اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ ایک یادگار تقریر تھی۔ اِس نے ہماری تاریخ میں ایک حدِ فاصل قائم کر دی: 'تقریر سے پہلے، تقریر کے بعد‘۔ اسے اب اسی طرح یاد رکھا جائے گا۔
تاریخ تقریر سے نہیں بدلتی۔ بجا ارشاد۔ یہ صاحبانِ عزیمت کی جہدِ پیہم اور عزمِ محکم ہیں جو تاریخ بناتے ہیں؛ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ یہ تقریریں ہیں جنہوں نے تاریخی سفر کے نشاناتِ راہ واضح کیے اورمنزلِ مراد کا سراغ دیا۔ خطبہ الہ آباد بھی ایک تقریر ہی تھی۔ لوگوں کواس سے منزل کا سراغ ملا۔ مسلسل کوشش نے سنگ ہائے میل نمایاں کیے اور پاکستان کی مراد برآئی۔ نیا پاکستان بھی ایسے ہی بنے گا۔ ان شا اللہ۔
سخن شناسوں کی مجلس میں یہ مثال کسی وضاحت کی محتاج نہیں تھی کہ وہ تشبیہ و استعارے کو سمجھتے ہیں۔ وضاحت ان کی ذہانت کی توہین ہوتی‘ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ بات بازار میں کھڑے ہوکر کہی جا رہی ہے۔ کہیں سے آواز اٹھے گی: 'دیکھو دیکھو، نواز شریف کو علامہ اقبال بنا دیا‘۔ اس لیے عرض ہے کہ یہ تشبیہ ہے۔ علامہ اقبال اور نوازشریف میں موازنہ ہرگز مطلوب نہیں۔
یہ تقریر نہیں، ایک عَلم ہے۔ نوازشریف اب چاہیں بھی تو اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ہوں گے تو یہ عَلم کوئی اور اٹھا لے گا۔ نہیں اٹھائے گا توسرِ میدان پڑارہے گا، یہاں تک کہ کوئی صاحبِ عزیمت آئے اور اسے تھام لے۔ وہ جو کشتیاں جلا ڈالے۔ کوئی اپنی کشتیاں جلائے گا تو ہی پاکستان کی کشتی کنارے لگے گی۔ نوازشریف کی تقریر اس کے سوا کچھ نہیں کہ آنے والے حالات کی ایک خبر ہے۔
یہ تقریر ہونی تھی۔ آج نہ ہوتی تو کل ہوتی۔ نوازشریف نہ کرتے تو کوئی اورکرتا۔ تاریخ اور سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پرمیں اس کامنتظر تھا۔ یہ بھی ہو سکتا تھاکہ میں نہ سنتا، آنے والی نسلیں سنتیں۔ میرا تاریخی شعور یہ کہتا ہے کہ یہ تقریر ناگزیر ہو چکی تھی۔ اس کا کوئی تعلق نوازشریف نامی کسی آدمی سے نہیں۔ یہ تاریخ کی آواز ہے جس کی لہریں فضا میں موجود تھیں۔ بس کسی نے انہیں پکڑنا اور الفاظ میں ڈھال دینا تھا۔ اس کو اہلِ علم نوشتۂ دیواربھی کہتے ہیں۔ جس طرح فضا میں موجود آوازوں کو سننے والے کم ہوتے ہیں، اسی طرح دیوار پہ لکھے کو بھی کم ہی پڑھ سکتے ہیں۔ کوئی آتا ہے، لفظوں کو دیوار سے اتارتا اور سب کو سنا دیتا ہے۔ اس لیے یہ بحث بے معنی ہے کہ تقریر کس نے لکھی تھی۔ ایک مجسمہ ساز سے اس کے فن کا راز پوچھا گیا تو اس نے کہا: مجسمہ پہلے سے موجود ہوتا ہے، میں توبس اضافی پتھر ہٹا دیتا ہوں۔ نوازشریف نے یہی کیا۔ دیوار سے الفاظ اٹھا کرجمع کر دیے۔
یہ نوشتۂ دیوار کیا ہے؟ پاکستان نے دو مسائل کو بہرحال حل کرنا ہے: ایک سول ملٹری تعلقات۔ دوسرا مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق۔ یہ دو مسائل، اس کے قدموں سے کچھ اس طرح لپٹے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے تیز خرامی ممکن نہیں۔ سادہ لفظوں میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی‘ نہ سماجی نہ معاشی۔ ہم نے اس کا ادراک نہیں کیا۔ ہم نے مقامی نسخے آزماکر یہ چاہا کہ ان مسائل کا حل نکال لیں۔ ہم نے اتائی سے کینسر کا علاج کرانا چاہا۔ اس کا نتیجہ وہی نکلا ہے جو نکلنا تھا: مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔
ان مسائل کو حل کرنے کے دوطریقے تھے۔ ایک یہ کہ ہم تاریخ کے عمل کو جانیں اور یہ دیکھیں کہ انسانی تہذیب کا بہاؤ کس سمت میں ہے۔ بیسویں صدی میں دنیا نے جمہوریت کی راہ اپنائی۔ تین صدیوں کی جدوجہد رنگ لائی۔ یہ غلامی کے خاتمے کا بدیہی نتیجہ تھا۔ دنیا سے جب غلامی ختم ہوئی تو لازم تھاکہ اس کی ہرصورت ختم ہو۔ اس میں سیاسی غلامی بھی شامل ہے۔ اب انسان کو کسی فردِ واحد کے احکام کا پابند بنایاجا سکتا تھا، نہ تلوار کے زور پر اس سے کوئی بات منوائی جاسکتی تھی۔
