سیاست کو عزت ملے گی تو اپوزیشن کو عزت ملے گی۔ اپوزیشن ہی کو نہیں، میڈیا کو بھی۔
سرتوڑ کوشش جاری ہے کہ سیاست دانوں کی آڑ میں سیاست اور صحافیوں کی آڑ میں صحافت کو گالی بنا دیا جائے۔ سیاست دانوں کے لیے 'چور‘ اور صحافیوں کے لیے 'لفافہ‘ کی اصطلاحیں ایک ہی ٹکسال میں ڈھلی ہیں۔ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست گئی تو صحافت بھی گئی۔
ہر روز، صرف سیاست دانوں کی کرپشن کی سچی جھوٹی داستانیں سنانے والے ہمارے بھائی یہ نہیں جانتے کہ وہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جن پر ان کا آشیانہ ہے۔ رات کی تاریکیوں میں خفیہ ملاقاتیں کرنے والے سیاست دان بھی بے خبر ہیں کہ وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ دونوں دانستہ یا نادانستہ سیاست کوکمزور کررہے ہیں۔ بطور خاص، اپوزیشن کو کیا اس کا اندازہ ہے؟
''دنیا‘‘ کے باخبر رپورٹر طارق عزیز اطلاع دے چکے کہ ''میثاقِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک نیا اتحاد معرضِ وجود میں آرہا ہے۔ اس خبر کے بعد شہباز شریف صاحب کی زرداری صاحب سے ملاقات بھی ہو گئی۔ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن بھی رابطے میں ہیں۔ کیا یہ سب مل کر اُس سیاست کو بچا پائیں گے جو عالمِ نزع میں ہے؟
سیاست کیا ہے؟ نظمِ اجتماعی کی تشکیل کا فن۔ ایک ریاست کے معاملات کیسے چلیں گے؟ اقتدار کس کے پاس ہوگا اور کس اصول پر؟ اربابِ اقتدار کے عزل و نصب کا پیمانہ کیا ہوگا؟ حقوق کا تحفظ کیسے ہوگا؟ قانون سازی کا اختیار کس کے پاس ہوگا؟ قانون کی پاس داری کیسے ہوگی؟ جب یہ سوالات زیرِ بحث آتے ہیں تو سیاست جنم لیتی ہے۔ اگر نہ آئیں توجان لیناچاہیے کہ سیاست دم توڑ چکی یا قریب المرگ ہے۔
سیاست خلوت میں انجام پانے والا عمل نہیں ہے۔ جب ابلاغ کے جدید ذرائع میسر نہیں تھے، تب بھی عام آدمی کو اس میں شریک کیا جاتا تھا۔ ایک ہرکارہ گلی بازار میں ہانکا لگاتا اور حکومت کے احکام عام آدمی تک پہنچ جاتے۔ چوپالوں اور بیٹھکوں میں لوگ ان کے بارے میں بات کرتے۔ اگریہ عمل رک جائے اور سیاسی فیصلے بند کمروں میں ہونے لگیں‘ اگر صحافی سچ لکھنے اور بولنے سے کترانے لگیں کہ کہیں اٹھا نہ لیے جائیں، تو جان لیں کہ سیاست کا باب بند ہوگیا۔
آج ہونے کو سب کچھ ہورہا ہے لیکن دراصل کچھ نہیں ہورہا۔ ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے چنگھاڑ رہے ہیں مگر اس کے باوجود خاموشی ہے۔ فیصلے ہو رہے ہیں اور ان کا ابلاغ بھی ہے لیکن یک طرفہ۔ فیصلہ کرنے والوں کو کسی ردِعمل کا کوئی خوف ہے اور نہ اندیشہ۔ حکومت اپنے سوا کسی کو مانتی ہے نہ جانتی ہے، ہاں مگر ایک کو۔ اس کو سیاست نہیں کہتے۔ یہ کچھ اور ہی ہے جس سے میں بے خبر ہوں۔ سیاسیات کا مضمون میں نے رسماً پڑھا ہے۔ اس میں ڈگری رکھتا ہوں۔ غیر رسمی طور پرتو صبح شام اس سے واسطہ رہتا ہے۔ حکمرانی کے اُن اسالیب سے واقف ہوں، دنیا میں جن کے تجربات ہوئے۔ آج اس ملک میں جو کچھ ہورہا ہے، مجھے اس کی کوئی نظیر کہیں نہیں ملی۔ نہ تاریخ میں‘ نہ معاصر معاشروں میں۔
کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جاری نظام کون سا ہے؟ کیا یہ جمہوریت ہے؟ ہم جانتے ہیں‘ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ جو بھی ہوتی ہے، ویسی بالکل نہیں ہوتی جو یہاں دکھائی دے رہی ہے۔ کیا مارشل لا ہے؟ نہیں کہ مارشل لا بھی ہمارا دیکھا بھالا ہے۔ کیا بادشاہت ہے؟ نہیں، اس لیے کہ بادشاہوں کی ہم نے کہانیاں پڑھ رکھی ہیں۔
حکومت جیسی بھی ہو،کم از کم یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ کون فیصلے کررہا ہے؟ کیا کوئی آج یہ بتا سکتا ہے کہ حقیقی فیصلہ ساز کون ہے؟ اپوزیشن کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ وہ کیا کرتی ہے؟ کم ازکم وہ کچھ نہیں کرتی جو یہاں کررہی ہے۔ کبھی خاموش، کبھی بلند آہنگ۔ کبھی جامد کبھی متحرک۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ جوہری مسائل پر نون لیگ کا موقف کیا ہے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کیا چاہتی ہے؟
