عمران خان کے بعد کیا ہو گا؟
میں جب بھی اس سوال پر غور کرتا ہوں، ملک کو ایک بند گلی میں پاتا ہوں۔ اب یہ سوال ایسا نہیں رہا کہ اِس سے فرار ممکن ہو۔ اُس سوال سے فرار ممکن کیسے ہو سکتا ہے، جب اس کی صدائے بازگشت سے خوداقتدار کے ایوان گونج اٹھیں۔ جب اقتدار کی غلام گردشوں میں سپاہی خوف سے دوڑتے پھرتے ہوں۔ سچ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت تک یہ آواز اسی وقت پہنچی جب حکومتی قلعے کی فصیلوں نے اسے روکنے سے انکار کر دیا۔
وزیر اعظم کے منصب پر جلوہ افروز شخص بھی چھ ماہ بعد اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہا ہے۔ وہ اعوان وانصار کو متنبہ کر رہا ہے کہ اُن کی مہلتِ عمل ختم ہونے والی ہے۔ وہ مہلت جو 2023ء میں ختم ہونا تھی، 2020 ء میں تمام ہو رہی ہے۔ خان صاحب کو آخر کس سے خطرہ ہے؟
اپوزیشن سے؟ اس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ اتنی کمزور اور بے ہمت اپوزیشن کسی خوش قسمت حکومت ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ ایسی حزبِ اختلاف پر تو اربابِ اقتدار شکرانے کے نوافل پڑھیں۔ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اپوزیشن تعاون کا کشکول اٹھائے درِ اقتدار پر کھڑی رہی اور کوئی بھیک دینے کو تیار نہیں ہوا۔ دریوزہ گری کی ایسی مثال، سیاست میں ناپید ہے۔ اس لیے کوئی صاحبِ عقل تو یہ مان نہیں سکتا کہ خان صاحب کو اس اپوزیشن سے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟
تو کیا عوام؟غمِ روزگار میں گھلتے ہوئے عوام سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ جس کی اکثریت اس اندیشے سے آزاد نہیں ہو سکتی کہ کل کھانا میسر ہو گا یا نہیں؟ اس پر روزگار کے دروازے بند ہو رہے ہیں۔ جہاں ترقی کی شرح منفی ہو،وہاں کون سا کاروبار اورکیسا روزگار؟ وہ نسل اب رومان سے نکل کر عملی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے جس کے جوان جذبوں کو بیچ کر اقتدارخریدا گیا۔ اسے اب معلوم ہونا ہے کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔
اسے روزگار چاہیے۔ اسے خواب کی تعبیر چاہیے۔ اس کی تاریک جبین پر امیدکے جو ستارے ٹانکے گئے تھے،انہیں چمکنے کے لیے آسمان چاہیے۔ اس کے دل میں آرزو کا جو چراغ روشن کیا گیاتھا، انہیں طاق چاہیے کہ ان کا اجالا پھیلے۔ اب دوردور تک خلا ہے، کوئی آسمان ہے نہ کوئی افق۔ اب تو پاؤں تلے سے زمین بھی سرک رہی ہے۔ جب کسی ملک کی شرحِ نمو منفی ہوجائے تو پھر زمین اسی طرح صحرا بن جاتی ہے۔ ایسے بے دست و پاعوام سے حکومت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
نہ عوام نہ اپوزیشن تو پھر خطرہ کہاں سے ہے؟ یہی سوال ہے جو مجھے بند گلی میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اس حکومت کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال پر غور کریں توچشمِ تصور کے سامنے دو ہی منظر ابھرتے ہیں: ایک یہ کہ اپوزیشن اتنی منظم اور بیدار مغز ہوکہ پارلیمنٹ کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنا لے۔ اتحادی‘ جواکثریتی پارٹی کی حمایت سے دست بردار ہو رہے ہیں‘ اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں اور یوں پارلیمنٹ میں طاقت کا پلڑا دوسری طرف جھک جائے۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ عوام کا اضطراب انہیں سڑکوں پر لا کھڑا کرے۔ گھر کی زندگی جیل سے بدتر ہو اور لوگ زنداں کی صعوبتوں کو آزاد زندگی کے دکھوں سے کم تکلیف دہ سمجھیں۔ یہی نہیں، ان کا کوئی لیڈر بھی ہو جو انہیں متبادل قیادت فراہم کرے۔ عوام کی بے چینی اس سطح تک پہنچ جائے کہ ایوانِ اقتدار کے مکینوں کی رخصتی کے بغیر زندگی معمول کی طرف لوٹنے سے انکار کر دے۔
یہ دونوں امکانات اس وقت موجود نہیں۔ حکومت کے اتحادی چھٹ رہے ہیں لیکن ملک میں کوئی اپوزیشن ہی نہیں جو انہیں اپنے ساتھ ملا سکے۔ جو ماضی میں 'اتحادِ امت‘ کی یہ خدمت سر انجام دیتے تھے، سرِ دست متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔ اسی طرح عوام مضطرب ضرور ہیں لیکن ان کے سامنے کوئی متبادل نہیں۔ جو متبادل ہو سکتے تھے، وہ خاموش ہیں یا قرنطینہ میں ہیں۔ اسی لیے یہ سوال حل طلب ہے کہ حکومت کو خطرہ کس سے ہے؟
