ہماری جمہوریت کو دو عوارض لاحق ہیں: سرمایہ اور غیر سیاسی مداخلت۔
سرمایہ ضرورت ہے لیکن بالآخر یہ مرض بن جاتا ہے۔ کوئی سیاسی عمل سرمایے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مثال کے طور پر ایک سیاسی جماعت کو کسی شہر میں جلسہ کرنا ہے۔ اس کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے۔ دورِ جدید نے تو اس کے لوازمات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب سادہ لائوڈ سپیکر سے بات نہیں بنتی۔ ڈی جے ناگزیر ہو گیاہے۔
یہ روپے کہاں سے آئیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں کوئی 'جہانگیر ترین‘ سیاست کی ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے۔ (یہ نام اس کالم میں سرمایے کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے)۔ یہ جہانگیر ترین کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی چھوٹا کوئی بڑا۔ بعض صرف ایک شہر میں جلسے کی میزبانی کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اس طرح کی خدمات کے عوض پارٹی سے قومی یا صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے امیدوار ہوتے ہیں۔
پارٹی کو بعض اوقات قومی سطح پر کسی بڑی مہم کی ضرورت پڑتی ہے۔ پارٹی لیڈر کو ایک دن میں، کئی شہروں میں جلسوں سے خطاب کرنا ہوتا ہے‘ جیسے انتخابی مہم کے دوران میں۔ تب 'بڑے جہانگیر ترین‘ کی ضرورت ہوتی ہے جس کا اپنا جہاز ہو یا جو جہاز کا کرایہ دے سکتا ہو۔ یہ جہانگیر ترین صرف پارٹی ٹکٹ کا امیدوار نہیں ہوتا۔ اس کی نظر کسی صوبے کی وزارتِ اعلیٰ پر ہوتی ہے۔ یہ اصلاً سرمایہ کاری ہے۔ الیکشن ہار جائیں تو سرمایہ ڈوب بھی سکتا ہے۔ جیت جائیں تو مع سود واپس آ جاتا ہے۔
پارٹی لیڈر اگر نوازشریف صاحب کی طرح خود صاحبِ وسائل ہوتو وہ اپناجہاز استعمال کرتا ہے یا پھر اپنے وسائل سے جہاز کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ یہ بھی سرمایہ کاری ہے۔ جب سرمایہ اپنا ہے تو وزارت عظمیٰ اور وزارتِ اعلیٰ کسی دوسرے کو کیوں دی جائے؟ عام طور پر پارٹی کے دیگر افراد یہ بات سمجھتے ہیں‘ اس لیے وہ بڑے مناصب کے لیے ضد نہیں کرتے۔ بعض چوہدری نثار خان صاحب جیسے بھی ہوتے ہیں جو حصہ بقدرِ جثہ نہیں، زیادہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔
سرمایہ پارٹی فنڈز کے نام پر بھی آتا ہے۔ پاکستان سے بھی اور بیرونِ پاکستان سے بھی۔ جو زیادہ پیسہ دیتا ہے وہ پارٹی عہدوں اور مناصب کے لیے مضبوط امیدوار ہوتا ہے۔ اسی طرح سینیٹ وغیرہ کے انتخابات ہوتے ہیں تواچانک نئے نام سامنے آتے ہیں۔ لوگ حیرت سے سوچتے ہیں کہ ان لوگوں کو توپہلے کبھی نہیں دیکھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ برطانیہ یا امریکہ میں پارٹی لیڈر کے میزبان تھے جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ سرمایہ کاری کی ایک صورت یہ بھی ہے۔
بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اچانک سینیٹ یا مخصوص نشستوں کے انتخابات کے وقت کچھ نئے چہرے نمودار ہوتے اوران بڑے ایوانوں میں کسی جماعت کا نمائندہ بن کرآجاتے ہیں۔ آدمی حیرت کے ساتھ ان کا اور ان کی جماعت کاتعلق تلاش کرتا اوراکثر ناکام رہتا ہے۔ میں آج تک سینیٹر طلحہ اور اعظم سواتی صاحب اور جمعیت علمائے اسلام کا باہمی تعلق تلاش نہیں کر سکا۔ میری تلاش ابھی جاری تھی کہ سواتی صاحب اڑ کر تحریکِ انصاف کی شاخ پر جا بیٹھے۔
اس ساری کہانی سے آپ جان گئے ہوں گے کہ سرمایہ ضرورت سے مرض کیسے بنتا ہے۔ سرمایہ کے مزاج میںحرکت ہے۔ اس کی زندگی اسی میں ہے ورنہ تو اس کا وجود مٹ جائے۔ حرکت میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نشوونما چاہتا ہے۔ اس لیے وہیں جاتا ہے جہاں اس کے لیے سازگار فضا میسر ہوتی ہے۔ سرمایہ اپنی اسی فطرت کے سبب، آہستہ آہستہ سیاست کے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی نکلنا چاہے بھی تو نکل نہیں سکتا۔
سیاست کو سرمایے کی گرفت سے کیسے آزاد کرایا جائے؟ کاش اس کا کوئی آسان جواب ہو سکتا۔ ایسا ہوتا تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ٹرمپ جیسا سرمایہ دار صدرنہ بنتا۔ یہ کام عوامی شعور کو بہتر بنائے بغیر نہیں ہو سکتا اور یہ ایک صبرآزما مہم ہے۔ ایک بڑی سماجی تبدیلی ہی اس کو ممکن بناسکتی ہے۔ عوامی شعور دو طرح سے تبدیل ہوتا ہے۔ رسمی تعلیم اورجمہوری تسلسل سے یا پھر سماجی تحریکوں سے۔ رسمی تعلیم ذہن سازی کرتی ہے اورجمہوری تسلسل اس کو مستحکم کرتا ہے۔