یہ سیاسی جماعتیں ہیں جو سیاست کو زندہ رکھتی ہیں۔ آج سیاست کی عزت اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سیاست کو پھر عوام کی طرف لوٹا سکتی ہیں۔ وہی اسے اجتماعی دانش سے آراستہ کر سکتی ہیں۔ وہی جمہوری روایات کا عَلم اٹھا سکتی ہیں۔ وہی میڈیا کی آزادی کیلئے جد وجہد کر سکتی ہیں۔ کیا وہ اس کی اہلیت رکھتی ہیں؟ اگر یہ جماعتیں اہلیت کا مظاہرہ کرتیں تو کیا سیاست یوں سسک رہی ہوتی؟ سیاست پر نزع کا یہ عالم اسی لیے طاری ہے کہ سیاسی جماعتیں ذمہ داری ادا نہیں کر سکیں۔ وہ اپنے وقار کی حفاظت نہ کر سکیں، عوامی رائے کی حفاظت کیا کرتیں؟ آج اگر وہ جمع ہورہی ہیں تو مجھے یہ سوال اٹھانا پڑا کہ کیا وہ سیاست کو پھر سے زندہ کر سکیں گی؟
شہباز شریف اور زرداری صاحب کی سیاست ناکام ہوچکی۔ انہوں نے سیاست کو جتنا نقصان پہنچایا ، شاید ہی کسی نے پہنچایا ہو۔ سیاست اگر عوام کے بجائے خواص کے ہاتھوں میں گئی ہے تواس میں بنیادی کردار ان لوگوں کا ہے۔ انہوں نے غیرجمہوری قوتوں کی سیاسی مداخلت کے لیے سندِ جواز فراہم کی اور عوام کے بجائے اُن سے اقتدارکی بھیک مانگی۔
آج اگر سیاست کو عزت ملے گی تو اس بنیاد پرکہ اس کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں نہ کہ خواص؟ شہباز شریف یا زرداری صاحب کی قیادت میں یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے اس سیاست کو عوام سے لے کر خواص کے حوالے کیا یا اس کے لیے سہولت کار بنے۔ سیاست کی بحالی وہی کر سکتا ہے جو ووٹ کو عزت دینے کا علم بردار ہے۔ ووٹ کو عزت ملے گی تو سیاست دانوں کو بھی عزت ملے گی۔ سیاست دانوں کی عزت خدا کے بعد عوام کے ہاتھ میں ہے۔ آج وہ عزت کے لیے کسی اور ہاتھ کی طرف دیکھتے ہیں۔
صحافت بھی اُسی وقت زندہ ہوگی جب سیاست کو عزت ملے گی۔ اس کے لیے سیاست دانوں کی عزت ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کرپشن یا غلط کاموں پر پردہ ڈالا جائے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کرپشن کوایک سماجی عمل کے طور پر دیکھا جائے نہ کہ سیاسی عمل کے طورپر۔ کرپشن کی وجہ سیاست نہیں، سماج کے اخلاقی نظام کا زوال ہے۔ اس کے اثرات صرف سیاست پر نہیں، ہر شعبے پر ہیں۔
چونکہ یہاں سیاست کو گالی بنانا مقصود ہے، اس لیے سیاست اور کرپشن کو لازم و ملزوم بنا دیا گیا ہے۔ یہی رشتہ کرپشن اور صحافت کے درمیان بھی قائم کیا جارہا ہے۔ یوں سیاست اور صحافت دونوں پر نزع کا عالم ہے۔ اسی کو ففتھ جنریشن وارسے جوڑا جا رہاہے۔ سوشل میڈیا کو اس کے لیے جس طرح استعمال کیا گیا، اس کو جاننے کے لیے فیس بک کے تازہ اقدام کو سمجھنا کفایت کرتا ہے جس کے تحت بہت سے اکاؤنٹس کو بند کیا گیا ہے۔
صحافت کو اگر زندہ رہنا ہے تو اسے سیاست کی بحالی کے عمل کا حصہ بننا ہوگا۔ اس وقت سیاست دانوں پر تنقید کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ کون عوام کی سیاست کرتا ہے اور کون اسے خواص کے گھر کی لونڈی بنانے میں معاون کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے بڑی کرپشن کوئی نہیں ہو سکتی۔ رہی پیسے ٹکے کی کرپشن تو اس کیلئے قوانین موجود ہیں۔ اہلِ صحافت کواس پر اصرار کرنا چاہیے کہ اس عمل میں قانونی تقاضے نبھائے جائیں اور یہ تاثر نہ ملے کہ احتساب دراصل سیاسی انتقام کا دوسرا نام ہے۔ زرداری شہباز ملاقات پر اسد عمر طعنے دیں تو سمجھ میں آتا ہے، صحافی دینے لگیں تو حیرت ہوتی ہے۔
آج اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت کو مل کر '' سیاست کو عزت دو‘‘ کا جھنڈا اٹھانا ہوگا کہ اسی میں دونوں کا بھلا ہے اور ملک کا بھی۔