مذہب بھی غلامی کی ایک صورت ہے۔ یہ خدا کی غلامی ہے۔ اس میں انسان اپنے 'عبد‘ ہونے کا اعلان کرتا ہے جس کا لغوی مطلب 'غلام‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بندگی کو انسان کی وجہ تخلیق بتایا ہے۔ اس کے باوجود یہ اعلان بھی کیا کہ مذہب کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔ خدا نے اپنی کتابوں میں عقلی دلائل کے انبار لگا دیے کہ چند دن کی یہ غلامی کیسی بڑی آزادی پر منتج ہونے والی ہے۔ خدا چاہتا تو جبر سے انسان کو اپنا غلام بنا سکتا تھا‘ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ خالق ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی سرشت میں جبر کی قبولیت نہیں رکھی گئی۔
یہی وجہ ہے‘ جن اہلِ علم نے اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا، انہیں معلوم تھاکہ یہ کام جبر سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے انہوں نے جمہوری جدوجہد کو اپنا لائحہ عمل بنایا اور ذہن سازی کو اولیت دی۔ انہوں نے بندوق کے زور پر الٰہی احکام کے نفاذ کی مخالفت کی۔ جب خدا کی غلامی جبر سے نہیں ہو سکتی تو انسان یا انسان کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت جبر سے کیسے ممکن ہے؟ اس پیمانے پر صرف ایک جمہوری سیاسی نظام ہی پورااتر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا فکری ارتقا اسے جمہوریت تک لے آیا۔
سول ملٹری تعلقات کو حل کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ہم انسان کے اس تہذیبی ارتقا کو سمجھتے اور اپنے سیاسی نظام کو اس سے ہم آہنگ بناتے۔ عوام کو یہ حق دیتے کہ وہ جسے چاہیں، تخت پر بٹھائیں اور جسے چاہیں اتاریں۔ اس سے سیاسی استحکام آتا اور اختلافی امور ایک فطری بہاؤ کے تابع ہو جاتے۔ کوئی فساد پیدا ہوتا نہ ملک کی سالمیت کا کوئی سوال اٹھتا۔ جب عوام کو یہ احساس ہوتا کہ ملک کے فیصلے ان کے نمائندے کررہے ہیں تو وہ فیصلوں اور ان کے نتائج کو قبول کرتے۔ ان کی اونرشپ لیتے۔
ہم نے اس فطری راستے کو اختیار نہیں کیا۔ عوام کے بجائے خواص کے حقِ اقتدار کو قبول کیا۔ یہ چاہاکہ عوام بھی وہی سوچیں جو خواص سوچتے ہیں۔ وہ جسے قومی مفاد کہیں، یہ اسے قومی مفاد مانیں۔ ہم دن بدن اس سوچ میں پختہ ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ہم نے عوام کے فیصلوں کو راتوں رات بدلنے کا پورا نظام بنا لیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایک نمائشی نظام کے پس پردہ ایک متوازی اور مضبوط تر نظام وجود میں آگیا۔
اہلِ دانش نے توجہ دلائی کہ یہ فطرت کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے۔ اہلِ سیاست نے اس کونرمی سے بدلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے طعنے سنے مگر خود کو بات کہنے تک محدود رکھا۔ جو کہا پردے میں کہا۔ یہاں تک کہ 2014ء میں، اقبال کے الفاظ میں، بے حجابی کا زمانہ آگیا۔ لوگوں نے بچشمِ سردیکھا کہ عوام کا اقتدار تارِ عنکبوت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لوگ قومی اتحاد اور آئی جے آئی کو بھول گئے۔ ہر کوئی زبانِ حال سے پکار اٹھا 'گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے‘۔
چھ سال سے اس بے حجابانہ سیاست کا چلن ہے۔ اپوزیشن تعاون کا کشکول لیے پھرتی رہی مگر اسے ہر بار دھتکارا گیا۔ آصف زرداری، شہباز شریف نے پارلیمان میں دستِ تعاون دراز کیا اور انتخابات کے نتائج پر عدم اعتماد کے باوجود حکومت کے وجود کو تسلیم کیا۔ انجام کیا ہوا؟ انہیں ہمیشہ بے آبرو کیا گیا یہاں تک کہ انہیں مفلوج کردیا گیا۔ معاملات جب یہاں تک پہنچ جائیں تو پھر ایسی ہی تقریر کا انتظار کرنا چاہیے جو نوازشریف صاحب نے کی۔ اس مرحلے پر کردار کشی کی کوئی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تاریخی بہاؤ کے سامنے سرنگوں ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ سطحی تجزیے اب کام آنے والے نہیں کہ نوازشریف کل یہ تھا اور وہ تھا۔ جو کچھ آج ہے وہی سچ ہے۔ مکرر عرض ہے کہ نوازشریف اس معاملے میں محض ایک علامت ہیں۔ یہ تقریر تو نوشتۂ دیوار تھی۔ اس نے ایک لکیر کھینچ دی۔ اب تاریخ یوں بیان ہوگی: تقریر سے پہلے، تقریر کے بعد!