ہماری رسمی تعلیم اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتی کہ ایک اچھا انسان اور اچھا سیاسی نظام کیساہوتا ہے؟ وہ سماجی شعور کے تصور سے بالکل خالی ہے۔ یہ معاملہ دنیاوی اور دینی تعلیم کے اداروں کے ساتھ یکساں ہے۔ ریاست کیاہوتی ہے؟ آئین اور سماجی معاہدوں کی کیا حیثیت ہے؟ یہ کیوں ضروری ہیں؟ سماج میں اختلاف کو کیسے گوارا کیا جاتا ہے؟ فکری تنوع کیوں ناگزیر ہوتا ہے؟ سیاسی جماعتوں کی کیا اہمیت ہے اور وہ کیسی ہونی چاہئیں؟ ہماری تعلیم ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیتی۔ اس کے نتیجے میں عوامی احتساب کا ہر عمل، چاہے وہ رائے دہی (ووٹ) کی صورت میں ہو یا تصورِ حکمران کی شکل میں، ادھورا رہتا ہے۔ غیر سیاسی مداخلت کے سبب سماج کا سیاسی تجربہ آگے نہیں بڑھتا۔ یوں تجربے سے سیکھنے کا عمل بھی نتیجہ خیز نہیں بن سکتا۔
آج سیاست کی تطہیر کے لیے ایک بڑی سماجی تحریک ناگزیر ہو چکی۔ اس سماجی تحریک کا چند نکاتی ایجنڈا ہو‘ جیسے نظامِ تعلیم اور سیاسی جماعتوں کی تطہیر۔ اس کے لیے پہلی چیز نئی قانون سازی ہے۔ مثال کے طور پر قانون بنا دیا جائے کہ جس کو پارٹی کی مدد کرنی ہے، وہ صرف پارٹی فنڈ میں چندہ دے گا۔ یہ چندہ بھی ایک خاص حد سے زیادہ نہیں ہوگا اوراس کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ ہر پارٹی کارکن لازماً چندہ دے گا۔ یہ سوروپیہ ماہانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پارٹی فنڈ کا باقاعدہ آڈٹ ہوگا۔ تیسرا یہ کہ پارٹی میں ضلعی سطح پر عہدے کا مستحق وہی ٹھہرے گا جو تحصیل کی سطح پر ایک یا دو سال کے لیے کسی عہدے پر رہا ہو۔ اسی طرح یہ سلسلہ مرکز تک جائے گا۔
چوتھا یہ کہ پارٹی کا مرکزی عہدے دار یا پارلیمنٹ کے لیے امیدوار، وہی بن سکے گا جو براہ راست کسی کاروبار میں شریک نہیں ہو گا۔ جو چینی کے کارخانے کا مالک ہے یا کوئی سٹیل مل چلا رہا ہے، وہ کسی جماعت کا عہدے دار اور پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے امیدوار نہیں بن سکتا۔ اس فہرست کو طویل کیا جا سکتا ہے مگر کالم میں صرف اشارہ ہی ہو سکتا ہے۔ رہا دوسرا عارضہ یعنی غیر سیاسی مداخلت تو اس کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس کے لیے بھی اشارہ کافی ہے۔
ان تبدیلیوں کے لیے بڑے پیمانے پرایک سماجی تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک پریشر گروپ بنانا ہوگا جو پارلیمنٹ، حکومت اور سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق، کوئی آدمی یہ کام نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر عمران خان تحریک انصاف کے فنڈز کے آڈٹ کے لیے تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن میں پارٹی فنڈز کی تحقیقات کو رکوانے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اسی طرح شریف برادران کو بھی یہ قبول نہیں ہوگا کہ کاروبار اور سیاست کو الگ کر دیا جائے۔
سیاسی عمل اپنی خرابیوں کے باوجود جاری رہتا ہے اور عام شہری مجبور ہوتا ہے کہ اس کا حصہ بنے؛ تاہم اسے کسی رومان میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسے مان لینا چاہیے کہ سیاست سرمایے کا کھیل ہے۔ اسے موجود میں سے کسی بہتر کا انتخاب کرنا ہے نہ کہ یہ انتخاب دیوتا اور شیطان میں ہے۔ سیاست میں بڑی تبدیلی اسی وقت آئے گی جب دو بنیادی امراض سے نجات پا لے گی یا ان کے اثرات کم سے کم ہو جائیں گے۔
عمران خان صاحب چاہیں تو اس نوجوان قوت کو ساتھ ملا کر اس سماجی تبدیلی کی مہم اٹھا سکتے ہیں، جو اب بھی ان پر اعتماد کرتی ہے۔ یہ کام لیکن وزیر اعظم رہنے کی خواہش کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ کیوں نہیں ہو سکتا، اس کی وجہ میں نے بتا دی۔ اگر وہ فی الواقعہ سیاست کو سرمایے کے اثر سے نکالنا چاہتے ہیں تو انہیں اقتدار کی حریفانہ کشمکش سے نکلنا ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں جہانگیر ترینوں سے بے نیاز ہونا ہو گا۔ ورنہ ایک ترین کی گرفت سے نکلنے کے لیے انہیں کسی دوسرے ترین کی ضرورت ہو گی۔