ہمارے نظریات اور جذبات، اس ہدایت کے تابع ہیں جو اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ لے کر آئے یا یہ ہدایت ہمارے نظریات اور جذبات کے تابع ہے؟
لوگ بے تکلفی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ میرے نزدیک اسلام کی بنیاد فلاں عقیدہ ہے۔ دلیل کوئی نہیں دیتاکہ آپ نے اسلام کی یہ بنیاد کہاں سے اخذ کی؟ کوئی بہت احتیاط کرے گا تو کوئی تاریخی واقعہ سنا دے گا جو قصوں کہانیوں کی کسی کتاب میں نقل ہوگیا۔ کیا دین سمجھنے کا یہی طریقہ ہے؟ کیا دین کی بنیاد ایسی غیرمصدقہ اطلاعات پر ہے؟
اس امت میں افراط و تفریط پر مبنی دین کی جتنی تعبیرات رائج ہوئیں، ان میں انسانی جذبات نے حاکم کا کردار ادا کیا یا اس کے خود ساختہ نظریات نے۔ کبھی جذبات کو حاکم مانا گیا، پھر دین سے اس کی بنیاد تلاش کی گئی۔ محکم دلیل ہاتھ نہیں آئی تو کسی کمزور روایت یا قصے کے سہارے اسلام کا پورا مقدمہ کھڑا کردیا گیا۔ کبھی معاصر نظریات کے زیراثر کوئی نظریہ اختیار کرلیا گیا اور پھر قرآن وسنت سے اس کیلئے دلائل ڈھونڈے گئے۔
یہ افراط و تفریط شعوری طور پر ہوا اور غیرشعوری طورپر بھی‘ جیسے فقہ کا غلبہ ہوا تو مسلم سماج میں دین کے ظواہر پر اصرار بڑھ گیا۔ داڑھی اور ازار (تہبند) کے سائز پر فسق و فجور کے فیصلے ہونے لگے۔ یہ اصرار اتنا بڑھاکہ دین کا جوہر نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔ پھر کچھ لوگ نمودار ہوئے جنہیں واضح کرنا پڑاکہ دین دراصل للہیت، خشوع و خضوع اور اخلاص کا نام ہے جس کا تعلق ظاہر سے نہیں دل کی کیفیت سے ہے۔ امام احمد ابن حنبلؒ کا واقعہ اس کی صحیح منظرکشی کرتا ہے۔ انہیں جب خلقِ قرآن کے مسئلے پر کوڑے مارے گئے توان کے جسم سے پھوٹنے والے لہو سے ان کا لباس تر ہوگیا۔ امام نے اس کیفیت میں نماز پڑھی تو فقیہانہ مزاج نے سوال اٹھا دیاکہ ان کی نماز نہیں ہوئی کیونکہ ان کے کپڑوں پر خون کے نشان تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ واقعہ بیان کیا توان کا قلم جذباتی ہو گیا۔ لکھاکہ اگر امام کی وہ نماز قبول نہیں ہوئی تو اس امت میں کسی کی کوئی نماز قبول نہیں ہوئی۔
یہ دراصل فقیہانہ مزاج پر نقد ہے جس نے ظاہر احکام پراتنا اصرار کیاکہ دین کے جوہر پرکسی کی نظر نہ رہی۔ فقیہہ کا مزاج قانونی ہوتا ہے۔ وہ معاملات کو قانون کے زاویے سے دیکھتا ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے لیکن دین محض قانون نہیں۔ یہ تعلق باللہ کانام ہے۔ قانون اس کا ایک پہلو ہے۔ دین کی تفہیم کیلئے قانون ہی نہیں دیگر پہلوئوں کو بھی پیشِ نظررکھنا لازم ہے۔
'سیاسی اسلام‘ پر مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر جاوید احمد غامدی صاحب تک، اہلِ علم کی تنقید یہی ہے کہ دینی احکام کی ترتیب اس طرح بدل گئی کہ وہ توازن باقی نہیں رہا جو دین کے پیش نظر ہے۔ دین کے مطالبات میں 'اقامتِ دین‘ کے عنوان سے ایک نیا فریضہ شامل ہو گیا‘ جس سے عام مسلمان کوایک ایسی ذمہ داری کا مکلف بنا دیاگیا، جودین نے اس پرڈالی ہی نہیں۔ اس افراط و تفریط سے کیسے بچا جائے؟ ہمیں کیسے معلوم ہوکہ دین میں کس عقیدے کی کیا اہمیت ہے؟ دینی احکام میں ترتیب کیا ہے؟ اس کا سادہ جواب ہے: اس ہدایت کی طرف رجوع جو اللہ کے رسول لے کر آئے۔ اپنے جذبات اور نظریات پر اس ہدایت کو حاکم مانا جائے جو رسول اللہﷺ کی سند سے ہم تک پہنچی۔ یہ ہدایت قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی سنت میں مقید ہے۔
قرآن مجید میں اللہ کے رسول سیدنا محمدﷺ سے کہا گیاکہ آپ اس قرآن کے ساتھ انذار کریں۔ آپ اس بات کا ابلاغ کریں جو اللہ کی طرف سے آپ پر نازل کی گئی اور اس کی تبین (شرح و وضاحت) بھی کردیں۔ لہٰذا ہمارے جذبات اور نظریات پر، لازم ہے کہ اس ہدایت کی حاکمیت قائم ہو جو قرآن میں بیان ہوئی یا جسے اللہ کے رسولﷺ نے بیان فرمایا۔
