محمد مرسی کا جواں سال بیٹا عبداللہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے قتل کیا گیا۔
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا جسم قید میں تھاکہ ان کی روح آزاد ہوگئی۔ زنداں سے پرواز کر گئی۔ وہ بھی ایک قتل تھا۔ ایک سال پہلے، چار ستمبر2019ء کو، جب پچیس سالہ عبداللہ مرسی دنیا سے رخصت ہوا تو یہی کہا گیا کہ 'موت آئی اور مر گیا‘ ایک سال بعد اس کے وکلا نے بتایا کہ اسے زہر دیا گیاتھا۔ اسے دانستہ ہسپتال سے دور رکھا گیا۔ انتظار کیا گیا کہ ڈاکٹر سے پہلے ملک الموت پہنچ جائے۔ انتظار رائگاں نہیں گیا۔ جب اسے بیس کلومیٹر دور ہسپتال پہنچایا گیا تو موت کا فرشتہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو چکاتھا۔
یہ نیا واقعہ ہے نہ انوکھا۔ یہ مسلم معاشروں کا روزمرہ ہے۔ حسن البنا 1949ء میں خفیہ پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئے اور سید قطب 1964ء میں تختہ دار پر چڑھا دیے گئے۔ تب سے یہ سلسلہ رواں دواں ہے۔ محمد مرسی نے دورِ حاضر کے سب تقاضے پورے کر دیے۔ ووٹ کی قوت سے صدر بنے لیکن انجام وہی ہوا، سید قطب والا۔ ان کا خاندان بھی سید قطب کے خانوادے کی طرح تختۂ ستم پر چڑھا رہا۔ مرسی کا ایک بیٹا مار ڈالا گیا۔ دوسرا جیل میں ہے۔ کیاظلم کی اس داستان کا کوئی اختتام بھی ہے؟
مسلم معاشروں میں آزادیٔ رائے کیوں نہیں؟ جمہوریت کو کیوں جھٹلایا جاتا ہے؟ کیوں لوگ ہجرت پر مجبور کردیے جاتے ہیں؟ ہجرت بھی کہاں؟ برطانیہ، امریکہ، جرمنی، وہ ممالک جنہیں ہماری لغت میں 'دارالکفر‘ کہتے ہیں۔ 'حزب التحریر‘ والوں کو برطانیہ میں پناہ ملی۔ فلسطینی امریکہ‘ یورپ میں آباد ہیں۔ شام کی خانہ جنگی سے گھبراکر بھاگنے والے جرمنی میں ہیں۔ ان سب کو پناہ ملی تو کسی مسلمان ملک میں نہیں، کفر کے مراکز میں۔
عراق‘ افغانستان میں امریکی مظالم سے کون آنکھیں بند کر سکتا ہے؟ لیکن اس بات سے کیسے آنکھ بند کی جائے کہ جو آزادیٔ رائے کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، اسے امریکہ اور یورپ ہی میں جگہ ملتی ہے۔ کوئی عمر کا آخری حصہ آسودگی سے بسر کرنا چاہتا ہے تو برطانیہ‘ امریکہ کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی تو خواہش ہونی چاہیے کہ موت سے پہلے بیت اللہ کے قرب میں رہے یا مسجدِ نبوی کے پڑوس میں۔ میرے علم میں نہیں کہ اسلامی تحریک کے کسی راہنما نے ان پاکیزہ مقامات کے پاس رہنے کو ترجیح دی ہو۔
سیکولرزم سے کمیونزم تک آپ جس نظریے پر چاہیں، تنقید کریں۔ امریکہ سے برطانیہ تک، آپ جس ملک کی خارجہ پالیسی کو ہدف بنانا چاہیں، بنائیں۔ آپ کو یہ آزادی انہی ممالک میں میسر ہے۔ امریکہ میں اگر اسرائیل نواز موجود ہیں تو فلسطینیوں کے غمگسار بھی ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے والے بھی ہیں۔ کسی کو یہ خوف نہیں کہ اٹھا لیا جائے گا۔ چومسکی ڈنکے کی چوٹ پر امریکی حکومت کو نہیں، امریکی ریاست کو دہشتگرد کہتے ہیں لیکن کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
مسلم ملکوں میں یہ آزادی کیوں نہیں؟ ہم اس سوال کو موضوع نہیں بنا سکتے‘ بنائیں توسوال تک محدود رہتے ہیں۔ جواب تلاش کرنا چاہیں توخوف گھیر لیتا ہے۔ ہم تو اپنے سماج کے بارے میں سوال نہیں اٹھا سکتے مگر دوسرے اٹھاتے ہیں۔ فوکویاما نے برسوں پہلے لکھا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک کیلئے جمہوریت کیوں سازگار نہیں ہے؟ مغرب کے اہلِ علم میں یہ سوال سنجیدہ مطالعے کا موضوع ہے۔ اگرنہیں ہے تو ہمارے ہاں نہیں ہے۔
ریاست کی پالیسیوں کے ساتھ، اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا فکری افلاس ہے۔ ہماری تاریخ بادشاہوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم ماضی کے اوراق پلٹتے ہیں اور بادشاہوں میں سے ہیرو تلاش کرتے ہیں۔ پھراس کا انطباق دورِ حاضر پر کرتے اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کاش ہمیں ان جیسا کوئی بادشاہ مل جائے۔ ہمارا مطالعہ تاریخ ہمیں سلاطین کا پرستار بناتا ہے۔
