"KNC" (space) message & send to 7575

’’شکریہ نواز شریف!‘‘

پندار کا صنم کدہ نوازشریف صاحب کے ایک فون کال کی تاب نہ لا سکا۔ دھڑام سے گرگیا۔
عمران خان چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ملاقات سے گریزاں تھے۔ چوہدری صاحب ایک عرصے سے علیل ہیں۔ علالت بھی ایسی کہ جان لیوا ہو سکتی ہے۔ پاکستان بھر کو معلوم ہے کہ وہ علاج کیلئے جرمنی جاتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا نے بیمار پرسی کی سوائے خان صاحب کے۔ بنیادی اخلاقی تقاضے کو تو چھوڑیے کہ اسکی زیادہ امید نہیں تھی لیکن سیاسی مفادات تو تھے۔ اس کے باوصف خان صاحب ان کی عیادت کو نہیں گئے۔
اُن کی سیاسی حکمتِ عملی جو بھی ہو، چوہدری خاندان روایت سے بنا ہے۔ وہ اِسے کبھی قربان نہیں کرتے۔ مرنے پہ تعزیت اور بیماری پر مزاج پرسی شرفا کی روایت ہے۔ چوہدری برادران ہمیشہ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ عمران خان اس روایت سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ہیں۔ وہ اپنی ذات کے حصار سے کبھی نہیں نکل سکے۔ یہ اسیری ایک نفسیاتی روگ ہے جسے نرگسیت کہتے ہیں۔ اس کے زیرِ اثر انہوں نے چوہدری صاحب کی عیادت کو ضروری نہیں سمجھا۔ یہ ممکن نہیں کہ اس بات سے چوہدری صاحبان کے دل میں گرہ نہ پڑی ہو۔
انہوں نے بالواسطہ، بارہا اس کا اظہار کیا۔ آخری مرتبہ وہ خان صاحب کے کھانے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ اس میں سیاسی شکایات بھی شامل ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ باہمی تعلقات کی اس تلخی میں نرگسیت کا کردار بنیادی ہے۔ خان صاحب نے اس کی بھی کوئی پروا نہ کی کہ چوہدری صاحبان نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ وہ اسی طرح اپنے پندار کے اسیر رہے۔
سب جانتے ہیں کہ خان صاحب اور چوہدری برادران کو کس نے ایک چھتری تلے جمع کیا۔ سیاسی مجبوریاں نے ق لیگ اور تحریکِ انصاف کو یکجا کیا‘ ورنہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب جب تک سرپرست چاہیں گے، یہ ایک چھتری کے سائے میں رہیں گے۔ حالات نے چوہدریوں سے انتخاب کا حق چھین لیا۔ یوں وہ بادلِ نخواستہ اس اتحاد کو نبھا رہے ہیں۔ 
چوہدری لیکن سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ترپ کا پتہ ان کے ہاتھ میں رہے۔ اس بار انہوں نے اس پتے کو استعمال کیا اور ایک ہی دن میں بازی پلٹ گئی۔ جس دن یہ پتہ استعمال ہوا، خان صاحب اگلے دن چوہدری شجاعت صاحب کے گھر جا پہنچے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق چوہدری صاحب سے کہا کہ آئندہ آپ مجھے پرویز الٰہی ہی سمجھیں۔
یہ پتہ نوازشریف صاحب سے رابطہ ہے۔ یہ اتفاق ہواکہ نوازشریف صاحب کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ چوہدری صاحبان کی روایت یہی ہے کہ اگر ضرورت نہ ہوتی تو بھی وہ تعزیت کرتے لیکن اس بار دو باتیں جمع ہو گئیں: ضرورت اور روایت۔ چوہدری شجاعت نے نوازشریف صاحب کو فون کیا۔ یہ خبر پھیلی تواقتدار کے ایوان لرز اٹھے۔ نرگسیت سیاسی مطالبات کی تاب نہ لا سکی اور خان صاحب چوہدری صاحب کے گھر جا پہنچے۔
پنجاب حکومت بیساکھیوں پہ کھڑی ہے۔ نون لیگ اور ق لیگ مل جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ حکومت باقی رہ سکے۔ بس یہی خطرہ تھا جس نے خان صاحب کو اچانک یاد دلایا کہ چوہدری شجاعت کی عیادت کی جانی چاہیے۔ اقتدار کا سب سے زیادہ اثر یادداشت پرہوتا ہے۔ اقتدار مل جائے تو ماضی قریب کی باتیں، دوست یار یاد نہیں رہتے۔ اقتدار چھن جانے کا خوف ہو تو دور کے دشتہ دار اور ماضی بعید کی باتیں بھی یاد آ جاتی ہیں۔
اس طرح خان صاحب کی یادداشت بحال ہوئی اور وہ چوہدری صاحب کی عیادت کو جا پہنچے۔ سیاست اسی کا نام ہے۔ پندار، نرگسیت، غرور کا اس میں کہیں گزر نہیں۔ آپ کا طرزِ عمل آپ کے سیاسی مفادات طے کرتے ہیں۔ نوازشریف نے ایک وقت میں فیصلہ کیا کہ منظور وٹو صاحب کو کبھی منہ نہیں لگائیں گے‘ پھر ایک دن ان سے ملنے، ان کے گھر جا پہنچے۔ سیاست حقائق کی اسی سنگلاخ زمین پر چلنے کا نام ہے۔
