عالم، داعی، مُناظِر اور صوفی۔
مسلم معاشرے میں مذہبی تشخص کے اعتبار سے، یہ چار کردار شہرت رکھتے ہیں۔ ان چاروں میں کچھ باتیں مشترک ہو سکتی ہیں مگر ان کے وظائف، طریقہ کار اور اہداف ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جب یہ فرق نظر انداز ہوتا ہے تو ان کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت لوگ ابہام کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُس پر مستزاد کچھ خود ساختہ خیالات ہیں جنہیں ہم مسلمات کی صورت میں پیش کرتے ہیں، درآں حالیکہ تاریخ ان کی تائید کرتی ہے نہ مشاہدہ۔
جو شخص دینی علوم میں محنت کرتا اور درک پیدا کرتا ہے، اسے ہم عالم کہتے ہیں۔ عالم عام طور پر دو کام کرتا ہے۔ ایک وہ علم کی روایت کو محفوظ بناتا اور ماضی کو حال سے جوڑ دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اس روایت کا تنقیدی جائزہ لیتا، جواہر اور سنگ ریزوں کو الگ کرتا، اس میں موجود نئے امکانات کو تلاش کرتا، اور یوں حال کو ماضی اور مستقبل، دونوں سے جوڑ دیتا ہے۔
علم سے متعلق زیادہ تر لوگ پہلا کام کرتے ہیں۔ معدودے چند دوسرے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اِس کا تعلق شخصی صلاحیت کے ساتھ ہے۔ مدرسہ پہلے کام کے ماہرین تیار کرتا ہے، الا یہ کہ کوئی اس سے بلند ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اپنے لیے دوسرے میدان کا انتخاب کر لے۔ مدرسے کی روایت ایسے لوگوں کو اگل دیتی اور ان سے اعلانِ برات کر دیتی ہے۔
دوسرا کام وہ ہے جسے تجدید و احیائے دین کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ندرتِ خیال، علمی نشاط اور فکری امکانات پائے جاتے ہیں، وہ انہی لوگوں کے دم سے ہیں جو اس میدان کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی تمام آرا ضروری نہیں کہ درست ہوں مگر ان کی وجہ سے روایت ارتقا سے گزرتی اور آگے بڑھتی ہے۔ اسلامی علوم میں اِنہی کی وجہ سے نئے امکانات سامنے آتے رہتے ہیں۔
جیسے تفسیر کی روایت اگرچہ ابتدا ہی سے موجود ہے لیکن علوم کی جدید تعریف کے حوالے سے دیکھیے تو یہ بہت بعد میں مرتب ہوئی، جب ابن جریر طبری جیسے لوگوں نے باضابطہ تفسیر لکھی۔ یہ روایت بیسویں صدی میںامام حمید الدین فراہی اورسر سید احمد خان تک پہنچتے پہنچتے طرح طرح کے راستوں اور پگڈنڈیوں سے گزری۔ یہی معاملہ علم ِحدیث، فقہ، کلام اور دیگر علوم کا ہے۔
تجدید و احیائے دین کے علمبرداروں کا استقبال ان کے عہد میں پھولوں کے ساتھ کم ہی ہوا۔ یہی جب 'متقدمین‘ بنے توان کاشمار محسنین میں کیا گیا اوراپنی رائے کی صحت کے لیے ان کو حوالہ بنا دیا گیا۔ مولانا امین ا حسن اصلاحی کی بزلہ سنجی بروئے کار آئی اور انہوں نے اس طرزِ فکرکو بہت لطیف اندازمیں بیان کیا۔ ایک صاحب نے ان کی کسی رائے پر تبصرہ کیا کہ متقدمین میں سے تو کسی نے اس رائے کا اظہار نہیں کیا۔ مولانا نے کہا: آپ ہمارے مرنے کا انتظار کیجیے‘اس کے بعد ہمارا شمار بھی متقدمین میں ہو گا۔
عالم کا کام روایت کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ وہ جب کسی ایسی بات کی دینی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے، جن پر لوگ ایمان لا چکے ہوتے ہیں تو اس کے خلاف ردِ عمل ہوتا ہے۔ اس کا سامنا تکفیر کے فتووں سے بھی ہوتا ہے۔ اسے لیکن یہ تلخ گھونٹ پینا ہوتا ہے کہ یہ اس کے منصب کا تقاضا ہے۔ یوں عالم متفق علیہ نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ میں شاید ہی کوئی اس راستے کا ایسا مسافر ہو جو اپنے دور میں متنازع نہ سمجھا گیا ہو۔ گویا عالم کا کام روایت کا تنقیدی جائزہ اور امکانات کی تلاش، اپنی تحقیق کا ابلاغ اور اس کا ہدف تجدیدِ دین ہے۔عالم کے لیے کچھ لازم نہیں کہ دربار سرکار سے دور رہے۔ بے نیازی اور دوری، دو الگ باتیں ہیں۔ امام ابوحنیفہ جس منصب سے الگ رہے، ان کے شاگردِ رشید امام ابو یوسف نے اسے قبول کر لیا۔ وہ ہماری روایت میں اپنے استاد ہی کی طرح محترم مانے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے بارے میں اس کا حسنِ ظن ہو تو عالم منصب بھی قبول کر سکتا ہے۔
داعی وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ انہیں آخرت کی تذکیر کرتا اور نیکی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ یاددہانی کا کام کرتا اور مسلم معاشرے میں اس کے مخاطب صاحبانِ ایمان ہی ہوتے ہیں۔ داعی کیلئے اس سطح کا عالم ہونا ضروری ہے کہ وہ اندھاراہ دکھانے والا نہ بنے؛ تاہم اس کیلئے ضروری نہیں کہ وہ مجتہد بھی ہو۔
