کورونا نے سماج کی اصلاح کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ کیا ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟
حکومت کی کارکردگی پر گفتگو ہوئی۔ معیشت کی بات کی گئی۔ مذہب کا کردار زیرِ بحث آیا۔ سائنس کی ناکامی کا تذکرہ ہوا۔ سماج مگر اُس طرح موضوع نہیں بنا جس طرح بننا چاہیے تھا۔ سماج، بدقسمتی سے ہمارے نظامِ فکر میں وہ جگہ نہیں پاسکا، جس کا وہ مستحق تھا۔ ہماری سوچ ریاست کے گرد گھومتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا علمی دامن سماجی علوم سے خالی ہے۔
کورونا کا معاملہ ہنوز تشکیک اور بے یقینی میں لپٹا ہوا ہے۔ بظاہر کمی کے آثار ہیں مگر کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ مسلسل اتار چڑھاؤ ہے۔ سائنس دان رات دن بحرِ تحقیق میں غوطہ زن ہیں مگر گوہرِ مراد ابھی تک ہاتھ نہیں آیا۔ یہ وائرس کب ختم ہوگا؟ اس کی عمر کتنی ہے؟ کیا دنیا کواس کے خاتمے کی خوشخبری سنائی جا سکتی ہے؟ کسی کے پاس کسی سوال کا حتمی جواب نہیں۔ صرف قیاس آرائیاں ہیں اور تخمینے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی تنبیہات کا سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ بایں ہمہ، دنیا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کچھ پابندیوں کے ساتھ زندگی کو رواں دواں رکھنا ہے۔ ہماری حکومت کا فیصلہ بھی یہی ہے۔ بازار کھل رہے ہیں۔ عبادت گاہیں آباد ہو رہی ہیں۔ تعمیرات ہونے لگی ہیں اور اب شاید ہی کوئی شعبۂ حیات ایساہو جہاں سرگرمی نہ ہو۔ ان سرگرمیوں کو بحال کرتے وقت، ہم موجود فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، کچھ سماجی اصلاحات کر سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک بڑے طبقے میں آمادگی موجود ہے یا کم از کم کسی بڑی مزاحمت کا امکان نہیں ہے۔
مثال کے طور پر شادی ہال کھول دیے گئے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ مہمانوں کی تعداد بھی متعین کر دی جاتی اوراس پر عمل درآمد کے لیے قانون کا سخت پہرا بٹھا دیا جاتا تو سماج کو ایک ایسی مشقت سے بچایا جا سکتا تھاجس میں ہر کوئی خواہی نخواہی مبتلا ہے۔
آج صورت حال کچھ یوں ہے کہ شادیاں جلسہ عام کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ لوگ شادیوں میں ہر اس آدمی کو بلانا ضروری سمجھتے ہیں جس کا نام ان کی یادداشت میں محفوظ ہے یا ٹیلی فون ڈائریکٹری میں درج ہے۔ سب سے بڑھ کر مختلف شعبوں کی نامور شخصیات کو مدعو کرنا توایک ایسی بدعت بن چکا ہے جس کا کوئی جواز مجھے سمجھ نہیں آیا۔ اب تقریب میں میزبان کا زیادہ وقت خصوصی مہمانوں کی مدارات میں گزر جاتا ہے اور یوں اس کی احساسِ کمتری کا اشتہار بن جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک ایسی شادی میں شرکت کا موقع ملا۔ تقریب میں اتنا رش تھا کہ باوجود کوشش کے، میں تادیر میزبان کو تلاش نہیں کرسکا۔ اب ملنا بھی ضروری تھاکہ مبارکباد ان تک پہنچ جائے۔ بڑی مشکل سے ہاتھ آئے۔ چند لمحوں میں انہیں لفافہ تھمایا اور باہر کی را ہ لی کہ اس سے زیادہ ان کے قریب رکنا ممکن نہیں تھا۔
میں کئی دن تک سوچتا رہاکہ آخر اتنے لوگوں کو انہوں نے کیوں بلایا؟ بیٹے کی شادی ایک خاندانی تقریب ہوتی ہے۔ اس میں عزیزواقارب کو بلا نا چاہیے اور یا پھر قریب ترین دوستوں کو۔ اراکینِ اسمبلی یا وزرا کو بلانے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ یہ محض ایک واقعہ نہیں، آپ سب کو آئے دن ایسی تقریبات میں شرکت کرنا پڑتی ہو گی جس کا حاصل سماجی مشقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پُرہجوم شادیوں نے ناگزیر سماجی برائی کی صورت اختیار کر لی ہے اور عام آدمی بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بلانے پر مجبور ہے۔ وہ بھی اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے نامور لوگوں کو بلانا چاہتا ہے۔ پھر ان کے ساتھ تصویریں بناتا اور فیس بک پر آویزاں کر دیتا ہے۔ یوں اس کے سب جاننے والوں کوخبر ہوجاتی ہے کہ فلاں صاحب یا صاحبہ اس کی تقریب میں شریک ہوئے۔
