سترہ رمضان ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا یومِ وفات تھا۔ اکیس رمضان امیرالمومنین سیدنا علیؓ کا یومِ شہادت ہے۔
ہر سال اخبارات ایڈیشن شائع کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز بھی حسبِ توفیق اپنے وقت کا انفاق کرتے ہیں۔ دونوں کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے: فضائل۔ دونوں شخصیات کی عظمت کے باب میں کیا کلام ہے۔ ایک تاقیامت مومنین کی ماں اور دوسرے پہلے مسلمان اور پیغمبرؐ کے صحابی۔ امہات المومنین اور صحابہ‘ دونوں کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب گواہی دیتی ہے کہ وہ عالم میں انتخاب ہیں۔ میرا سوال مگر دوسرا ہے: کیا اسلام محض فضائل کا مذہب ہے؟
واعظین اور مسلکی خطیبوں نے عام مسلمان کو فضائل کا خوگر بنا دیا ہے۔ ایک طرف اعمال کے فضائل کی روایات بیان ہو رہی ہیں اور دوسری طرف شخصیات کے فضائل کی۔ دین کی حقیقت ان کے درمیان کہیں کھو گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے اور لوگوں نے قرآن کے علاوہ نصاب بنا رکھے ہیں۔ اس رویے نے دین کو جو نقصان پہنچایا ہے، کاش ان واعظوں اور خطیبوں کو اس کا اندازہ ہوتا۔
محدثین نے عمریں کھپا دیں، اس کوشش میں کہ اللہ کے رسولﷺ سے کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو پائے جو آپؐ نے فرمائی نہ ہو۔ اسماء الرجال کا وہ علم وجود میں لائے جو انسان کی علمی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ انہیں اندازہ تھا کہ قولِ رسول کی اہمیت کیا ہے؟ یہ کھیل تماشا نہیں جسے سہل انگاری کی نذر کر دیا جائے۔ وہ سنگریزوں میں ہیرے تلاش کر تے رہے کہ عام لوگوں کی باتوں میں پیغمبر کی بات ایسے ہی ہے جیسے پتھروں میں نیلم و الماس۔ امام بخاری کو لاکھوں سنگریزوں میں سے چند ہزار ہیرے ہی مل سکے۔ امت کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ ان روایات پر بھی تنقید کا باب کبھی بند نہیں ہوا۔ متقدمین میں امام دارقطنی نے بخاری کی انہی روایات پر نقد کیا ہے۔ متاخرین میں امام البانی نے اس چراغ کو روشن رکھا۔
روایت کے پہلو سے حدیث کی بہت سی اقسام ہیں۔ صحیح، حسن اور ضعیف سے وہ سب واقف ہیں جنہیں دینی موضوعات سے کچھ بھی دلچسپی ہے۔ 'موضوع‘ روایت اگرچہ حدیث نہیں ہوتی لیکن، حدیث کی کتابوں میں اس کا مسمّیٰ پایا جاتا ہے، اس لیے اس اصطلاح کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا مطلب ہے: وضع کی گئی، گھڑی ہوئی۔
محدثین نے عرق ریزی کی تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اچھے برے محرکات کے تحت بلا تکلف 'احادیث‘ گھڑ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی اور یوں علمِ حدیث کی کتابوں میں ایک باب قائم ہوا: 'وضعِ حدیث کے محرکات‘۔ تحقیق کے جو نتائج سامنے آئے، ان کے مطابق لوگوں نے عام طور پر دو بڑے اسباب سے حدیثیں گھڑیں۔ ایک عام افراد کو دین اور نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے۔ دوسرا اپنے فرقے کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے۔
پہلے سبب سے وہ روایات وجود میں آئیں جو فضائلِ اعمال کے باب میں بیان ہوتی ہیں۔ محدثین نے اس کی روک تھام کے لیے ایک اصول، مثال کے طور پر، یہ بیان کیا کہ جس روایت میں ایک چھوٹی سی نیکی کا بڑا اجر اور چھوٹی سی برائی کی بڑی سزا بیان ہو، وہ موضوع ہے۔ اسی طرح جب اقتدار پر قبضے کے لیے مختلف گروہوں میں کشمکش ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے موقف کے حق میں افسانے تراشے۔ اس سے وہ روایات سامنے آئیں جن کا تعلق افراد کے فضائل سے ہے۔
مقبول واعظین اور ذاکرین کا انحصار ان دو طرح کی روایات پر ہے۔ سوشل میڈیا پر جو مذہبی مواد میسر ہے، اس کو دیکھ ڈالیے۔ آپ کو اسی طرح کی تقریریں ملیں گی۔ ٹی وی چینلزکے مذہبی پروگراموں میں وہی لوگ گفتگو کر رہے ہیں جو فضائل کے ماہر ہیں۔ آدمی سوچتا ہے کہ اگر یہ دین ہے تو پھر وہ ہدایت کہاں ہے جس کو اللہ کے آخری رسولﷺ لے کر آئے؟
