جنس کی اہمیت اس لیے نہیں کہ جو سامنے ہے وہ غیر حقیقی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ مرد ہے یا عورت۔
انسانی تجربہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ مجازی محبت سے اٹھ سکتے ہیں۔ وہ اس پیکرِ محسوس کے ملن ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہیں جس کووہ چھو سکیں‘ جس کے لمس کو محسوس کرسکیں‘ جس کو بچشمِ سر دیکھ سکیں‘ جس کی آوازاپنے کانوں سے سن سکیں‘ جو ان کے حواسِ خمسہ کی گرفت میں آسکے۔ پھراس محبت میں، بالعموم جنس کی قید بھی ہے۔ مردعورت اور عورت مرد کی طرف لپکتی ہے۔ اس محبت میں وصال کا ایک مفہوم ہے جس کی اساس انسان کے جبلی تقاضوں میں ہے۔ منٹو نے اسے اپنے بے باکانہ انداز میں بیان کیا جب یہ کہاگیا کہ منٹوکے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے؟ اب کوئی گائے بھینس بکری تو سوار ہونے سے رہی۔
سوال یہ ہے کہ وبا کے دنوں میں اس محبت کا کیا بنے گا؟چھ فٹ کے فاصلے سے پیکرِ محسوس کے خوگرکو چین کیسے پڑے؟ اگر کوئی حواسِ خمسہ کی گرفت میں نہ آئے تومحبوب کوتسلی کیسے ملے؟ ہاتھ اگر اس کے لمس سے محروم رہیں۔ اور اس کے ہونٹوں کی گرمی محض ایک تصور بن جائے تو پھر ایسی محبت کا مستقبل کیا ہے؟ حقیقی محبت میں تو موت ملن کا پیغام ہے مگر مجازی محبت کے لیے تو موت صرف موت ہے۔ جو بچ گیا اس کے پاس رونے کے سوا کوئی علاج نہیں۔ کہتے ہیں عقدِثانی بھی ہجرکا مداوا نہیں کر سکتاکہ مجازمیں جسم اہم ضرور ہے، سب کچھ نہیں۔
تو پھر وبا کے دنوں میں مجازی محبت کا مستقبل کیا ہے؟ اس محبت کے مطالبات تو اعضا و جوارح میں پھیلے ہیں۔ محب کی بیقراری کا پھرکیا علاج ہے؟ حقیقی محبت والوں کے پاس موت کا راستہ کھلا ہے کہ وہ اس طرح اپنے محبوب کو پالیں گے۔ عقلی محبت والوں نے بھی آن لائن عبادت کا راستہ تلاش کرلیا۔ اب مجازی محبت والاکیا کرے؟ آن لائن محبت؟ سوال یہ ہے کہ اس سے چھ فٹ کا فاصلہ کیسے سمٹے؟
آپ کو اگر اس سوال کاجواب مل جائے تو مجھے ضرورآگاہ کیجیے۔ میں تو ابھی اسی وادی میں ہوں جہاں میرا قلم مجھے لے آیا تھا۔ انہی سوالات نے مجھے ابھی تک گھیررکھاہے؟ محبت کیا ہوتی ہے؟ محبت کی منزل کیا ہے؟ محبت کا مطالبہ فطرت میں ہے یا کہیں اور؟ کیا اس کی بنیادحیوانی جبلت میں ہے؟ کیا؟