جہانگیر ترین عمران خان صاحب کے اتنے قریب کیسے اور کیوں آئے؟
اس سوال کا ایک لفظی جواب ہے: پیسہ۔ پیسہ سیاست کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا نخلِ حیات کے لیے پانی۔ یہ معاملہ صرف سیاست کے ساتھ خاص نہیں۔ دنیا کی کوئی تحریک، چاہے وہ دعوتِ دین ہی کے لیے کیوں نہ برپا کی گئی ہو، وسائل کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مذہبی یا رفاہی جماعتوں کو یہ آسانی ہوتی ہے کہ انسان فطرتاً مذہبی اور فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کے لیے آمادہ رہتا ہے۔ سیاست کو یہ سہولت میسر نہیں۔
مذہب میں بھی یہ آسانی صرف روایتی مذہب کے علم برداروں کو حاصل ہے۔ اگر کوئی پہلے سے موجود کسی مذہبی عصبیت کی بنیاد پر آواز لگائے تو اوسط درجے کی صلاحیت کے ساتھ بھی، اپنی ایک دنیا آباد کر لیتا ہے۔ مذہبی جذبات کے استحصال کی صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی، گھن اتنا زیادہ برسے گا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے لوگوں نے عالمی سطح پر نیٹ ورک بنا لیے اور وسائل کی کمی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ مذہب میں وسائل ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو روایتی مذہبیت میں اصلاح کی آواز بلند کرتے ہیں۔ وسائل تو دور کی بات، ان کے لیے تو بسا اوقات جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ بچ جائیں تو ہجرت مقدر ٹھہرتی ہے۔
سب سے پہلے تو روایتی مذہب اُن پر حملہ آور ہوتا ہے۔ پھر دوسری طاقتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کرے اور وہ بچ نکلے تو پھر اسے چند اعوان و انصار میسر آ جاتے ہیں۔ آسودگی بھی کبھی کبھی اس طرف کا رخ کرتی ہے لیکن اُس وقت جب ملک الموت دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریک کا آغاز کیا تو وسائل نہیں تھے، پٹھان کوٹ میں ایسا وقت بھی آیا کہ فاقہ کرنا پڑا۔ برسوں محنت کی۔ محنت بھی ایسی کہ کم لوگ کر سکیں۔
مدتِ دراز یہ معمول رہا کہ عشا کی نماز کے بعد لکھنے پڑھنے کے لیے بیٹھتے اور پھر فجر کی نماز کے ساتھ اٹھتے۔ مسلسل میز پر رکھنے سے، کہنیاں مستقل زخمی رہتیں۔ جوڑوں کے دور اور گردوں کے امراض نے گھیراؤ کر لیا۔ ان کو پذیرائی ملی۔ وسائل نے رخ کیا۔ منصورہ جیسے مرکز کی بنیاد رکھی مگر ساتھ ہی اجل کا پیغام آ گیا۔ بہت سے ایسے بھی تھے جن کی زندگی میں یہ مرحلہ بھی نہ آ سکا۔ جیسے مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی۔ روایات پر معرکہ آرا کام کیا مگر ڈھنگ سے کوئی ایک کتاب شائع نہ ہو سکی۔
فلاحی کام کا معاملہ بھی یہی ہے کہ فطرت مسخ نہ ہو گئی ہوتو لوگ اس کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ جو کمانے میں حلال حرام کی تمیز کے قائل نہیں، وہ بھی یتیم خانوں کو باقاعدگی سے چندہ دیتے ہیں۔ مزارات، خانقاہوں، مدارس اور مساجد کا سارا نظام تاجروں اور صاحبانِ وسائل کی نصرت سے قائم ہے۔ لوگ ان پر یہ جان کر خرچ کرتے ہیں کہ وہ فی سبیل اللہ انفاق کر رہے ہیں۔
سیاست کا معاملہ مگر یہ نہیں۔ یہاں کوئی آخرت کے لیے یا اللہ کی راہ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ جس پر کرتا ہے، اس کے بارے میں بھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقتدار ہی کے طلب میں ہلکان ہے۔ یہاں نقد سودا ہوتا ہے۔ اقتدار اور سیاست کا کھیل اسی طرح چلتا ہے۔ بادشاہت اور طاقت کے ساتھ حکمرانی کو انسان مسترد کر چکا۔ اس کا تہذیبی ارتقا یہی کہتا ہے کہ جمہوریت ہی سیاسی نظم کے قیام کا سب سے بہتر حل ہے۔ عصری جمہوریت کو مگر کچھ عوارض درپیش ہیں۔
یہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی عطا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت، سیکولرازم اور لبرل ڈیموکریسی... یہ ایک پیکیج ہے۔ نیشن سٹیٹ کے ساتھ یہ پیکیج آیا اور اس میں انسانوں کے لیے انتخاب کا حق نہیں تھا۔ جس کو لینا ہے، اسے پیکیج ڈیل ہی کرنا پڑتی تھی۔ سرمایہ داری کے مقابلے میں اشتراکیت اور اسلام ازم، متبادل نظریات (Ideologies) کے طور پر سامنے آئے۔ دونوں نے جمہوریت کو قبول کیا مگر اپنے اپنے نظامِ فکر میں رہتے ہوئے اس کی تشکیلِ نو کی۔ اشتراکیوں نے 'سوشل ڈیموکریسی‘ کا تصور دیا اور اسلام پسندوں (Islamists) نے تھیوڈیموکریسی (Theo Democracy) کا۔
