چند جملے بہت کثرت کے ساتھ سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں:
٭ میرے نزدیک فحاشی یہ ہے کہ لوگوں کے سر پر چھت اور بدن پر کپڑا نہ ہو۔
٭ میرے نزدیک اخلاقیات کا تعلق عورت کے لباس اور مرد کے حلیے سے نہیں ہے۔
٭ میرے نزدیک... ... وغیرہ وغیرہ۔
اس 'میرے نزدیک‘ کی بہت اہمیت ہو سکتی ہے اور یہ اقوالِ زریں کچھ دیر کے لیے نگاہوں کو خیرہ کر سکتے ہیں‘ یقیناً یہ مجھ جیسے طالب علموں کے لیے غوروفکر کے کئی نئے در وا کرتے ہوں گے۔ اس اعتراف کے باوجود، ایک سوال ہے جو ان جملوں سے جھانکتا اور جواب طلب نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھتا ہے: کیا انفرادی سطح پر اخلاقیات کی تعریف ممکن ہے؟ میں اس جملے کی شرح کرتا ہوں تاکہ اپنی بات مزید واضح کر سکوں۔
میں اس بحث سے کچھ دیر کے لیے صرفِ نظر کرتا ہوں کہ اخلاقیات ایک معروضی حقیقت ہے یا ایک موضوعی معاملہ۔ میں اگر اسے موضوعی (subjective) فرض کر لوں تو بھی یہ سوال باقی ہے کہ کیا ہر فرد اپنے طور پر یہ طے کرے گا کہ اخلاقیات کیا ہیں؟ میں اپنے لیے فحاشی، کرپشن یا نیکی کی ایک تعریف طے کروں گا‘ اور دوسرا اپنے لیے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہیں اورہم میں سے کوئی دوسرے کو پابند نہیں کرسکتا کہ وہ اس کی تعریف کو مان لے۔ گویا جنتے افراد، اتنے اخلاقی معیارات۔
اس صورت میں میرا سوال ہوگا کہ کیا اس طرح کوئی اجتماعیت قائم کی جا سکتی ہے؟ کیا اخلاقیات کی کسی اجتماعی تعریف کے بغیر کوئی عمرانی معاہدہ وجود میں آ سکتا ہے؟ اگر میرے نزدیک فحاشی یہ ہے کہ کوئی غربت کا شکار ہو اور آپ کے نزدیک فحاشی سے مراد برہنہ بدن یا کم لباسی ہو تو کیا ہم دونوں مل کرایک نظامِ اخلاق پر اتفاق کر سکیں گے؟ کیا اخلاقی اقدار پر اتفاقِ رائے کے بغیر کسی پُرامن معاشرے کا تصور ممکن ہے؟
میرا جواب تو نفی میں ہے۔ ہم اخلاقیات کو موضوعی مانیں یا معروضی، لازم ہے کہ معاشرتی سطح پر کسی نظامِ اخلاق پر اتفاق پیدا کیا جائے۔ اس کے بغیر کوئی اجتماعیت قائم نہیں ہو سکتی۔ کوئی معاشی نظام بن سکتا ہے نہ سیاسی نظم وجود میں آ سکتا ہے۔ قانون کی بنیاد بھی کسی نہ کسی نظامِ اخلاق پر ہوتی ہے۔ یہی نہیں، ایک گھر میں چند افراد کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے، اگر وہ ایک نظامِ اخلاق کو نہیں مانتے۔ اس کا نتیجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے فساد۔ مسلسل فساد۔
دنیا کا ہر سیاسی نظام کسی نظامِ اخلاق پر کھڑا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جمہوریت ایک اخلاقی قدر ہے جویہ طے کرتی ہے کہ کس کا حقِ اقتدار اخلاقی بنیادیں رکھتا ہے۔ اسی طرح بادشاہت بھی ایک نظامِ اخلاق کے تابع ہے۔ جب کوئی معاشرہ کسی ایک خاندان کے حقِ اقتدار پر متفق ہو جاتا ہے تو اس وقت خاندانی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے۔ میںاس وقت کسی نظامِ اخلاق کے غلط یا صحیح ہونے کی بات نہیں کر رہا، صرف اس کی ضرورت کو نمایاں کر رہا ہوں۔
ہم جانتے ہیں کہ اخلاقی اقدار روزروز قائم نہیں ہوتیں۔ انسان کی پوری تاریخ میں چارطرح کے نظام ہائے اخلاق ہی وجود میں آ سکے۔ ایک وہ جس کی بنیاد آسمانی الہام پر ہے۔ دوسرا وہ جو توہمات پر مبنی ہے۔ تیسرے کی بنیاد روایت یا ماضی پرستی ہے۔ چوتھا انسانی تجربہ اورعقل کی اساس پر کھڑا ہے۔ ان کی تعبیرات میں فرق ہو سکتاہے۔ ان میں داخلی سطح پر اختلافات بھی سامنے آتے رہے لیکن کوئی اخلاقی نظام ان چاروں بنیادوں سے باہر نہیں جا سکا۔ اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ ان چاروں نے ایک دوسرے کے اثرات کو قبول کیا ہے؛ تاہم یہ عمل فروعات کی سطح پر ہوا ہے، اصول کی سطح پر نہیں۔
