"KNC" (space) message & send to 7575

عقلِ کل اور عقلِ عام

معاملہ درپیش ہو تو کسی معاملہ فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔
امیرالمومنین سیدناعمرؓ ابن خطاب نے فرمایا تھا:'قضیۃ ولا ابا حسن لھا‘۔ معاملہ درپیش ہے مگر ابوالحسن علیؓ ابن ابی طالب جیسا معاملہ فہم کہیں نہیں۔ سید ابوالحسن علی ندوی نے کتابچہ لکھا: 'ردۃ ولاابابکر لھا‘۔ارتداد ہے مگر کوئی ابوبکرؓ صدیق موجود نہیں۔ کیا لوگ تھے جنہیں اللہ کے رسول کی رفاقت نصیب ہوئی اور ان کے نصیب چمک اٹھے۔ ایسے چمکے کہ عالم کا پروردگار ان سے راضی ہو گیا۔ اپنی آخری کتاب میں اعلان کر دیا کہ تاابد تلاوت کیا جائے اوراس سند کی تشہیر ہو تی رہے۔
جب سے کورونا کا امتحان درپیش ہے، امیرالمومنین کا جملہ کانوں میں گونج رہاہے اور مولانا علی میاں یاد آرہے ہیں۔ آج عقلِ کل کی حکمرانی ہے اورعقلِ عام سے بے نیازی ہے۔ اربابِ اختیار کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں۔ نہ میری نہ کسی اور کی۔ ہاں مگر وقت کی لوح پر ایک شہادت ثبت ہو جانی چاہیے کہ آدمی اپنی حد تک ہی مکلف ہے۔ ان سطور کی بس یہی اہمیت ہے: معذرت اپنے رب کے حضور میں یا پھر پڑھنے والوں کے سامنے۔
گزشتہ ہفتے، کورونا کے مریضوں کی تعداد میں باسٹھ فی صد اضافہ ہوا۔ یہ اطلاع بی بی سی نے دی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد تادمِ تحریر چھ سو سے تجاوز کرچکی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اٹلی جیسا حال نہیں مگرمسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ عام آد می بے نیاز ہے۔ کہیں تعلیم نہیں اور کہیں شعور نہیں۔ اکثردونوں سے تہی دامن ہیں۔ خود کشی اب ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی۔ خود اذیتی اس کے علاوہ۔ سونے پہ سہاگہ عقلِ کل کی حکمرانی۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اب تک کی تحقیق یہ ہے کوئی بات یقینی نہیں۔ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے قیاس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آکسفوڈیونیورسٹی کے ادارے جینر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈرین ہل کی تحقیق جاری ہے۔ ڈاکٹر ہل ہیومن جینیٹکس کے ماہر ہیں۔ اپنی ٹیم کے ساتھ ایبولا وائرس کے خلاف ویکسین پر کام کر چکے جو مغربی افریقہ میں پھیل گیا تھا۔ ان کی تحقیق اگر ثمر بار ہو ئی تو ستمبر تک شاید کوئی ویکسین آ جائے۔ گویا اگر کہیں امید ہے بھی توچند ماہ کے فاصلے پر۔ گویا خواہی نخواہی یہ انتظار تو کر نا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ چند ماہ کیسے گزارے جائیں؟ موت سے مصافحہ کرتے ہوئے یا اس سے بچنے کی کوشش میں؟
اب عقلِ عام کیا کہتی ہے؟ وہی جس سے ہم بے نیاز ہیں۔ کچھ اس لیے کہ اس دولت سے محروم ہیں۔ کوئی اس لیے کہ اسے عقلِ خاص ودیعت کی گئی ہے یا وہ یہ گمان رکھتا ہے۔ کسی نے اسے کسی دوسرے کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ ایک معصوم کے عہد میں زندہ ہے اور اس کا کام صرف سمع وطاعت کی بیعت ہے۔ عقلِ عام سے محرومی بھی کتنی بڑی محرومی ہے۔جو ابھی تک ان عارضوں سے محفوظ ہیں،یہ سطور اصلاًانہی کے لیے لکھی جا رہی ہیں۔ دوباتیں نوشتہ دیوار ہیں۔ ایک یہ کہ جب سے یہ وباآئی ہے،اس سے بچنے کی صرف ایک موثردریافت ہو سکی ہے:فاصلہ۔ نہیں معلوم کون اپنے دامن میں وائرس لیے پھر رہا ہے۔ میں،آپ یا وہ؟ لہٰذا ضروری ہے میں، آپ ،وہ، سب ایک دوسرے سے دور رہیں۔ اختلاط ناگزیر ہو جائے تو تمام حفاظتی انتظامات کے ساتھ۔ 
دوسرا یہ کہ فاصلے کی عملی صورت ایک ہی ہے: لاک ڈاؤن۔ بازاربندرہیں۔ میل جول کی کوئی صورت گوارا نہ کی جائے۔ اس میں اتنی سختی ہو کہ یہ وائرس اگر کسی وجود میں ہے بھی تو اسے نیا شکار نہ مل سکے۔ ٹریفک کے حادثات کی روک تھام کے لیے، شاہراہوں کے کناروں پہ لکھا ہوتا ہے: دیر سے پہنچنا، کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے۔ اب ہر گھر کی دیوار پہ لکھا ہونا چاہیے: دیر سے ملنا کبھی نہ ملنے سے بہتر ہے۔ گھر کیا،یہ جملہ تو دل کی دیوار پہ لکھا ہونا چاہیے۔ اس میں امید بھی ہے اور احتیاط بھی۔فرمایا گیا: مجھے غریبوں کی فکر ہے‘بھوکے مر جائیں گے۔ اللہ نہ کرے۔یہ درد مندی ہو سکتی ہے مگر بے خبری بھی بلا کی ہے۔ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو ہماری تہذیبی روایات سے واقف ہے نہ سماج کی بُنت سے۔ میرا پس منظر دیہاتی ہے۔ کم وبیش چالیس سال پہلے کی یہ بات میری یادداشت سے محو نہیں ہوئی کہ عام لوگوں کے پاس کرنسی نوٹ اور سکے نہیں ہوتے تھے۔ خرید وفروخت کا عام اصول جنس کے بدلے جنس تھا۔ گندم دو اور خربوزہ لے لو۔