میں جب اس سوال پر ملک کی تاریخ کی روشنی میں غور کرتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ ماضی میں جب کبھی ہمیں ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوا تو ہم بند گلی میں جا کھڑے ہوئے۔ اس بند گلی سے کبھی ضیاالحق برآمد ہوئے اور کبھی پرویزمشرف۔ ممکن ہے اس بار ویسا نہ ہو لیکن یہ طے ہے کہ بند گلی سے کوئی فطری حل نہیں نکل سکتا۔ اگر وہ نہ ہوا جو ماضی میں ہوا تھا تو کوئی اُس جیسا ہو گا۔ جب فطری راستے بند ہو جائیں تب یہی ہوتا ہے۔
آج ملک کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا گیا ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 'عمران خان کے بعد...؟‘ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب موجود نہیں۔ اگر ہے بھی تو بہت تشویشناک۔ واقعہ یہ ہے کہ 2016ء کے بعد اس ملک میں ایک ایسی منفرد بساط بچھائی گئی جس میں عوام صرف تماشائی کے طور پر شریک تھے۔ ان کی جیت کا کوئی سوال نہیں تھا جب وہ کھیل میں شامل ہی تھے۔
اس لیے یہ سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ چھ ماہ کے بعد کیا ہو گا؟ کیا اس بار بند گلی سے کوئی صدارتی نظام برآمد ہو گا؟ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آئین میں اس کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ پاکستانی تاریخ کو دیکھیے تو یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جس ملک میں ایک آئینی صدر کی موجودگی میں ایک ماتحت سرکاری اہل کار ملک کا صدر بن سکتا ہے، وہاں کیا نہیں ہو سکتا؟
میں نے برادرِ مکرم عرفان صدیقی کا سلسلہ مضامین پڑھا تو چونک اٹھا۔ کبھی دھیان اس طرف نہیں گیاتھا کہ اس ملک میں یہ بھی ہوچکا۔ اس کے بعد صدارتی نظام کیا،کسی بات پر بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ تیار رہنا چاہیے کہ بند گلی سے کچھ بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ صدارتی نظام سے آگے کی کوئی چیز بھی۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
میں سیاست میں پیش گوئی کا اب قائل نہیں رہا۔ پیش گوئی وہاں ہوتی ہے جہاں واقعات کا تسلسل، غلط یا صحیح، کسی نظم کا پابندہو۔ جس ملک میں سیاست کی بساط صبح شام بدلتی ہو اور اقتدارکے کھلاڑی کسی قانون ضابطے کے پابند نہ ہوں وہاں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ چھ ماہ کی بات کوئی پیش گوئی نہیں، عمران خان صاحب کی زبان سے نکلی اور کوٹھے چڑھی ہے۔ اس کوکوٹھے تک پہنچانے میں فواد چوہدری صاحب کی طلاقتِ لسانی کا بھی کردار ہے۔
عمران خان صاحب کے بعد جو کچھ ہے، اس سے زیادہ بھیانک ہے جو ہم 2016ء کے بعد دیکھ چکے۔ ممکن ہے آپ کو حیرت ہو کہ اس سے زیادہ بھیانک کیا ہو سکتا ہے؟ زندگی کی باگ جب ہاتھ سے چھوٹ جائے اور کوئی بڑھ کر اسے سنبھالنے پر آمادہ بھی دکھائی نہ دے تو پھر نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والی کھائی زیادہ گہری ہے یا پچھلی۔ یہ ڈھلوان کا سفر ہے جو رکنے کو نہیں آ رہا۔
لکھتے لکھتے انگلیاں گھس گئیں کہ امورِ ریاست چلانے کے کچھ آداب ہیں۔ یہ آداب انسانوں نے صدیوں کے تجربات سے دریافت کیے۔ ان کی پشت پر الہام کی قوت بھی کھڑی ہے۔ حکومتیں عوام کے اعتماد سے قائم اور ختم ہونی چاہئیں۔ اسی سے سیاسی استحکام آتا ہے۔ جب آئین نے حقوق و فرائض طے کر دیے تو ان کا لحاظ رکھا جائے۔ یہ عام معاملہ نہیں،اس کا تعلق خدا کے سامنے جوابدہی سے بھی ہے۔ ہر سرکاری اہلکار حلف اٹھاتا اور خدا کو حاضروناظر جان کر وعدہ کرتا ہے کہ وہ آئین کا پابند رہے گا۔ بندگلی سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ سیاست کوآئین کے حوالے کر دیا جائے اور ملک کے فیصلے عوام کے ہاتھ میں دے دیے جائیں۔ یہی اس کا فطری راستہ ہے۔ سیاست کا فطری بہاؤ روک دیا جائے تو یہ پانی کسی کنارے کا پابند نہیں رہتا۔