خان صاحب جس 'نئے عمران خان‘ کے نزول کی بشارت دے رہے ہیں‘اس کاظہور 2014ء میں ہوچکا۔دھرنے کے دنوں میں قوم نے اُنہیں جس روپ میں دیکھا‘وہ بہت سوں کے لیے نیا اور چونکا دینے والا تھا۔بطور اپوزیشن لیڈر‘انہوں نے جس اسلوب ِکلام اوراندازِ سیاست کو بامِ عروج پرپہنچایا‘ وہی تو ان کا نیاپن تھا۔ بطورِ وزیراعظم ‘ جس طرح انہوں نے اپنی قائم کردہ روایت کی حفاظت کی‘ اس کا بھی کوئی جواب نہیں۔17 اکتوبر ہی کی تقریر دیکھ لیجیے:سیاسی مخالفین کے بارے میں انہوں نے جو زبان استعمال کی‘جو لب و لہجہ اپنایا‘جس طرح کے اشارے کیے‘ کیا اس کے بعد بھی کوئی شک ہے کہ 2014ء میں نمودار ہونے والا 'نیا عمران خان‘ آج بھی نواں نکور ہے؟
کیا اس کے بعد بھی کوئی' نیا پن‘ ہو سکتاہے؟میری عقل تو اس تک رسائی نہیں رکھتی۔گمان تھا کہ اپوزیشن لیڈراوروزیراعظم کا فرق‘ خان صاحب کے پیشِ نظر ہوگا جو منصب کا تقاضا ہے مگر ایسی کوئی توقع پوری نہ ہوسکی۔وہ چاہتے تو قائد اعظم کے نقوشِ پا پر قدم رکھ سکتے تھے مگر انہوں نے طلال چوہدری کی سطح پر رہناپسند کیا۔ شیخ رشید صاحب کو آئیڈیلائز کیا۔ اس کے بعد بھی نئے پن کی حسرت باقی ہے۔ کاش وہ جان سکتے کہ آج پاکستان کو ایک نئے عمران خان کی ضرورت ہے مگر اس کے خدوخال وہ نہیں‘ خان صاحب جن کی بات کررہے ہیں۔
گوجرانوالہ کے جلسے میں نوازشریف صاحب نے جو کچھ کہا‘وہ نئے سیاسی منظر نامے کی خبر ہے۔ وہ منظرنامہ جوتدریجاً مگر سرعت کے ساتھ ابھررہاہے۔یہ تقریر کوئی ایسا سیاست دان نہیں کر سکتاجو اقتدار کے کھیل کا کھلاڑی ہو۔ پاورپالیٹکس کے لیے لازم ہے کہ اس کی بنیادحقیقت پسندی پر ہو۔زمینی حقائق کا لحاظ اس کا اولین مطالبہ ہے‘یہ بات اتنی واضح ہے کہ کسی دلیل کی محتاج نہیں۔
نوازشریف کا خطاب‘زمینی حقائق سے بے نیازتھا۔یہ نئے سیاسی حقائق کی بنیاد رکھ رہا تھا۔اس میں ایک ایسے کردار کی جھلک تھی جو حکومت سازی نہیں‘تاریخ سازی کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کی ہرقیمت دینے کو تیار ہو گیا ہے۔اس کی بیٹی اسی سرزمین پر ہے۔وہ صرف بیٹی نہیں‘اس کا مستقبل بھی ہے۔ وہ اس کے روپ میں اپنا آنے والا کل دیکھ رہا ہے۔وہ اس کی امیدوں کامحورہے۔ پھر یہیں‘اس کابھائی جیل میں اورانتظامیہ کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ بھائی جس نے اپنی ذات کو بھائی کی محبت پرقربان کر دیا۔ یہ زمینی حقیقتیں ہیں جونوازشریف جیسے جہاں دیدہ آدمی کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتیں۔اس کے باوصف وہ تمام خطرات مول لیتے ہوئے‘ان رشتوں سے وابستہ جذبات کوقربان کر تے ہوئے‘ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کا تعلق اقتدار کی سیاست سے نہیں‘تاریخ کے گہرے شعور سے ہے۔ جس کاکینوس انتخابی عمل تک محدودنہیں‘ایک وسیع تر تناظر رکھتا ہے۔ ماضی کے ماہ وسال میں الجھے لوگ کم ہی اس کا ادراک کر سکتے ہیں۔
نوازشریف صاحب آج جو تقریریں کر رہے ہیں‘ عمران خان کئی سال پہلے کر چکے۔یہی لہجہ‘یہی زبان اور یہی نتیجہ۔وہ بتا چکے کہ پاکستان اس سیاست کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ مشرف عہد کی باتیں ہیں۔ نوازشریف صاحب بھی اُس وقت تک ان نتائج تک پہنچ چکے تھے۔آنے والے ماہ و سال میں فرق یہ ہوا کہ نوازشریف اور عمران خان دونوں اپنے اپنے ماضی سے دست بردار ہوتے گئے۔نوازشریف آج وہاں کھڑے ہیں جہاں پاکستان کا کوئی سیاست دان نہیں پہنچا۔دوسری طرف عمران خان آج وہاں کھڑے ہیں جہاں 1980 ء کی دھائی میں نوازشریف کھڑے تھے ۔
عمران خان صاحب کا ارتقا جس جانب ہے‘نوازشریف صاحب کا ارتقا اس کی مخالف سمت میں ہے۔ نوازشریف صاحب تین باروزیر اعظم بن چکے۔ انہیں اندازہ ہو چکا کہ اس نظام میں وزیراعظم کی کیا حیثیت ہے۔ خان صاحب کوبھی اندازہ ہوجائے گا مگر بعد از خرابیٔ بسیار۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آج ریاستی اداروں کے ساتھ ایک پیج پر ہیں‘ لیکن انہیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ پیج ان کا نہیں ہے۔
نوازشریف صاحب کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہ پیج خود بنانا چاہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ عوام کا منتخب وزیراعظم ہوتے ہوئے‘یہ ان کا آئینی حق ہے کہ وہ ایک پیج بنائیں اوردوسرے ادارے اس پر آ جائیں۔وہ اس ترتیب کو الٹنا چاہتے تھے جو پہلے سے موجود تھی۔یہ گوارا نہیں ہوا۔ نوازشریف نے اب اسے اپنا سیاسی منشور بنا دیا۔ان کا بیانیہ دراصل اسی پیج کی نئی ترتیب کا سیاسی اظہار ہے۔
عمران خان صاحب کو یہ جاننا ہو گا کہ اُن کا سامنا کسی ایسے آدمی سے نہیں ہے جو اقتدار کی کشمکش میں ان کا حریف ہے۔وہ ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ نوازشریف ان سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھیننا چاہتے ہیں۔یہ ان کی تحریک کا ضمنی نتیجہ ہوگا‘حقیقی نہیں۔خوئے انتقام میں مزیدپختہ ہونے سے اب نوازشریف کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔اگر وہ چاہتے ہیں کہ آنے والی سیاست میں ان کا کوئی کردار رہے تو پھر انہیں 'نیا عمران خان‘ بننا ہوگا۔وہ جسے نیا کہہ رہے ہیں‘وہ اب پرانا ہو چکا۔نیا عمران خان وہی ہو گا جو نئے نوازشریف کو سمجھتا ہوگا۔
'نیا عمران خان‘ پاکستان کو بند گلی سے نکال سکتا ہے۔انہیں سمجھنا ہو گا کہ نوازشریف اب ایک تاریخی عمل کااستعارہ ہے کوئی سیاستدان نہیں۔تاریخ سے لڑا نہیں جاتا‘ اس کو راستہ دیا جاتا ہے۔ جو راستہ دیتے ہیں تاریخ انہیں اپنا ہم سفر بنا لیتی ہے۔ جو مزاحمت کرتے ہیں‘تاریخ انہیں اپنے پاؤں میں روند دیتی ہے۔ وہی نہیں‘تاریخ کا قافلہ آگے بڑھے گا تو معلوم نہیں کون کون اس کے پاؤں تلے کچلا جا ئے گا۔'نیا عمران خان‘وہی ہوگا جو اس کا ادراک کرے گا۔
تاریخ اب ایک ایسی جگہ آ کھڑی ہوئی ہے کہ تصادم ناگزیر ہے۔ اس سے بچا نہیں جاسکتا۔قوم جب تصادم کا شکار ہوتی ہے تو فاتح اور مفتوح کی بحث بے معنی ہو تی ہے۔یہ البتہ معلوم ہے کہ اس صورت میں قوم کبھی فاتح نہیں ہوتی۔ عمران خان اس تصادم کو روک سکتے ہیں۔ تبدیلی تو آنی ہے۔ خان صاحب چاہیں تو اس کے لیے آئینی راستہ کھول سکتے ہیں۔
راستہ یہ ہے کہ وہ اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کاا علان کردیں۔ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کومذاکرات کے لیے مدعو کریں۔ایک انتخابی لائحہ عمل پر قوم میں اتفاق پیدا کریں۔اس طرح ملک و قوم تصادم سے بچ جائیں گے اور ہم نیا عمرا ن خان بھی دیکھیں گے۔ وہ عمران خان جو اس وجہ سے یاد رہے گا کہ اس نے تاریخ کے قافلے کے لیے راستہ نکالا۔
اس کے علاوہ اس وقت بحران سے نکلنے کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں ہے۔نوازشریف کی آواز کو دبانے کی ہر کوشش ملک اوراداروں کو کمزور کرے گی۔ اداروں کے مفاد میں یہ ہے کہ وہ جلد ازجلد خود کو سیاسی محاذ آرائی سے آزاد کریں۔ یہ آزادی بھی صرف نئے انتخابات سے مل سکتی ہے۔
'نیا عمران خان‘ خود خان صاحب کی ضرورت ہے ۔اگر وہ انتقامی سیاست میں مزید سختی کو نیا پن قرار دیں گے تو خسارے کا سودا کریں گے۔وقت ایک بار پھر انہیں موقع دے رہا ہے کہ وہ ملک کو اس بحران سے نکال کر اپنے سیاسی مستقبل اور پاکستان کو محفوظ بنائیں۔بصورت دیگرانہیں اقتدار ہی نہیں‘ اپنے سیاسی مستقبل سے بھی محروم ہو نا پڑ سکتا ہے۔
نوازشریف کے بیانیے کا توڑ یہی ہے کہ ریاستی ادارے خود کو اقتدار کی سیاست سے الگ کر لیں۔سیاسی استحکام کاواحدراستہ یہی ہے۔'نیا عمران خان‘ اس معاملے میں ان کی مددکرسکتا ہے۔