انسان غلطی کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ خدا کی ہدایت کی تفہیم میں اس سے غلطی ہو جائے۔ یہ خدا کے نزدیک قابلِ معافی ہے اگر جذبہ یہ ہوکہ دین کے باب میں میرے خیالات اور جذبات اس ہدایت کے تابع ہیں جو اللہ کے رسول لے کر آئے ہیں۔ انسان ہمیشہ متنبہ رہے اوراس پہلو سے اپنے خیالات کا جائزہ لیتارہے۔
اسلام صدیوں سے ہمارے لیے ایک عصبیت ہے یا نشانِ تفاخر۔ دورِ زوال میں ہم نے جس اسلام کو دریافت کیا اس میں ہم نے اپنا شاندار ماضی تلاش کرنا چاہا یا اسے ایک گروہی عصبیت سمجھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام خدا کی ہدایت ہے۔ یہ میرے لیے ابدی نجات کا پیغام ہے۔ یہ اس بات کی یاددہانی ہے کہ مجھے اپنے پروردگار کے حضور میں ایک دن کھڑا ہونا اوراپنے اعمال کیلئے حساب دینا ہے۔ مجھے جواب دینا ہے کہ میں نے اپنی خواہشات اور جذبات کو خدا مانا یا اسے خدا مانا جس کا تعارف اللہ کے آخری رسول نے کرایا؟
اسلام کیا ہے؟ قرآن اس کا جواب دیتا ہے اور اللہ کے رسولﷺ اس کی شرح کرتے ہیں۔ اس باب میں 'حدیثِ جبریل‘ ایک جامع روایت ہے۔ یہ بخاری مسلم سمیت حدیث کی پانچ کتب میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ محدثین نے لکھاہے کہ اس روایت میں جس واقعے کا بیان ہے، یہ رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری دنوں میں پیش آیا۔
مسلم میں سیدنا عمرؓ ابن خطاب سے جو روایت نقل ہوئی ہے، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص اچانک نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور اس کے بال بالکل سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے آثار نہیں تھے۔ وہ شخص نبیﷺ کے پاس ہو بیٹھا۔ اس نے اپنے گھٹنے رسول اللہ کے گھٹنوں سے ملادیے‘ پھر کہا یارسول اللہ! مجھے بتائیے اسلام کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘ تم نماز پڑھو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو‘ اگر تم اس کی استطاعت رکھتے ہو۔
اس پر وہ کہنے لگا ''آپ نے سچ فرمایا‘‘۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں‘ ہمیں حیرت ہوئی کہ وہ سوال کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: 'تم ایمان رکھو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر‘۔ اس پر اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔
پھر اس نے سوال کیا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: 'تم اس کیفیت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ ہی رہا ہے‘ اس نے سوال کیا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا‘۔ اس نے کہا: مجھے قیامت کی نشانیاں بتا دیجیے؟ آپﷺ نے فرمایا: 'جب لونڈی اپنے مالک کو جنے دے اور تم دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والے انچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں‘۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں متردد رہاکہ یہ کون تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: عمر جانتے ہو یہ کون تھے؟ 'یہ جبریل تھے اور تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے‘۔ یہ روایت اس دین کا خلاصہ ہے، جو قرآن مجید میں بیان ہوا اور اللہ کے رسولﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص دین کی کوئی دوسری بنیاد بیان کرتا ہے تو وہ اس کے جذبات اور خیالات تو ہو سکتے ہیں، دین نہیں۔ دین وہی ہے جو اللہ کے رسول کی سند سے ثابت ہے۔