یہ دونوں تصورات چل نہیں سکے۔ سوشل ڈیموکریسی بدترین ریاستی جبر میں ڈھل گئی۔ تھیوڈیموکریسی کو جہاں موقع ملا، وہاں، وہ پاپائیت میں بدل گئی۔ اشتراکت کا دیا ہوا معاشی ماڈل کہیں کامیاب ہو سکا اور نہ اسلام پسندوں کا۔ اسلام پسند تو سرے سے کوئی ماڈل پیش ہی نہ کرسکے۔ جو لکھا کتابوں میں رہ گیا۔ نتیجتاً لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ تھا: لبرل ڈیموکریسی۔
سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں اصل اہمیت سرمائے کو حاصل ہے۔ یہی قاضی الحاجات اور یہی ستارالعیوب ہے(نعوذباللہ)۔ یہی کسی فرد کے سماجی مرتبے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس نظام کی پہلی ترجیح سرمایے کی حفاظت اور اس کے نشوونما کیلئے ایک سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس لیے لازماً اس کی باگ ڈور سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ریاست کا جو نظام بنے، وہ سرمایے کے تحفظ کی ضمانت دے۔
سرمایہ دار نے اس کو یقینی بنانے کیلئے دو کام کیے۔ ایک یہ کہ سیاسی جماعتوں پر سرمایہ کاری کی۔ یہ اس لیے کہ جس سیاسی جماعت کی بھی حکومت بنے، وہ سرمایہ دار کے مفادات کا تحفظ کرے۔ امریکہ اور جاپان وغیرہ میں یہی ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر سرمایہ دار نے یہ سوچا کہ سماجی جماعتوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے کیوں نہ خود سیاست کی جائے اور اقتدار پر بالواسطہ اثر قائم رکھنے کے بجائے، براہ راست اس کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لی جائے۔
پاکستان میں یہی ہوا۔ شریف خاندان اسی طرح سیاست میں آیا۔ بھٹو نے ان کے کارخانے سرکاری تحویل میں لے لیے اور ان کے سرمایہ کا قلعہ زمین بوس ہوگیا۔ ضیاالحق صاحب نے موقع دیا تو تلافی کیلئے یہ خود اقتدار میں آگئے۔ جب حکومت سرمایہ دار کے اپنے ہاتھ میں ہوگی تو ان کے سرمایے کو کوئی خوف نہیں ہوگا۔ یہی کام دوسرے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے کیا۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی ساری سیاست یہی ہے۔
عمران خان صاحب کو یہ بات2011ء میں سمجھ میں آئی۔ اب انہیں کسی سرمایہ دار، کسی جہانگیر ترین کی ضرورت تھی۔ پاکستانی جمہوریت کو کچھ دیگر مسائل بھی درپیش ہیں جو سرمایے سے سوا ہیں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے جو اقتدار پر حق رکھتا ہے۔ عمران خان صاحب نے دونوں سے معاملہ کیا اور یوں اقتدار تک پہنچ گئے۔
تعمیر میں خرابی مضمر ہونے کے باوجود، مغرب میں جمہوریت کیوں نتیجہ خیز رہی؟ اس کے چند اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں سرمایہ دارانہ نظام کو اشتراکیت کا زبردست چیلنج درپیش ہوا۔ اس سے بچنے کے لیے سرمایہ داری کو فلاحی ریاست کا تصور دینا پڑا۔ یوں سرمایہ دارایک درجے میں عام آدمی کو اپنے منافع میں شریک کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دوسرا سبب تعلیم اورشعور میں اضافہ‘ جس نے عوام کو بہتر محتسب بنادیا۔ تیسرا، سرمایہ دار کو اندازہ ہوگیا کہ سرمایہ کی نشوونما کے لیے امن ضروری ہے اور امن کے لیے عوام کااطمینان لازم ہے۔ چوتھا یہ کہ اقتدار کے کھیل میں ہمارے یہاں کی طرح کوئی اور شریک نہیں۔
خان صاحب سے جن لوگوں کا رومان وابستہ ہے، وہ ابھی تک یہ نہیں جان پائے کہ 2011ء کے بعد، وہ ایک نیا جنم لے چکے۔ 2014ء اس تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ تھا۔ یہ لوگ ابھی تک خیال کرتے ہیں کہ سیاستدان عمران خان اور شوکت خانم کا معمار دونوں ایک ہیں۔ جس دن انہوں نے جان لیا کہ اب عمران خان بھی اقتدار کے ایک روایتی کھلاڑی ہیں، ان کا اضطراب کم ہو جائے گا۔ یہ جاننے کے بعدبھی وہ انہیں دوسرے سیاست دانوں پر ترجیح دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کا نقطہ نظر زیادہ حقیقت پسندانہ اور سیاسی فہم زیادہ بہتر ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو بھی بہترطورپر سمجھ سکیں گے۔ جمہوریت کو سرمایے کے اثرات سے نکالانہیں جا سکتا لیکن اس کے مضراثرات سے بچایا ضرور جا سکتاہے۔ یہ کیسے ممکن ہے، میں اس ضمن میں چند تجاویز رکھتا ہے، جن پر انشااللہ لکھوں گا۔ عمران خان بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے مگرانہیں اقتدار کی حریفانہ کشمکش سے باہر آنا ہوگا۔