وہ ہدایت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اس کو رسالت مآبﷺ نے بطور عملِ متواتر اس امت میں رائج کر دیا ہے۔ وہ آپؐ کے اسوۂ حسنہ میں ہے جس کا مصدقہ ریکارڈ، محدثین اور سکالرز کی محنت سے محفوظ ہے۔ آدمی قرآن مجید پڑھے، اس سنتِ متواترہ کو جانے اور آپ کے حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ جو میں دیکھ اور سن رہا ہوں، وہ ان میں کہاں ہے؟
روایات کے باب میں اس تساہل کے دو نتائج ظاہر و باہر ہیں: افراط و تفریط اور فرقہ واریت۔ افراط و تفریط کی وجہ سے عقائد اور اعمال کی ترتیب بدل گئی۔ مثال کے طور پر توحید عقیدے کے اعتبار سے دین کا جوہر ہے۔ قرآن مجید سے پوچھیے تو وہ بتائے گا کہ توحید ہے کیا اور دین میں اس کی اہمیت کیا ہے۔ اس کے بعد ان مبلغین کے وعظ سنیں۔ آپ کو ایک دو تقریریں سن کر ہی اندازہ ہو جائے گا کہ توحید اب دین میں اس طرح اساسی نہیں ہے جس طرح اللہ کی کتاب بیان کرتی ہے۔
اعمال کا معاملہ یہ کہ قرآن مجید کے مطابق نماز اور انفاق فی سبیل اللہ یعنی زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ آج جو دین بیان کیا جاتا ہے، اس کو ناپنے کا پیمانہ عشق ہے، اعمال نہیں۔ دین کے ماخذ کے لیے یہ ایک اجنبی اصطلاح ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نماز روزہ ضمنی امور ہیں‘ اصل چیز عشق ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آ سکی کہ نماز کے بغیر خدا کے ساتھ محبت کا کوئی دعویٰ کس طرح سچا ہو سکتا ہے؟ جو واعظ نماز کی اہمیت بیان کرتے تھے، سنا ہے، وہ بھی اب فضائل پر کتابیں لکھ رہے ہیں۔ افراط و تفریط کا یہی نتیجہ ہو سکتاتھا۔
فرقہ واریت نے شخصی فضائل کی روایات کو جنم دیا۔ یوں آج ان کی بنیاد پر مسلکی اور فرقہ وارانہ مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔ فرقہ پرست لوگوں کی تقریروں میں ان کا غلبہ ہے۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ان روایات کو بنیاد مان کر قرآن مجید کی تاویل کی جانی لگی۔ ان آیات کی، جن کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم میں قطعی ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ ان تاویلات کو قبول کرتے ہیں نہ اسالیبِ کلام لیکن بیان ہو رہے ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے؎
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
مہات المومنین کے بارے میں قرآن مجید نے بتایا کہ وہ عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔ انہیں عالم کے پروردگار نے یہ ذمہ داری سونپی کہ ان کے گھر میں اللہ کی آیات اور اس کی حکمت کی جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ اس کا چرچا کریں۔ (احزاب33:34)۔ اس ذمہ داری کو سیدہ عائشہؓ نے اس شان کے ساتھ نبھایا کہ پوری امت ان کے احسان کے زیرِ بار ہے۔ امیرالمومنین سیدنا علیؓ کا معاملہ یہ ہے کہ فتنہ وفساد کے دور میں بھی وہ جس طرح حق پر قائم رہے اور حسنِ کردار کا نمونہ بنے رہے، اس نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ اللہ کے پیغمبر کے صحبت یافتہ کیسے ہوتے ہیں۔ ان کی فضیلت کے بیان کے لیے قرآن مجید اور صحیح روایات کفایت کرتی تھیں۔
ام المومنین کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق جوڑا جاتا نہ امیرالمومنین کا، اگر ہم نے اپنے معاملات میں قرآن مجید کو فرقان اور میزان مانا ہوتا۔ جب ہم نے اس کو چھوڑا اور وضعی روایات کو اختیار کیا تو دین افراط و تفریط اور امت فرقہ واریت کا شکار ہو گئی۔ دو دن پہلے سیدہ کا دن منایا گیا۔ اکیس رمضان سیدنا علیؓ کا یومِ شہادت ہے۔ فضائل کی روایات بیان ہو رہی ہیں اور ہم اپنی گروہی عصبیت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ستم در ستم کہ رمضان میں قرآن مجید کا بیان ہوگا تو وہ بھی فضائل کے پیرائے میں۔ اس میں درج ہدایت کی طرف کم ہی نگاہیں اٹھیں گی؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی