تین حالیہ واقعات توجہ طلب ہیں۔
مولانا طارق جمیل چند روز پہلے شادی کی ایک تقریب میں شریک ہوئے‘ اصراف جس کی وجۂ شہرت بنا۔ یہ مولانا کے ایک دیرینہ دوست کی بیٹی کا عقد تھا۔ خبر یہ پھیلی کہ مولانا نے نکاح خوانی کے دس لاکھ روپے لیے اور اس 'آمدن‘ کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ محکمہ ٹیکس کو بھی اس کی اطلاع نہیں۔ یہ خبر سن کر میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ درست نہیں ہے۔ اسے لیکن ایک مہم کے طور پر‘ بغیر تصدیق کے پھیلایا گیا۔ بالآخر مولانا کو خود اس کی تردید کرنا پڑی۔ مجھے دکھ ہوا کہ ایک شخص کی شہرت کو داغدار بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔
اس مہم کے سیاسی اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔ مولانا نے پچھلے کچھ عرصے میں جس طرح ایک سیاسی فریق کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا اور اقتدار کی سیاست میں ایک کردار ادا کیا‘ وہ ایک داعی کے شایانِ شان نہیں تھا۔ اس سے ان کی دعوت کو نقصان ہوا اور ذات کو بھی؛ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس وقت صرف یہ بتانا ہے کہ کیسے ایک شریف آدمی کی پگڑی اچھالی گئی اور اسے اذیت پہنچائی گئی۔
میں پہلے بھی یہ واقعہ لکھ چکا ہوں کہ مجھے مولانا کے ساتھ اسلام آباد کی ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ بھی ان کے ایک دوست کی بیٹی کا عقد تھا۔ ایک فارم ہاؤس میں ہونے والی یہ تقریب بھی اصراف کا یادگار نمونہ تھی۔ مولانا نے اس موقع پر جو خطبۂ نکاح دیا‘ اس کا موضوع اصراف تھا اور کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اس کے مفاسد پر بہت پُر تاثیر بیان کیا۔
دوسرا واقعہ بختاور زرداری صاحبہ کی منگنی کا ہے۔ یہ خبر سامنے آئی تو مشہور کیا گیا کہ اُن کی شادی ایک قادیانی خاندان میں طے پائی ہے۔ ثبوت کے طور پر بختاور کے ہونے والے سسر سے منسوب ایک خود نوشت کو پیش کیا گیا۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے قادیانی ہونے کا ذکر کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بات خلافِ واقعہ تھی۔ یہ کسی اور صاحب کی سوانح ہے۔ جس خاندان میں بختاور صاحبہ کا رشتہ طے ہوا ہے‘ اس کا قادیانیت سے کوئی تعلق نہیں۔
تیسرا واقعہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی طرف سے شبر زیدی صاحب سے منسوب ایک بیان کی تشہیر ہے۔ بیان یہ ہے کہ جس کو پکڑتے تھے‘ وہ عمران خان صاحب کا معاشی سہولت کار نکلتا تھا۔ شبر زیدی صاحب نے واضح الفاظ میں تردید کی کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی۔ ظاہر ہے کہ یہ حق سب سے زیادہ انہی کے لیے ثابت ہے کہ وہ خود سے منسوب بات کی تصدیق یا تردید کریں اور اس کو ماننا چاہیے الا یہ کہ اس کے برعکس کوئی شہادت ہمارے پاس موجود ہو۔
شبر زیدی صاحب سے یہ بات ایک صحافی نے ایک ٹی وی پروگرام میں منسوب کی۔ اس کی تشہیر ہوئی اور مولانا فضل الرحمن نے اسے نقل کر دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک سنی سنائی بات تھی جسے بغیر تحقیق پھیلایا گیا۔ جب اس کا انتساب مولانا جیسی شخصیت کی طرف ہو گا تو یہ ان کی حیثیت عرفی کو متاثر کرے گی۔ ایک لیڈر کو بہرحال ان معاملات میں دوسروں کی نسبت زیادہ حساس ہونا چاہیے۔
گزشتہ چند برسوں میں‘ پاکستان میں تہمت اور الزام تراشی کا کلچر جس تیزی سے پھیلا ہے‘ اس نے سماج کی رہی سہی اخلاقی بنیادیں بھی مسمار کر دی ہیں۔ سیاست اس کا سب سے بڑا ہدف بنی۔ چور‘ ڈاکو‘ کرپٹ اور اس نوع کے دیگر الفاظ کو بڑے بڑے لیڈروں نے اس کثرت سے دھرایا کہ اس کے بغیر ان کی کوئی تقریر مکمل ہوتی ہے‘ نہ بیان۔ صبح شام یہ الفاظ ہتھوڑوں کی طرح عوام کے ذہن پر برسائے جاتے ہیں۔
ان تقریروں اور بیانات کو سنیے اور پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہر آدمی چور ہے‘ سوائے کہنے والے کے۔ یہ سب گفتگو عموم میں کی جاتی ہے اور بغیر کسی ثبوت کے۔ ذرا ذہن میں کرپشن کی وہ خبریں تازہ کرلیں جو چارسال پہلے میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئیں۔ ان کا کیا ہوا؟ اس وقت وزیر مشیر سیاستدان اس تیقن کے ساتھ بولتے تھے کہ جیسے ثبوت کے انبار ہیں۔ آج وہ خبریں کہاں ہیں؟ ان ثبوتوں کا کیا ہوا؟
ان کا کچھ اور ہوا یا نہیں‘ یہ ضرور ہواکہ ہر آدمی کو چور بنا دیا گیا اور تہمت کو کلچر۔ لوگوں کے لیے اسی کلچر نے اقتدار کے دروازے کھولے۔ اسی سے صحافت چمکی اور میڈیا کے لوگ آسودہ ہونے لگے۔ شخصی ترقی اور مفاد کے اس سفر میں کسی نے نہیں سوچاکہ جب معاشرے میں بلا تحقیق الزامات کی تشہیر ہو گی اور ہر کسی کو برے القاب سے پکارا جائے گا تو سماج کا اخلاقی ڈھانچہ ڈھے جائے گا۔ اعتبار ختم ہو جائے گا۔
اقتدار کے حریصوں نے اگرچہ تہمت کے اس کلچر کو سب سے زیادہ فروغ دیا مگر دوسرے بھی پیچھے نہیں رہے۔ صحافت تو سیاست کے ہمرکاب رہتی ہی ہے‘ مذہب اور سول سوسائٹی کے لوگ بھی اس میں شریک ہو گئے۔ مجھ تک 'علما‘ اور مذہبی لوگوں کے برقی پیغامات پہنچے جن میں بختاور کے بارے میں بے بنیاد خبر کو بلا تحقیق پھیلایا گیا۔ اس باب میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج تک کسی نے اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی‘ نہ کسی خبر کے غلط ثابت ہونے پر اظہار ندامت کیا گیا۔ مفادات کی اس آگ کو بھڑکانے کے لیے نئی نسل کو جس بیدردی سے ایندھن بنایا گیا‘ وہ سب سے بڑا المیہ ہے۔ میں جب اپنے نوجوانوں کو منہ بھر کر گالیاں دیتے سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ میرے ملک میں بیٹے اپنے باپ کو گالی دے رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے تہمت سازی کے اس کلچر نے الزام اور جرم کے فرق کو مٹا دیا۔ نوجوانوں کو ایک منصوبے کے تحت جھوٹ پھیلانے کا کام سونپا گیا اور اسے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کہا گیا۔ پاکستان تھا نہیں لیکن ہم نے اسے چوروں کا بھٹ بنا دیا ہے‘ محض تہمت سازی کے اس کلچر سے۔
اقتدار ایک بے رحم کھیل ہے۔ اس کی آگ میں رشتے اور روایات، سب کو جلتے دیکھا گیا۔ لوگ صاف ہاتھوں کے ساتھ اس میدان میں اترے اور انہیں انسانی لہو سے تر کر کے نکلے۔ اکثر فاتحین کا معاملہ یہی رہا۔ روایات اور اخلاق کا خون بچشمِ سر دکھائی نہیں دیتا۔ یہ معاشروں کی بربادی کی صورت میں ظہور کرتا اور موت بن کر سماج کی رگوں میں اتر جاتا ہے۔ افسوس کہ ہم سب اسی کی تیاری میں لگے ہیں، اس زعم کے ساتھ کہ معاشرے کی تطہیر ہو رہی ہے۔
انسانی کاوش سے مثالی معاشرہ دنیا میں کہیں بنا ہے نہ بنے گا۔ انسان خوب سے خوب تر کی کوشش کرتا ہے اور یہ مسلسل عمل ہے۔ خیر کی طرف سفر صرف خیر کے پھیلانے ہی سے طے ہو سکتا ہے۔ جہاں لیڈر صبح شام چور چور ڈاکو ڈاکو کی تکرار کریں‘ وہاں خیر نہیں‘ ہیجان‘ تذلیلِ آدمیت اور انتقام پیدا ہوتا ہے۔ چور چور کی یہ تکرار اب کلچر میں ڈھل چکی۔ قوم کو مبارک ہوکہ اب صفوں کے دونوں اطراف صرف چور پائے جاتے ہیں۔ سیاسی رہنما زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد۔ احتساب زندہ باد۔
(پسِ تحریر : کورونا کی وبا پھیل رہی ہے اور یہ دوسری لہر شدید تر ہے۔ پی ڈی ایم کا جلسوں پر اصرار کسی طور مناسب نہیں۔ ان کا موقف قابلِ فہم ہے کہ عوامی بیداری کا عمل کامیابی اور تسلسل کے ساری جاری ہے‘ جسے روکنا ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب اگر کوئی انسانی تدبیر اس میں رکاوٹ بن رہی ہوتی تو اس کا توڑ کیا جا سکتا تھا۔ یہاں معاملہ تقدیر کا ہے۔ انسان تدبیر سے لڑ سکتا ہے‘ تقدیر سے نہیں۔ اپوزیشن کو اپنا ذہن استعمال کرنا چاہیے اور عوامی رابطے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے چاہئیں)