اس سے عام آدمی کی معیشت پر غیر معمولی بوجھ پڑتا ہے۔ شادی کی دیگر اخراجات میں جو ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے، اس کا تو یہاں ذکر نہیں۔ صرف مہمانوں کی خاطر مدارت پر لاکھوں خرچ ہو جاتے ہیں۔ یوں ایک عام آدمی بھی، صرف دیکھا دیکھی میں، اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھتا ہے۔ ایک عام شہری کے لیے جائز آمدن کے ساتھ تو یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اس سے معاشی بدعنوانی کا راستہ کھلتا ہے۔
حکومت نے جب شادی ہال کھولنے کا فیصلہ کیا تو اسے چاہیے تھاکہ مہمانوں کی تعداد متعین کر دیتی۔ حکومت نے معاشی سرگرمی کے لیے اور اِس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے مطالبے پر جب یہ پابندی اٹھائی تو شادی ہال والوں کو پابند کر دینا چاہیے تھاکہ وہ پچاس سے زیادہ مہمانوں کا اجتماع نہیں کریں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ قریب ترین رشتہ داراور احباب ہی شادی کی تقریبات میں شریک ہوسکتے۔ اس طرح ہم ایک ناگزیر سماجی برائی سے نجات پا سکتے تھے۔
سماجی تبدیلی، عام طور پر قانون سے نہیں آتی۔ اس کے لیے سماج کی سوچ کو بدلنا پڑتا ہے۔ یہ کام سماجی سطح پر آگاہی پیدا کرنے سے ہوتا ہے؛ تاہم تاریخ، مدت بعد، ایسے مواقع پیدا کر دیتی ہے جب کوئی بڑی تبدیلی سماجی رویوں اور سوچ پر غیر معمولی اثر ڈالتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر قانون کی معاونت سے ایک تبدیلی کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
ہم پر ایک وقت ایسا آیا کہ عبادت گاہوں کے لاؤڈ سپیکر سماجی سکون کیلئے عذاب بن گئے تھے۔ پہلے لوگ مساجد کے قریب گھر تلاش کرتے تھے۔ لاؤڈ سپیکر کے غیر محتاط استعمال کے باعث ان کی ترجیح تبدیل ہو گئی۔ اب گھر لیتے وقت لوگ پوچھنے لگے: قریب کوئی مسجد تو نہیں؟ جب دہشتگردی کے عفریت نے ہماری بستیوں کو اجاڑنا شروع کیا اور یہ معلوم ہوا کہ یہ فرقہ واریت کی فضا میں نمو پاتا ہے جس کو طاری کرنے میں لاؤڈ سپیکر کا بھی ایک کردار ہے تو اس کے سوئے استعمال کو روکنے کا موقع پیدا ہو گیا۔یہ وہ وقت تھا جب سماج اس تبدیلی کیلئے تیار تھا اور کوئی اگر مزاحمت کرتا تو سماجی سطح پر اس کے حق میں کوئی آواز نہ اٹھتی۔ حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور لاؤڈ سپیکر کا استعمال اذان تک محدود کر دیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب لوگ آرام سے سو سکتے ہیں اور مسجد کے قریب گھر ڈھونڈتے ہیں۔حکومت بروقت فیصلہ نہ کرتی تو شاید یہ موقع پھر ہاتھ نہ آتا۔
اب پھر ایک موقع پیدا ہوا ہے جب شادی بیاہ کی اصلاح طلب رسموں کے بارے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ اگر آج شادی کے مہمانوں کی تعداد متعین کر دی جائے تو کسی بڑی سماجی مزاحمت کا امکان نہیں۔ تھوڑا عرصہ پابندی رہی تو ان شااللہ اسے قبولیت عام مل جائے گی۔ لوگ جب ایک غیر ضروری مشقت سے نکلیں گے تو اس پابندی کی افادیت کو جان لیں گے۔
قانون زبردستی نافذ نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے سماج کو تیار کیا جاتا ہے۔ سماج کی تیاری کا ایک کام وہ ہے جو مصلحین کرتے ہیں۔ یہ وقت طلب اورصبر آزما ہے۔ ایک کام وہ ہے جو قدرت اپنی مداخلت سے کرتی ہے۔ کوئی ہنگامی صورت حال، کوئی آفت، عوامی سوچ پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتی ہے۔ کورونا نے سماجی تبدیلی کا ایک موقع ہمیں دے دیا ہے۔ فطرت کے ساتھ تصادم، معمولاتِ زندگی کا عدم توازن، ٹیکنالوجی کا استعمال اور مذہب و سائنس کے باب میں فکری مغالطوں سمیت، کئی موضوعات ایسے ہیں جن پر ایک نیا زاویہ نظر، سماجی سوچ کو ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔
آغاز شادی میں مہمانوں کی تعداد مقرر کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔ عباد ت گاہوں میں تعداد متعین کی جا سکتی ہے تو سماجی تقریبات میں کیوں نہیں؟ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومتی سطح پر کوئی سوچے اور ایسے اقدامات کی فہرست بنائے جو کورونا کی وجہ سے کئے جا سکتے ہیں اور جن سے سماج کی سمت کو درست کیا جا سکتا ہے۔ ضرب اسی وقت کاری ہوتی ہے جب لوہا گرم ہو۔