داعی سیاسی و مذہبی گروہ بندی سے دور رہتا اور پوری قوم کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔سب اس کے مدعو ہوتے اور اس کی نظرمیں یکساںہوتے ہیں۔وہ کسی سیاست دان کا کارندہ ہوتا ہے نہ کسی مسلک کانمائندہ۔ وہ اہلِ اقتدار کو ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تذکیر کرتا اور عوام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کا ہدف لوگوں کا تزکیہ ہوتا ہے تاکہ وہ آخرت میں کامیاب ہو جائیں۔
داعی دانستہ ان موضوعات سے گریز کرتا ہے جو معاشرے میں مختلف فیہ ہوں۔ وہ ایمانیات اور اعمال کے باب میں بنیادی اور ضروری باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے جن پر عام طور پر لوگوں میں اختلاف نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر تبلیغی جماعت کی دعوت جن چھ بنیادی نکات پر کھڑی ہے، کوئی سلیم الفطرت ان سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ وہ دعوت کا کوئی ایسا طریقہ بھی اختیار نہیں کرتاجس سے عام آدمی اس سے دور ہو۔
مُناظِر وہ ہے جو مناظرہ کرتا ہے۔ اس کا کام اپنے موقف کو درست اور دوسرے کو غلط ثابت کرنا ہے۔ اس کا طریقہ کار اپنے حق میں دلائل جمع کرنا اور دوسرے کی کمزوریوں کو تلاش کرنا ہے۔ حق کیا ہے، اس کی جستجو، اس کا مطمحِ نظر نہیں ہوتا۔یہی سبب ہے کہ مناظر علم کی دنیا میں کبھی حوالہ نہیں بنتا۔ اس کا ہدف اپنے مذہب یا مسلک کی فتح کا جھنڈا گاڑنا ہے۔ نیم خواندہ معاشروں میں مناظرے کا چلن زیادہ ہوتا ہے۔ جس تناسب سے علم اور آگاہی بڑھتی ہے،اس کا رواج کم ہوتا جاتا ہے۔
صوفی وہ ہوتا ہے جولوگوں کے نفسیاتی واخلاقی عوارض کا علاج کرتا ہے۔انہیں زندگی کا مفہوم بتاتا اور ان میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔غربت،بیماری، ناکامی،قافلہ حیات سے بچھڑجانا،اوراس نوعیت کے دیگرمسائل جو انسانوں میں ڈپریشن،مایوسی اور فرار پیدا کرتے ہیں،وہ ان کا نفسیاتی علاج کرتااورانہیں نفسیاتی طور پر نارمل بناتا ہے۔علمی اشکالات کا خاتمہ یا دین کی دعوت اس کا ہدف نہیں ہوتا۔وہ ہر مزاج اور عقیدے کے آدمی کواس کی نفسیاتی ساخت ،مذہبی خیالات اور سماجی پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے علاج تجویز کرتا ہے۔
ہماری تاریخ میں ایسے بڑے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جو بیک وقت کئی میدانوں میں امام کا درجہ رکھتے تھے۔انہیں کسی ایک دائرے میں قید کرنا آسان نہیں ہوتا۔جیسے امام غزالیؒ یا شاہ ولی اللہؒ۔ ان کے بارے میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ صوفی بڑے تھے یا عالم؛ تاہم ان کاموں کے مختلف اور بعض اوقات متضاد مطالبات کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کسی ایک میدان ہی کا انتخاب کرے۔امام غزالی کو زندگی کے آخری دور میں اس کا اندازہ ہو گیا تھا۔انہوں نے تصوف کا انتخاب کر لیا تھا۔جب کوئی ایک سے زیادہ دائروں میں متحرک رہے توان کاموں کے مختلف مطالبات اس فرد اور اس کے کام کے بارے میں معاشرتی سطح پر ابہام پیدا کرتے ہیں اور یوں سماج ان کی صلاحیتوں سے درست طور پرفائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ تاریخ سے اس کی بہت سے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ماضی قریب میں مولانا ابوالکلام آزاد اوردورِ حاضرمیں طاہر القادری صاحب کو دیکھیے۔مولاناآزاد اگر علم کی دنیا تک محدود رہتے اورسیاست سے گریز کرتے تووہ برصغیر میں شاہ ولی اللہ سے بڑا نام ہوتے۔طاہر القادری صاحب اگر سیاست سے دامن بچائے رکھتے اور علمی کام کے ہورہتے تودوسرے مو لانا احمد رضا ہوتے۔ساتھ اُس رسوائی سے بھی محفوظ رہتے جو کوچہ سیاست میں قدم رکھنے کی پہلی قیمت ہے۔
اگر عالم،داعی اور صوفی اپنی محدودیت کا ادراک رکھتے ہوںاور عوام بھی جانتے ہوں کہ عالم سے علم ،داعی سے دعوت اور صوفی سے نفسیاتی عوارض کے لیے رجوع کرنا چاہے تو کسی طرح کا خلطِ مبحث پیدا نہ ہو۔ مُناظِر کے علاوہ یہ سب کردارمعاشرے کی ضرورت ہیں۔مسئلہ اُس وقت پیداہوتا ہے جب داعی سیاست اور دعوت کے فرق کونظرانداز کردیتا ہے اورخانقاہ کو،جدید ہو یا قدیم،لوگ مدرسہ سمجھ لیتے ہیں۔