بادشاہ، کیا برطانیہ میں نہیں تھے؟ کیا فرانس میں بادشاہت نہیں تھی؟ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں تک دنیا بادشاہوں سے بھری ہوئی تھی۔ برطانیہ میں تو اب بھی ہیں مگر بادشاہت کے بغیر۔ وہاں تو کسی نے نئے بادشاہ کا خواب کبھی نہیں دیکھا۔ وہاں تاریخ کا مطالعہ عبرت کیلئے کیا جاتا ہے، ماضی کو گلیمرائز کرنے کیلئے نہیں۔ لوگ آگے کی طرف دیکھتے ہیں۔
مغرب کے معاشرے بادشاہت سے جمہوریت کی طرف آئے ہیں۔ وہ اس سے آگے جا سکتے ہیں، پیچھے نہیں۔ وہاں کا فکری سفر بھی دیکھیے! ماڈرن ازم سے پوسٹ ماڈرن ازم۔ سیکولرزم سے پوسٹ سیکولرزم۔ وہاں برے حکمران بھی ہوتے ہیں لیکن کسی کو کبھی خیال نہیں آیا کہ جمہوریت ناکام ہوگئی ہے۔ اب ہمیں پھر کوئی بادشاہ تلاش کرنا چاہیے یا بادشاہت کو صدارتی نظام کا لباس پہنا دینا چاہیے۔ کبھی کسی نے نہیں کہا کہ سیاستدان ناکام ہوگئے، اب معاملات کسی دوسرے ادارے کے حوالے کر دیے جائیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کا متبادل اہلِ سیاست ہی میں سے تلاش کیا جا رہا ہے۔
مسلمان معاشروں میں ہم نے غوروفکر کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ مصر میں یہ دروازے بند ہوئے تو ایسی تنظیمیں کھڑی ہوگئیں جنہوں نے اپنے ہی حکمرانوں کی تکفیر کی۔ ریاست کے پاس طاقت تھی‘ جو اس نے استعمال کی۔ جواباً فتوے اور فدائین کی طاقت کو بروئے کارلایا گیا۔ ایک انتہا پسندی نے دوسری انتہا پسندی کو جنم دیا۔ مرسی صدر بن گئے تھے تو انہیں موقع دیا جاتا۔ انکی پالیسیاں ٹھیک نہ ہوتیں تو عوام کسی اور کا انتخاب کر لیتے۔ معاشرہ فساد سے بچ جاتا۔ کیا مرسی کی نسل ختم کرنے سے یہ سوچ مر جائے گی؟ سید قطب کا خاندان برباد ہوا توکیا ان کا نظریہ ختم ہوگیا؟ اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھیے۔ گھٹن ذہانتوں کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ وہ انہیں مار دیتی یا ہجرت پر مجبور کر دیتی ہے۔ فتح اللہ گولن نے تعلیم اور رفاہِ عامہ کا ایک بڑا نیٹ ورک قائم کردیا تھا۔ ترکی کو اس سے محروم کردیا گیا۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں: مسلم دنیا نے کتنے نوبیل انعام یافتہ پیدا کیے؟ جہاں آزادیٔ رائے نہ ہو وہاں تخلیقی کام نہیں ہو سکتا۔ آج موقع دے دیا جائے، چند سال میں فضا بدل جائے گی۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، یہ سوال موجود رہے گا۔
مسلم دنیا میں جہاں نخلِ جمہوریت کی آبیاری ہوئی وہاں یہ ثمربار ہوا‘ جیسے ترکی‘ جیسے ملائیشیا مگر یہ عجیب بات ہے کہ حکمران طبقے میں بادشاہ بننے کی خواہش موجود رہی۔ جمہوریت کے مثبت نتائج دیکھنے کے باوجود، ترکی میں اس کی جڑوں پہ آری رکھ دی گئی ہے۔ مہاتیر محمد بھی اپنے اندر کے بادشاہ کو مار نہیں سکے۔ ان ممالک میں ترقیٔ معکوس کا عمل شروع ہوچکا۔
سابقہ حکمرانوں پر عمران خان کی ایک تنقید یہ تھی کہ وہ سڑکوں پہ وسائل لگاتے ہیں، انسانوں پہ نہیں۔ اصل چیز انسان ہیں۔ اس مقدمے کے مثبت و منفی پہلوئوں سے قطع نظر، اگر اسے من و عن قبول کرلیا جائے تو اس کا پہلا نتیجہ عوام کو ایسے ماحول کی فراہمی ہونا چاہیے جہاں انہیں آزادیٔ فکروعمل کی ضمانت ملے۔ صحت اور تعلیم کے اعلیٰ مراکز تو ان مسلمان ممالک میں بھی موجود ہیں جہاں بادشاہت ہے لیکن کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہاں کا انسان آسودہ ہے؟ جہاں سرکاری سرپرستی میں سوشل میڈیا نیٹ ورک بناکر نئے گوئبلز پیدا کیے جائیں، وہاں معاشرہ ترقی نہیں کرتا، اندر سے مرجاتا ہے۔
عبداللہ مرسی کی کہانی صرف مصر کی نہیں، ہر مسلمان ملک کی کہانی ہے۔ جب تک اس داستان کے نئے ابواب رقم ہوتے رہیں گے، مسلمانوں کو پناہ گاہوں کی ضرورت رہے گی۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ دارالاسلام کے مکینوں کو اگرپناہ ملتی ہے توکسی دارالکفر میں۔
(پس تحریر: اسلام آباد سے دن دیہاڑے غائب ہونے والے ساجد گوندل واپس آگئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ خیریت سے ہیں۔ اس خبر کا کوئی تعلق کالم کے مندرجات سے نہیں ہے۔)