مجھے کل کی طرح یاد ہے کہ نیا کپڑا عیدیاشادی پہ پہنا جاتا تھا اور میٹھا اس دن پکتاتھاجب کوئی مہمان آجاتا۔ میں نے عورتوں کو سر پر جوتے رکھے دیکھا ہے۔ کہیں جانے کے لیے اپنے گاؤں کی حدود سے باہرقدم رکھتیں تو جوتے اتار دیتیں۔ دوسرے گاؤں کی حدود میں داخل ہوتیں تو پہن لیتیں۔ جوتے کی عمر بڑھانا مقصود تھا۔ جوتا پاؤں سے زیادہ قیمتی تھا۔ 
میں اس داستان کو دراز کر سکتا ہوں۔ چائے کتنی نایاب تھی اور سالن کتنے گھروں میں پکتا تھا۔ یہ تفصیلات بیان کر نے بیٹھوں تو نئی نسل کے لوگ انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ غربت کے اس عالم میں بھی، میری یادداشت میں کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں کہ کوئی بھوک سے مر گیا ہو۔ نہ دیکھا نہ سنا۔ یہ معاشرہ کبھی اپنے پیٹ کو ننگا ہونے دیتاہے نہ خالی رہنے دیتا ہے۔ 
کہنا یہ ہے کہ بھوک کا سدِ باب ممکن ہے لیکن خدا نخواستہ وائرس پھیل گیا تو اسے روکنا ہمارے بس میں نہیں ہوگا۔اس لیے ہمیں کورونا پر اپنے دروازے بند کر نا ہوں گے۔ اس کی ایک ہی شکل ہے:فاصلہ۔ مساجد کے باب میں تجربہ ہو چکا کہ اس معاملے کو عوام پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اب وزرا بھی اس کی ناکامی کاا عتراف کر رہے ہیں۔ حیرت مگر یہ ہے کہ اسے زیادہ گرم جوشی سے دھرانے کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ اسے تدریجاً کھول دیا جائے گا۔ عقلِ کل کے سامنے اب عقلِ عام کی کیا مجال کہ دم مارسکے۔عوام کا حال یہ ہے کہ موت کو کھیل سمجھتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ شادی پر فائرنگ ، خوشی کے گھر کو ماتم کدہ بنا سکتی ہے۔ اس خدشے کو بارہاواقعہ بنتے دیکھتے ہیں مگراپنے ہاتھوں سے مقتل آباد کرنے سے باز نہیں آتے۔ بازارمرحلہ وارکھولنے کا تصورغلط فہمی کے سواکچھ نہیں۔ جس دن بازار کھلے گا ،مکمل کھلے گا۔ زندگی جب ایک اکائی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک دکان کھلے اور دوسری بند رہے۔ درزی کی دکان کھلے گی توجوتے فروش کی کیوں نہیں؟ یہ سلسلہ کسی منطق کے تحت کہیں روکا نہیں جاسکتا۔
حکومت چاہتی تو سماجی وتہذیبی روایت کو معاشرتی قوتوں کی مدد سے ایک پالیسی میں بدل دیتی۔ یوں تین ماہ کے لیے روٹی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا تھا۔ اس کے پیشِ نظر مگر سیاست ہے۔ اسے ٹائیگر فورس بنانی ہے لہٰذا اب صرف عوام ہی سے التماس کی جا سکتی ہے کہ خود کو ہلاکت میں نہ ڈالیں، اس امید کے ساتھ کہ وہ خود کو عقلِ کل نہیں سمجھتے اور دوسروں کی بات سن سکتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ عوام سے کہے کون؟محراب ومنبر؟ نہیں، اس لیے کہ وہ خود مساجد کھولنے کے علم بردار ہیں۔ منبر سے یہ صدا کیسے اٹھ سکتی ہے کہ مسجد توکھلی رہے گی مگر دکانیں بند رہیں۔ 
میڈیا؟اسے کیا پڑی ہے؟ اس کے سامنے زیادہ اہم مسائل ہیں۔ جیسے ایک وزیر کی رخصتی اور دوسرے کی آمد۔ کبھی افواہ اورکبھی سازش۔ اسے ابھی یہ بتانا ہے کہ جہانگیر ترین کے ہاتھ میں کون کون سے پتے ہیں؟ نوازشریف کاآپریشن کیوں نہیں ہو رہا؟ شہباز شریف نے واپس آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وہ کیوں کورونا کے بارے میں عوامی آگہی کے لیے اپنا قیمتی وقت صرف کرے؟ یوں بھی وہ اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑے یا عوام کے تحفظ کی؟
اب صرف دعا کا راستہ کھلا ہے۔ جو کوئی دوا کارآمد نہ ہو اور عقل کام کرنا چھوڑ دے تو پھر انسان کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی ہیں۔ عقل کام کرنا چھوٹ چکی،اس لیے اب دعا کا وقت ہے۔ جب ارتداد ہو اورکوئی ابو بکر نہ ہو۔ قضیہ ہو اور کوئی ابوالحسن نہ ہو تو پھر صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں