صبح آنکھ کھلنے کے بعد بیوی سے آمناسامنا ہوا تو اس نے پہلا مژدہ سنایا ''گوالے نے دودھ کی قیمت بڑھا دی ہے‘‘۔ آنکھوں میں ابھی نیند باقی تھی جسے اس جملے نے پل بھرمیں اڑادیا۔ کچھ دیر سوچا‘ پھر کہا ''کل سے مقدار کم کردو‘‘۔ ناشتے کے میز پر تھاکہ سبزی والے نے آواز لگائی۔ تھوڑی دیر بعد، بیوی نے دوسری خبر سنائی ''ایک پائو ادرک آج ایک سوستر روپے کی ملی‘‘۔ میں نے دل میں حساب لگایا: چھ سواسی روپے کی کلو۔ اس بارمیں کچھ نہیں بولا۔ دل کی بات دل میں رہی۔
آج ہی مجھے اپنے بیٹے کے داخلے کے لیے ایک کالج جانا تھا۔ میں کالج کے ڈائریکٹر صاحب سے ملا تو انہوں نے اصرار کرکے بٹھا لیاکہ چائے پیے بغیر نہیں جانا۔ مجھے گھنٹہ بھر بیٹھنا پڑا۔ اس دوران لوگ مسلسل ان سے ملنے آتے رہے۔ مرد بھی اورخواتین بھی‘ طالبات بھی اور طلبا بھی۔ آنے والوں میں سے ایک صاحب نے بتایاکہ وہ ایک ادارے میں ڈرائیورکی ملازمت کرتے ہیں اور دل کے مریض ہیں۔ ایک صاحب ایک سرکاری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ سب کے منہ اور ہاتھ میں ایک ہی درخواست تھی ''میرے بیٹے کی فیس کم کردیں۔ میری بیٹی نے میٹرک میں ایک ہزارسے زیادہ نمبر لیے ہیں۔ بہت ہونہار ہے۔ آگے پڑھنا چاہتی ہے۔ میں پڑھا نہیں سکتا، مہربانی کریں، فیس کم کردیں‘‘۔ میرے لیے ان مجبوروں اور بے کسوں کے چہروں کی طرف دیکھنا محال تھا۔ میں بے چینی سے کرسی پر بیٹھا پہلو بدلتا اور دروازے کی طرف دیکھتا رہاکہ کب چائے آئے اور میں یہاں سے نکلوں۔
کوئی دل کا مریض تھا۔ کوئی کثیرالعیال اورسب بچے تعلیم کے مختلف مراحل میں تھے۔ سب کے تعلیمی اخراجات اٹھانا ان کیلئے ممکن نہیں تھا۔ یہ منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت ہو رہاتھا۔ دل چاہتا تھاکہ یہاں سے نکلوں، خودکو کمرے میں بند کرلوں اور پھوٹ پھوٹ کر رو دوں۔ دل کا پیالہ لبالب بھر چکا تھا جس کوچھلکنے سے روکنا اب میرے بس میں نہیں تھا۔شام تک طبیعت مکدر رہی۔ وہ سب چہرے میری نظروں کے سامنے پھرتے رہے۔ گھرپہنچا تو چائے کی پیالی میں آسودگی تلاش کرنا چاہی۔ بیوی نے بیٹے کو بازار انڈے لانے کیلئے بھیجا۔ واپس آیاتو بتایاکہ ایک درجن انڈے ایک سو سترروپے کے ملے ''تقریباً پندرہ روپے کا ایک انڈہ‘‘۔ میں جو ریاضی اور حساب کتاب سے بھاگنے والا آدمی ہوں، آج میرا دماغ کمپیوٹر کی طرح چل رہا تھا۔ میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے کبھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں تھا۔ میں ایک دن میں ادرک اور انڈوں تک کی قیمت جان گیا۔
یہ میری سرگزشت کاایک باب ہے جو میں نے آپ کے سامنے کھول دیا۔ آپ بیتی اس لیے سنائی کہ یہ سنی سنائی بات نہیں۔ یہ واقعات کسی راوی کا بیان نہیں کہ گمان کا شبہ ہو۔ اس میں اندازے اور شک کا کوئی گزر نہیں۔ اس میں کسی مبالغے کا کوئی شائبہ نہیں کہ یہ امرِ واقعہ کا بیان ہے۔ وہ واقعات ہیں جو صرف ایک دن میں مجھ پر بیت گئے۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں، جن پر میرے پروردگار نے ہمیشہ بے پناہ کرم کیا۔ اس کی ربوبیت کو میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی رحمت نے مجھے اپنی ذات کے سوا کسی کا محتاج نہیں رکھا۔ چھپر پھاڑ کرملنا، کسی کیلئے محاورہ ہو، میرے لیے واقعہ ہے۔ انجیل اور قرآن مجید، دونوں میں پرندوں کی تمثیل بیان ہوئی ہے کہ ان کی طرف دیکھو! کیا وہ اپنا رزق اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں؟ وہ جہاں جاتے ہیں، ان کا پروردگار انہیں کھلاتا ہے۔
میرے وجود کا رواں رواں اور میری زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے گواہ ہیں کہ وہ کھلاتا بھی ہے اور پہناتا بھی ہے۔ میری جبیں صدیوں اس کی بارگاہ میں جھکی رہے تو اس کے لطف وکرم کا شکرادا نہیں ہو سکتا۔ آج بھی اس کی مہربانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ میرے جیسا شکایت کرے تو یہ کم ظرفی ہے۔ شکایت اس سے نہیں لیکن وسائل کی تقسیم کا معاملہ جن ہاتھوں میں دے دیا گیا، ان کی طرف دیکھتا ہوں تو اقبال کی طرح کچھ کہنے پرمجبور ہوجاتا ہوں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
آج بائیس کروڑ عوام میں‘ کروڑوں، اقبال کے 'بندۂ مزدور‘ کا مصداق ہیں۔ زندگی ان کیلئے ایک بوجھ ہے۔ مہنگائی آسمان کوچھو رہی ہے۔ لوگوں کے وسائل سمٹ رہے ہیں۔ مڈل کلاس دم توڑ رہی ہے۔ اِس وقت اکثریت اگرکوئی بھرم قائم رکھے ہوئے ہے توسماج کی اُس اخلاقی قوت (potential) کے بل بوتے پر جوآسودہ حالوں میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ ان کے مال میں محروموں کاحق ہے‘ ورنہ ریاست تو اس میں بری طرح ناکام ہو چکی۔ صاحبانِ وسائل میں بھی یہ احساس مذہب کی دَین ہے۔
میں حیرت میں ڈوب گیا‘ وزرا کابینہ میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے۔ کوئی پوچھے کہ مطالبہ کس سے کر رہے ہیں؟ کیا یہ کوئی دربار ہے جس میں بادشاہ کے سامنے فریادی دادرسی کے طالب ہیں؟ یہ جمہوریت ہے‘ جس میں وزیر مطالبہ نہیں کرتے، مطالبے کا جواب دیتے ہیں اور نہیں دے سکتے توحقِ اقتدار کھودیتے ہیں۔ اس جمہوریت میں لیکن بادشاہ فریاد سنتا ہے اور شانِ بے نیازی سے جواب دیتا ہے: میں نے مہنگائی کا معاملے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے‘ اب میں اس کا نوٹس لوں گا۔ عوام کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہیں تو چیخ اٹھتے ہیں ''مہاراج رحم! آپ کی مہربانی، آپ نوٹس نہ لیں۔ آج تک آپ نے جس شے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لیا، وہ عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی‘ اگر مزید نوٹس لیا گیا توسب اشیاکا حشرآٹے اور چینی جیسا ہوگا‘‘۔ چکی کا آٹا اسی روپے اورچینی ایک سو پندرہ روپے کلو۔ اب مجھے بھی سب بھاؤ معلوم ہوگئے ہیں۔
عوام کو پھر دھوکا دیا جا رہا ہے کہ یہ بازار کا مافیا ہے جومہنگائی کا ذمہ دار ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ حکومتی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اگر کوئی مافیا ہے تو وہ بازار میں نہیں، حکومت میں ہے۔ اگردکاندارکو ستانوے روپے کلو چینی ملتی ہے تو کیا وہ پچپن روپے کلو بیچے گا؟ چینی،آٹا اور اشیائے صرف کے نرخ بازار میں نہیں، حکومتی ایوانوں میں بڑھے ہیں، جہاں پالیسیاں بن رہی ہے۔ یہ پالیسیاں ہی قیمت طے کر رہی ہیں۔ حکومت کے ساتھ اس دانش پہ بھی حیرت ہے جو بتاتی ہے کہ معیشت سنبھل رہی ہے۔
اس حکومت سے پہلے بھی اس ملک میں دودھ شہد کی نہریں نہیں بہتی تھیں لیکن بے بسی کا یہ عالم نہیں تھا۔ مہنگائی میں کبھی اس شرح سے اضافہ نہیں ہوا۔ آج نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کی قوتِ خرید بھی تیزی سے کم ہوئی ہے۔ دونوں عمل ایک ساتھ جاری ہیں اوران میں کوئی تھمنے کو نہیں آرہا۔ آج کی مہنگائی سو فیصد حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عمران خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے امید کوبھی ماردیا ہے۔
حکومت میں کوئی ایک آدمی ایسا نہیں جسے معاملے کی سنگینی کااحساس ہو۔ کوئی ایک ایسا نہیں جو یہ سمجھ سکے کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑاہوا ہے۔ جہاں ''چھوڑوں گا نہیں‘‘ کی حکومت ہو، وہاں یہی ہوتاہے۔ جو حکومت ترجیحات کا درست تعین نہ کرسکے، وہ درست سمت میں قدم نہیں اٹھا سکتی۔ نرگسیت کے حصار میں قید کسی آدمی کو یہ بھی نہیں سمجھایا جا سکتاکہ انتقام اور استحکام کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
دوسال ضائع کر دیے گئے۔ اس حکومت کے پاس یہ عذر باقی نہیں رہاکہ وہ جوکرنا چاہتی تھی، اسے موقع نہیں ملا۔ مہلت تمام ہوچکی۔ یہ مہنگائی اپوزیشن کے احتجاج میں ایندھن بنے گی۔ جن کے پاس سوچنے کی فرصت ہے، ان کو بیانیہ سڑکوں پر لائے گا اور عام آدمی کو مہنگائی۔