سیاسی حکمت عملی ہمیشہ لچکدار ہوتی ہے۔ اس میں حالات کی رعایت ہوتی ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ سے کسی نے ان کی کامیاب حکمرانی کا راز پوچھا۔ کہا 'میرا اور لوگوں کا تعلق ایک کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ وہ کھینچتے ہیں تو میں ڈھیل دے دیتا ہوں۔ وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں‘۔ سیاست میں کامیابی کا راز یہی ہے۔ یہ فرق بہرحال واضح رہنا چاہیے کہ اخلاقی اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں ہونی چاہیے۔
چوہدری برادران ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ خان صاحب کو اس کا اعتراف کرنا پڑا۔ اب انہیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ اپوزیشن اُن سے بڑی سیاسی حقیقت ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں، انتہائی ناموافق حالات کے باوجود، نون لیگ نے ایک کروڑ سے زیادہ ووٹ لیے۔ پیپلزپارٹی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی قوت بھی کم نہیں۔ اتنی بڑی سیاسی حقیقتوں کی نفی کرکے کیسے سیاست کی جا سکتی ہے؟ یہ بات خان صاحب کو سمجھنی ہیں اوران کے سرپرستوں کو بھی۔
چوہدری صاحبان کے بارے میں خان صاحب کی کیا رائے رہی ہے، ہم سب اس سے واقف ہیں۔ جو لوگ زود فراموش نہیں، وہ جانتے ہیں کہ خان صاحب نے سب سے پہلے چوہدری برادران کو ہدف بنایا اور انہیں القاب سے نوازا۔ پھر ایم کیو ایم ان کا نشانہ بنی۔ آج دونوں ان کے سیاسی حلیف ہیں۔ اگر خان صاحب کو یہ بیساکھیاں فراہم نہ کی جاتیں تو وہ وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ نہ جیت سکتے۔
ق لیگ اور ایم کیو ایم کو تسلیم کرنا ان کے اقتدار کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کے وجود کو ماننا ملک کے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ذاتی اقتدار کیلئے اتنی بڑی مفاہمت کر سکتے ہیں تو قومی مفاد میں اپوزیشن سے کیوں ہاتھ نہیں ملا سکتے؟ اگر ان کا علمِ سیاست سے کچھ بھی علاقہ ہوتا تو ان کو کوشش کرنی چاہیے تھی کہ اقتدار کی باگ ان کے ہاتھ میں رہے۔ یہ اسی وقت ممکن تھا جب وہ اپوزیشن کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھتے۔
خان صاحب یہ نہیں کر سکے اور یوں آج تک حقیقی اقتدار سے محروم ہیں۔ اب لوگوں کو حکومت سے معاملہ کرنا ہوتا ہے تو مقتدرہ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ جواباً ایوانِ وزیر اعظم کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کو بھی خان صاحب کے پندار کو ختم کرنے کے لیے نواز شریف صاحب کو فون کرنا پڑا۔ اگر خان صاحب یہ کام جبر کے بجائے اپنی مرضی سے کرتے تو چوہدری برادران کے دل میں ان کی زیادہ قدر ہوتی۔
مستقبل کی کسی کو خبر نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اقتدار کے مستقل کھلاڑیوں نے اپنی روش کو تبدیل نہ کیا تومیں اس امکان کورد نہیں کر سکتا کہ آنے والے کسی لمحے تحریک انصاف اور ن لیگ ایک کنٹینر پر کھڑی ہوں۔ جن کی یادداشت کمزور نہیں، انہیں وہ تصویریں یاد ہیں جب خان صاحب مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے۔ یہ دور بھی ان کی بائیس سالہ جدوجہد کا حصہ ہے۔ یہ کسی انسان کے بے بصیرت ہونے کی دلیل ہے کہ وہ صرف وقت کے جبر کو قبول کرے اور آنے والے وقت کی آہٹ کو نہ سن سکے۔
نواز شریف صاحب کے ساتھ چوہدری برادران کا ایک مواصلاتی رابطہ اگر پندار کا صنم کدہ ویران کر سکتا ہے تو سوچنا چاہیے کہ نرگسیت اور سیاست کتنے دن ساتھ چل سکتے ہیں؟ چوہدری صاحبان بھی ممکن ہے دل میں کہتے ہوں 'شکریہ نواز شریف!‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں