علامہ اقبال نے جس منظر کو تاریخ کے عبرت کدے میں دیکھا، منیر نیازی نے اس کا مشاہدہ نہاں خانہ دل میں کیا۔ تناظر مختلف ہے مگر واردات ایک ہے۔ پہلے اقبال کی سنیے:
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
رہی منیر نیازی کی نظم تو وہ کسے یاد نہیں 'ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘۔
قومیں تاریخ سے بچھڑ جائیں تو اس کی سزا کئی نسلوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ تادیر اس کا تازیانہ برستا رہتا ہے۔ فرد اگر بروقت فیصلہ نہ کر سکے تو عمر کم ہی تلافی کا موقع دیتی ہے۔ اداسی میں لپٹا ہوا پچھتاوا شریکِ حیات بن جاتا ہے جو قبر تک ساتھ نبھاتا ہے۔ جہاں پچھتاوا نہیں، وہاں زیاں تو ہے۔ ایک احساسِ زیاں مجھے بھی ہے۔
انٹرنیٹ نے انسانی سماج کو بدل ڈالا۔ مجھے اس کا ادراک ابتدا ہی میں ہو گیا تھا۔ اس کے باوصف مجھے اس سے راہ و رسم قائم کرنے میں کئی سال لگے۔ یہ روایت پسند آدمی کا مسئلہ ہے کہ وہ ہر نئی چیز کو تشکیک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کا داخلی مدافعتی نظام، ایسے موقع پر متحرک ہو جاتا ہے جب جدت کا کوئی وائرس، اس کے تہذیبی وجود سے آ لپٹتا ہے۔
دیکھئے، میں نے بھی ابلاغ کے لیے مثالیں کہاں سے اٹھائیں؟ وائرس، مدافعتی نظام... یہ سب کورونا کی عطا ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، زبان اور محاورے اسی طرح واقعات سے اثر قبول کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب سے پہلے سیاست میں وکٹیں کہاں گرتی تھیں؟ کچھ لوگ اب بھی اس محاورے میں کلام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ عام آدمی مگر اس کا عادی ہو چکا۔ اس کو معلوم ہے کہ سیاست میں وکٹ گرتی ہے تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے۔ نئی باتیں، اسی طرح بن بلائے مہمان کی طرح ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہم انہیں قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تجربہ یہ ہے کہ کسی بات کا چلن ہو جائے تو پھر گریز کام نہیں آتا۔ ٹیکنالوجی کا معاملہ تو اس سے کہیں آگے ہے۔ اس نے جدت کو ضرورت میں بدل دیا ہے۔ ایک نیا اندازِ حیات، جس میں انٹرنیٹ کی حیثیت بنیادی پتھر کی ہے۔ ایسے ہی جیسے پہیے کے دور میں پہیہ اور زرعی عہد میں زمین۔ اب ٹیکنالوجی کو کوئی لاکھ مغربی سازش کہتا رہا، وہ اس کے وجود سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بے نیازی تو دور کی بات، ایک قدم چل نہیں سکتا۔
مسلمانوں میں، عرفِ عام میں پڑھے لکھے کئی افراد، آج تک یہ خیال کرتے ہیں کہ سماجی علوم کی تشکیل مغرب کی کوئی سازش ہے۔ یہ ایک استعماری ایجنڈا ہے۔ سائنس ایک سازش ہے۔ نیا سیاسی نظم ایک سازش ہے۔ روشن خیالی تو ہے ہی سازش۔ جدیدیت تو اکثر کے ہاں سازش ہے۔ یوں وہ ہر ایسے علم یا فلسفے سے دور رہنے کی بات کرتے ہیں جن میں ان باتوں کا گزر ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کسی مغربی ملک میں رہتے ہیں یا کسی مغربی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک لمحہ بھی اب انٹرنیٹ کے بغیر نہیں گزر سکتا۔
یہ بات اس حد تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ سماجی علوم جس تہذیبی پس منظر میں جنم لیں گے، اس کے اثرات کو قبول کریں گے۔ ہمیں اگر ان سے استفادہ کرنا ہے تو اس بات کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ یہ بات لیکن سمجھ میں نہیں آتی کہ علم نے جو سفر طے کیا ہے، اس کی نفی کر دی جائے۔ مثال کے طور پر علوم کی تقسیم۔ علم کو اب مختلف علوم میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب معلومات کا اس طرح وفور ہو تو اس سے استفادے کی کیا کوئی اورصورت ہو سکتی ہے؟ ارسطو اگر آج ہوتا تو وہ بھی مجبور ہوتا کہ کسی ایک شعبہ علم کا انتخاب کرے اور اس میں تخصص پیدا کرے۔
ایک دکان میں اگر اشیا کا اژدھام ہو تو لازم ہوتا ہے کہ انہیں خانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایسا نہ ہو تو محض تلاش میں گھنٹوں ضائع ہو جائیں۔ یہ ضرورت ہے جو سوچ کو کوئی رخ دیتی ہے۔ انسان کو کوئی ترکیب سجھاتی ہے۔ اگر کوئی دکان دار اس کا ادراک نہیں کرے گا تو اس کے گاہک چھٹ جائیں گے۔ وہ اسی دکان کا رخ کریں گے جہاں وقت ضائع کیے بغیر ضرورت کی اشیا خرید سکیں۔ علم کا معاملہ بھی اب کچھ ایسا ہی ہے۔
ابلاغ ہی کو دیکھ لیں۔ خط اور ای میل کا فرق ہمارے سامنے ہے۔ ای میل پلک جھپکنے میں ہمارا خط مکتوب الیہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ اس کے لیے قاصد کا انتظار کیا جائے۔ حضرت سلیمانؑ نے بھی اس درباری کی خدمت کو ترجیح دی جس نے پلک جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاریخ تو پھر ایسے ہی بنتی ہے۔
ای میل کا استعمال میں نے کم و بیش بیس سال پہلے شروع کیا۔ مجھے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم نے اس جانب متوجہ کیا۔ میں اُن دنوں ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ روایت کے آدمی تھے لیکن جدید رجحانات کی تفہیم میں بھی کم لوگ دیکھے جو ان کے ہم پلہ تھے۔ ماضی سے محبت کرنے والے مگر مستقبل بین۔ ہمیں ایسے ہی متوازن ذہن کی ضرورت ہے۔ ظفر اسحاق انصاری مگر کم ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم میں توازن بھی کم ہے۔
یہ اسی عدم توازن کا ایک مظہر ہے کہ میں برسوں ای میل سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ فطری تساہل اگرچہ اس کی سب سے بڑی وجہ رہی مگر اس میں روایت پسندی کا بھی دخل ہے۔ میں اس معاملے میں سازش کے کسی تصور پر یقین نہیں رکھتا مگر روایت پسندی جب مزاج کا حصہ بن جائے تو نئی بات اپنانے میں وقت لگتا ہے۔ کچھ شک بھی ہوتا ہے جو خوف کو جنم دیتا ہے۔ میں آج بھی لکھتے وقت انگریزی الفاظ کے استعمال سے دانستہ گریز کرتا ہوں اور ان کے اردو مترادفات تلاش کرتا ہوں۔ ابلاغ کے نقطہ نظر سے یہ لازم نہیں ہے۔ انگریزی کے بہت سے الفاظ اب اردو لغت کا حصہ بن چکے جنہیں لوگ بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں۔ میری روایت پسندی مگر مجھے ا س سے روکتی ہے۔
وجہ جو بھی ہو، نتیجہ ایک ہی ہے۔ یہ جدت سے گھبرانا ہو، جیسے اقبال نے بیان کیا یا یہ افتادِ طبع کا مسئلہ ہو، جس کا ذکر منیر نیازی کر رہے ہیں، دونوں صورتوں میں، آدمی قافلے سے بچھڑ جاتا ہے۔ قوم ہو تو تاریخ کے قافلے سے اور فرد ہو تو محبوب کے قافلے سے۔ زندگی حرکت کا نام ہے اور وہی زندہ ہے جو حرکت کرتا ہے۔ جمود فکری ہو یا جسمانی، نتیجہ موت ہے۔
چند ماہ پہلے خیال آیا کہ مجھے ابلاغ کے اس نئے ذریعے، سوشل میڈیا پر متحرک ہونا چاہیے۔ یہ خیال اس مجبوری سے آیا کہ الیکٹرانک میڈیا اپنی بقا کا آخری معرکہ لڑ رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کا قصہ تو اس سے بھی قدیم ہے۔ دیگر جبر اس کے علاوہ ہیں۔ دنیا سوشل میڈیا میں سکڑتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں کہیے کہ ایک جبر ہے جو اس طرف دھکیل رہا ہے۔ سوچتا ہوں، اگر میں چند سال پہلے، مستقبل بینی کے ساتھ، اس وادی میں قدم رکھتا تو کہیں بہتر ہوتا ہے۔ مجھے پچھتاوا نہیں، مگر احساسِ زیاں تو ہے۔ تاریخ کے جبر سے بچنے کی بھی یہی صورت ہے کہ اس سے ہم قدم ہوا جائے، اس سے پہلے کہ وہ کسی اغوا کار کی طرح، آپ کا بازو پکڑ کر، آپ سے پوچھے بغیر ساتھ لے جائے۔
اجتماعی سطح پر، لازم ہے کہ ہم علامہ اقبال کی بات پر کان دھریں۔ انفرادی سطح پر منیر نیازی کی بات عام آدمی کے لیے زیادہ قابلِ فہم ہے۔ نجی زندگی کے بہت سے فیصلوں میں جب ہم تاخیر کرتے ہیں تو پھر پچھتاوے کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ پچھتاوا قومی ہو یا افرادی، ہوتا بہت تکلیف دہ ہے۔