کورونا کے دنوں میں قربانی کیسے ہو گی؟
آج کا سب سے اہم سوال یہی ہے۔ اس کا مخاطب حکومت بھی ہے اور معاشرہ بھی۔ خواص بھی اور عوام بھی۔ علما اور بھی عامی بھی۔ سب کو سوچنا ہے کہ وبا کے دنوں میں سب کو بروئے کار آنا ہے۔ تنہا حکومت کچھ نہیں کر سکتی اگر عوام ساتھ نہ دیں اور عوام بھی کچھ نہیں کر سکتے اگر حکومت کوئی واضح حکمتِ عملی طے نہ کرے۔ مذہب اور معیشت، دو اہم امور قربانی کے ساتھ جڑے ہیں۔ قرآن مجید نے جسے 'ذبحِ عظیم‘ کہا، اس کا منظر ہم دس ذی الحج کو دنیا بھر میں دیکھتے ہیں۔ قربانی کی عبادت، الہامی مذاہب میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اس کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ آدم کے دو بیٹوں نے خدا کے حضور میں قربانی پیش کی۔ ایک کی قربانی قبول کر لی گئی، دوسرے کی رد کر دی گئی۔ تورات نے بھی اس کا بیان کیا؛ تاہم اسے 'ذبحِ عظیم‘ سیدنا ابراہیمؑ کی قربانی نے بنایا۔
اس کی معاشی اہمیت بھی ہے۔ لوگ سال بھرجانور پالتے ہیں اوران دنوں کا انتظار کرتے ہیں جب ملک بھر میں منڈیاں لگتی ہیں۔ اجناس کے بعد زرعی معیشت کا بڑا انحصار مویشیوں کی خرید و فروخت پر ہے۔ فصل خراب ہو جائے یا مویشی بروقت بک نہ سکیں توکسان کی معیشت تہہ و بالا ہوجاتی ہے۔ یہ معاشی پہلو بھی ایسا ہے جسے نظر انداز کرنا آسان نہیں۔
کورونا نے مگر جو چیلنج کھڑا کر دیا ہے، اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ان دنوں یہ وبا اپنے عروج پرہے۔ اندازہ ہے کہ اگست کے وسط تک اس کے جوش میں کمی نہیں آئے گی، مگر یہ کہ پروردگار چاہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی مناسک ورسوم ہی نہیں، معیشت بھی اس کی زد میں ہے۔ یہ معاملات اجتہاد کے متقاضی ہیں۔ تفقہ فی الدین ہی نہیں، تفقہ فی الدنیا بھی لازم ہو چکا۔
مذہب کے باب میں ان لوگوں کافرمایا مستند ہونا چاہیے جنہیں تفقہ فی الدین حاصل ہے۔ پاکستان کے استثنا کے ساتھ، دنیا بھر کے علما متفق تھے کہ چونکہ انسانی جان بچانا دین کا اولیں تقاضا ہے، اس لیے بیت اللہ سمیت سب مساجد کو بند کردیا جائے۔ یہی نہیں،اس بار حج کا عالمگیر اجتماع بھی منعقد نہیں ہورہا۔ نماز اورحج فرض عبادات ہیں۔ یہ ایمان کا معیار ہیں۔ جو نماز نہ پڑھے اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرے، اس کا ایمان معتبر نہیں رہتا۔ اس اہمیت کے باوصف، نمازکو باقی رکھا گیا مگراسے گھروں تک محدود کر دیا گیا۔ حج بھی ہوگا مگرآفاقی زائرین کے بغیر۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کی عبادت بھی زندہ رہے گی مگر نئے حالات کی رعایت رکھتے ہوئے۔ علما کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس باب میں کیا راہنمائی دیتے ہیں۔
جہاں تک ہماری علمی روایت کا تعلق ہے، جمہور کے نزدیک قربانی واجب نہیں ہے۔ انفرادی سطح پر مستحب تو ہے لیکن اسے نماز حج کی طرح فرض نہیں کہا جاسکتا۔ احناف میں قاضی ابو یوسف اور امام محمد کا موقف بھی یہی ہے۔ اگرایک اجتماعیت کا نمائندہ قربانی دے دے تویہ قربانی اس عبادت کے زندہ رکھنے کے لیے کفایت کرے گی۔ یہ نمائندہ گھر کا سربراہ ہو سکتا ہے اور ایک ملک کا بھی۔ احناف کا موقف یہ ہے کہ قربانی واجب ہے۔ یہ ہر صاحبِ نصاب کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ فقہ حنفی کی اکثریت ہے، اس لیے اس رائے کا غلبہ ہے۔ یہ اب حنفی علما کا امتحان ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں یا اپنے فقہی موقف کو؟ علما جو اکثر مدارس سے متعلق ہیں، ان کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہے اور اس کی ایک خاص وجہ ہے، جس کا آگے ذکر ہو گا۔
ہم جانتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں مویشی پالنے والے گاؤں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ہر شہر میں بڑی بڑی منڈیاں آباد ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں جانور اور ان کے ساتھ سینکڑوں افراد عارضی نقلِ مکانی کرتے ہیں۔ اس سے سماجی اختلاط کا ایک بڑا موقع پیدا ہوتا ہے، جس سے گریز ناممکن ہے۔ یہ معلوم ہے کہ یہ اس وبا کے عروج کے دن ہیں۔ یہ اختلاط کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
اس باب میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اس اختلاط کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ساتھ عوام کی بھی۔ رمضان اور عید کے دنوں میں جو بے احتیاطی ہوئی، اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اگر ہم اس کو دہرانے پر اصرار کریں گے تو یہ اجتماعی خود کشی ہوگی۔ اس لیے لازم ہے کہ اس بارے میں ابھی سے کوئی دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے۔
علما کیلئے یہ فیصلہ کیوں مشکل ہے؟ اس کی ایک وجہ معاشی ہے۔ مدارس کی معیشت کا بڑا انحصار قربانی کی کھالوں پر ہے۔ اگر قربانی کو محدود کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ مدارس کی آمدن کم ہو جائے گی۔ علما کو یہ دیکھنا ہے کہ دین کی روح کیا تقاضا کرتی ہے؟ اپنی فقہی مسلک اور معاشی ضروریات کا لحاظ یا انسانی جان کی حفاظت؟ رہی قومی معیشت کی بات تو وہ میں واضح کر چکا۔ اس کے ساتھ زراعت سے متعلق افراد کی معیشت وابستہ ہے۔حکومت کو انکے مفاد کو بھی سامنے رکھنا ہے۔یہ وہ پیچیدہ صورتحال میں جس میں سب کو مل کر فیصلہ کرنا ہے۔
میری تجویزیہ ہوگی کہ اس سال قربانی کو محدود کر دیا جائے۔ شہروں کے باہر منڈیوں پر پابندی لگا دی جائے اور حج کی طرح قربانی کا اہتمام ریاستی سطح پرہو۔ صرف گھرکا سربراہ قربانی کرے۔ وہ حکومت کو مقررہ رقم فراہم کردے،بکرے اور گائے کی قیمت کی رعایت سے۔ حکومت سرکاری مشینری کی ذریعے قربانی اور متعلقہ گھروں میں گوشت پہنچانے کا اہتمام کرے۔ اگر یہ انتظام ہر شہر کی سطح پر ہو تو قابلِ عمل ہے۔ بڑے شہروں کو ایک سے زائد حلقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
جو لوگ اس کے بعد قربانی پر اصرار کریں،ان کو یہ کہا جائے کہ اس پیسے کو انفاق کردیں۔ وہ چاہیں تو رقم کسی مدرسے کو دے دیں۔ چاہیں تو کسی رفاہی ادارے کو۔ بہتر ہو گا کہ اس موقع پر ایسے اداروں کو یہ رقم دے دی جائے جو کورونا کے معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سے قربانی کا جذبہ بھی زندہ رہے گا اور یہ عبادت بھی۔
مدارس کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک تو ان پانچ ارب روپے کو استعمال کیا جائے جو اس سال بجٹ میں ان کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مدارس کو بجلی گیس کے بلوں پر سبسڈی دی جائے جس کا ان کی طرف سے مطالبہ ہورہا ہے۔ اس سے ان کے اُس نقصان کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی جو قربانی کی کھالیں نہ ملنے سے انہیں پہنچے گا۔
رہا ان کا نقصان جنہوں نے اس خاص موقع کیلئے مویشی پالے ہیں تو اس کا بھی جائزہ لیاجائے۔ سرکاری مشینری، بالخصوص پٹواری نظام کی مدد سے ان کا سروے کیا جائے اور نقصان کی تلافی کا اہتمام کیا جائے۔ یہ تلافی بھی پوری طرح نہیں ہو پائے گی؛ تاہم اگر کچھ ازالہ ہوجائے تو وہ بڑے نقصان سے بچ جائیں گے۔ موجودہ حالات میں تو سب ہی خسارے میں ہیں۔ اب وقت ہے کہ اس خسارے کو حکومت اور عوام آپس میں بانٹ لیں۔
یہ وقت ہے اجتہاد کا، دین میں بھی اور امورِ دنیا میں بھی۔ قربانی کے معاملے کو ابھی سے موضوع بنانا ہوگا تاکہ وقت سے پہلے عوام کی تربیت ہو سکے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو بھی تسلی مل سکے جو منڈی لگنے کے منتظر ہیں، جب ان کے جانور فروخت ہوں گے اور ان کے معاشی مسائل حل ہونے کی صورت پیدا ہو گی۔ یہ علما کی آزمائش ہے اور حکومت کی بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سرخرو کرے۔