میں اس بات کو مزید کھولتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ فحاشی کی کوئی انفرادی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ معاشرتی سطح پر اس کی وہی تعریف قبول کی جائے گی جس پر ایک عمومی اتفاق ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں فحاشی کا ایک مفہوم رائج ہے۔ لوگ اسی کو فحاشی مانیں گے۔ برہنگی یا نیم برہنگی یہاں فحاشی ہے۔ آزادانہ جنسی تعلق فحاشی ہے۔ اس کو کوئی اور مفہوم نہیں دیا جا سکتا۔ 'میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کو یہاں قبول کیا جاسکتا ہے الا یہ کہ کوئی برہنگی کو اس کی فرع قرار دے دے۔
آپ اگر غربت کا المیہ بیان کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس کا حق رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، اس پر آپ کی تحسین کی جائے گی کہ آپ نے آدم وحوا کے بچوں کے دکھ کو محسوس کیا۔ کروڑوں لوگ اس معاملے میں آپ کے ہم نوا ہوں گے۔ آپ کے قلم کو چومیں گے اور آپ کے خطاب پر داد دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عقیدت کے پھول نچھاور کریں۔ لیکن اگر آپ غربت کو فحاشی قرار دے کراُس عمل کو فحاشی کے دائرے سے نکالنا چاہیں گے جسے لوگ فحاشی سمجھتے ہیں تو، اس سے غربت کے خلاف آپ کا مقدمہ کمزور ہو گا۔
میں اس سے یہ نتیجہ برآمد کرتا ہوں کہ اخلاقیات کی کوئی انفرادی تعریف نہیں ہوتی۔ اخلاقی تصورات اجتماعیت کی سطح پر وجود میں آتے ہیں اور ان کی وہی تعریف کی جا سکتی ہے جسے قبولیتِ عامہ حاصل ہو۔ اگر کوئی کسی تصور کی تعریفِ نو کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہو گا کہ وہ پہلے سے موجود چار بنیادوں میں سے کسی ایک کو حوالہ بنائے۔ وہ کسی الہام کو اپنے حق میں لاکھڑا کرے۔ کسی روایت کو زندہ کرے جسے زمانے کے ارتقا نے مار ڈالاہو۔ کوئی عقلی استدلال پیش کرے‘ اورکچھ نہیں تو توہمات ہی کا سہارا لے لے۔ اگر کوئی محض اپنی اپچ سے کسی معلوم اخلاقی قدر کی تعریفِ نو کرے گا تو اسے رد کر دیا جائے گا۔
جو لوگ اخلاق کو موضوعی مانتے ہیں انہیں بھی اسی وقت پذیرائی ملتی ہے جب کوئی معاشرہ اجتماعی دانش کی سطح پر اخلاقیات کو موضوعی مان لیتا ہے۔ انفرادی سطح پر ان کے لیے بھی ممکن نہیں کہ کسی قدر کی اپنے طور پر تعریف کریں اور اسے قبول کر لیا جائے۔ ان کا یہ حق تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں لیکن معاشرہ ان کے ساتھ معاملہ اپنے نظامِ اخلاق ہی کے تحت کرے گا۔
ایک مسلمان معاشرے میں مرنے والے کی تجہیز و تدفین مسلم روایت کے مطابق ہوگی۔ میں نے ان لوگوں کی موت پر سوم اور چہلم کے اجتماعات دیکھے ہیں جو تمام عمر ان رسوم کو بدعت کہتے رہے۔ اسی طرح جو نکاح کے ادارے پر یقین نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے بھی ممکن نہیں کہ اس سے باہر رہتے ہوئے بچے پیدا کریں۔ اپنے اس حق کو منوانے کے لیے، انہیں پہلے اس بات کو بطور قدر منوانا ہوگا جیسے مغرب میں مان لیا گیا ہے۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ لوگ جب انفرادی سطح پر اخلاقیات کی تعریف کرتے ہیں تو وہ خلطِ مبحث پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ اپنا مقدمہ تو وہ کمزور کرتے ہی ہیں۔ میں کسی رائج رویے پر نقد کرتے ہوئے یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ مذہب کے خلاف ہے، لیکن اس کے لیے مجھے مذہب سے دلیل لانا ہو گی یا اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ عقل سے متصادم ہے تو مجھے کوئی عقلی استدلال سامنے لانا ہوگا۔ اس باب میں کسی نئی بات کی قبولیت تب ہی ممکن ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اجتماعی سطح پر مذہب یا عقل کوایک ا خلاقی نظام کی بنیاد کے طورپر قبول کر چکے ہیں۔
اس طرح کی باتیں اسی وقت کہی جاتی ہیں جب سوچ وفکر کو کوئی مربوط نظام پس منظر میں موجود نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ نالے کوایک خاص وقت تک جگر میں تھاما نہ جائے تو وہ خام رہ جاتا ہے۔ فکر کے دریا اسی وقت بہتے ہیں جب فکری ریاضت کے بعد کوئی بات کہی جائے۔ ورنہ سراب کے سوا کچھ نہیں۔ فکری تبدیلی اقوالِ زریں کے کسی مجموعے سے نہیں آتی‘ اس کے لیے کوئی 'داس کیپیٹل‘ لکھنا پڑتی ہے۔