مریم نواز کے لیے اہلِ لاہور نے دیدہ و دل فرشِ راہ کردیے۔ ان کی یہ وارفتگی اور والہانہ پن غیر متوقع نہیں تھے۔ جس کی تمہید یہ ہے، قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ جلسہ کیسا ہوگا۔
مریم نواز کو وراثتی سیاست کا مظہر قرار دینے والوں کو چاہیے کہ سیاسیات کے کسی جید استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کریں۔ وراثت کا کردار بس اتنا ہے کہ اُس نے دنوں میں عوام کو ان کی طرف متوجہ کردیا، بصورتِ دیگر یہ مرحلہ طویل ہوسکتا تھا۔ اِس کو آپ تقدیر بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ نوازشریف کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ وراثت اور تقدیر اُن کی یہی مدد کر سکتی تھیں کہ لوگوں کو ایک دفعہ اُن کی طرف متوجہ کردیں۔ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہنا، اِس کا تمام ترانحصار ان کی صلاحیت پرتھا۔
یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ مریم نواز کو نواز شریف کا اقتدار ورثے میں نہیں ملا، ان کے مصائب ملے ہیں۔ بے نظیر بھٹوکی طرح۔ بے نظیر سیاست میں آئیں تو وزیر اعظم بھٹوکی نہیں، ایک لاش کی وارث تھی۔ لاشوں کی وراثت آسان نہیں ہوتی۔ سوچ کر ہی زہرہ آب ہو جاتا ہے۔ مریم نوازنے بھی سیاست میں اُس وقت قدم رکھا جب کئی قوتیں ان کے خاندان کے وجود ہی کو حرفِ غلط کی طرح مٹادینا چاہتی تھیں۔ اس وراثت کی سیاست وہی کرسکتا ہے جو مقتل میں کھڑا رہنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
مریم نواز نے وہ کام کیا جو کم لوگ کرسکے۔ جس نے کیا، وہ پھانسی چڑھ گیا یا جیل میں پڑا رہا۔ مریم نواز نے جانتے بوجھتے اس پُرخطر راستے کا انتخاب کیا۔ محض وزیراعظم کا تاج سر پر رکھنے کی خواہش پالنے والے اس کا حوصلہ نہیں کرسکتے۔ پھرانہوں نے اس شان کے ساتھ اس راستے پرپیش قدمی کی کہ سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ محترم حامد میر نے صحیح لکھاکہ خوف کا حصار توڑ ڈالا۔
جو نوازشریف کی سیاست کا خاتمہ دیکھ رہے ہیں، وہ اپنی خواہش کوواقعہ بنا دینا چاہتے ہیں‘ ورنہ نوشتۂ دیوارکچھ اورہے۔ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے مناظر تصویر میں ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ جو حقیقت کی دنیا میں کھڑا ہو وہ دونوں کا فرق خوب جانتا ہے۔ لاہور کے گلی کوچوں میں مریم کی پذیرائی ایک نئی صبح کا منظرہے، ہراس آدمی کیلئے جو تصویر نہیں دیکھ رہا۔
مریم نواز کے اس والہانہ استقبال نے اہلِ اقتدار پر حیرانی طاری کر دی ہے۔ غلام گردشوں میں ایک بار پھراکھاڑ پچھاڑ ہے اور غلام گھبرائے ہوئے دوڑے پھر رہے ہیں۔ ہمارے اظہارالحق صاحب نے اس حسنِ بیان کے ساتھ اس منظر کو منظوم کیاکہ ان کا شعرضرب المثل بن گیا:
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پر ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
یہ منظر معلوم نہیں تاریخ کے سٹیج پرکتنی بار دھرایا گیا اور ہربار اس کا سبق ایک ہی تھا: اقتدارظلم کے راستے پرچل نکلے تواس کے زوال کو روکا نہیں جا سکتا۔
بے یقینی کے اس موسم میں شیخ رشید کووزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ اہم ترین وزارت ایک ایسے آدمی کودے دی گئی جس کا تحریکِ انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ اقتدار عمران خان صاحب کے ہاتھوں میں صحیح معنوں میں تو کبھی آیا ہی نہیں۔ وہ اپنے جوشِ انتقام میں کسی دوسرے کی خواہش کو پورا کررہے تھے اور اعلان کررہے تھے کہ 'میں چھوڑوں گا نہیں‘۔ جو برائے نام اقتدار تھا، وہ بھی ان کے ہاتھ سے سرکتا جاتا رہا ہے۔ یہ تاثر بنتا جا رہا ہے کہ وہ عملاً صدر فضل الٰہی بن چکے۔
اُدھر جناب شبلی فراز ہیں کہ ایک پرانے چراغ کے ساتھ غلام گردشوں میں دوڑ رہے ہیں۔ ایک ایسا 'چراغ‘ جس کا روغن کب کا ختم ہوچکا۔ نوازشریف صاحب کی تیس سالہ پرانی تقریریں لوگوں کوسنا رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ سیاست اس کے بعدارتقا کے کتنے مراحل طے کر چکی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے کا میٹرک کا پرچہ لہراکر سب سے کہہ رہا ہوکہ ''دیکھو! اس میں سپیلنگ کی کتنی غلطیاں ہیں‘‘۔
لوگ اور وقت ایک جگہ نہیں ٹھہرتے۔ خیالات بدلتے ہیں اور حالات بھی۔ ''میثاقِ جمہوریت‘‘ ماضی کی سیاست سے دونوں کا اعلانِِ برات تھا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو لوگوں نے اسی نوازشریف کو ہسپتال میں ان کی لاش پر روتے دیکھا۔ انتخابات آئیں گے تو دونوں ایک دوسرے کے حریف ہوں گے۔ کسی مشترکہ مقصد کے لیے ایک ہونا اور اپنے اپنے انتخابی منشور کی بنیاد پر اختلاف کرنا جمہوریت کا ایک پہلو ہے۔ یہ اخلاق سے متصادم ہے نہ قانون سے۔
وزیروں مشیروں کی یہ اکھاڑ پچھاڑ مریم نواز کے اُن چند دنوں کا ثمر ہے جو انہوں نے اہلِ لاہور کے سنگ گزارے۔ نواز شریف صاحب کے ایک فون سے خان صاحب کی یادداشت واپس آ گئی اور انہیں اچانک پتا چلا کہ چوہدری شجاعت برسوں سے صاحبِ فراش ہیں۔ مریم نواز نے عوام میں قدم رکھا تو اقتدار کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا۔ اس کے بعد بھی لوگ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کا سیاسی کردار ختم ہو چکا۔
شیخ رشید اصلاً سیاست دان ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اپوزیشن کے خلاف حکومتی طاقت کا بے رحمانہ استعمال خود حکومت کے لیے کتنا مہلک ہوتا ہے۔ وہ کئی بار حادثات کے پیش گوئی کر چکے۔ یہ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ مریم نواز کی جان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ ان کا مقابلہ سیاسی طریقے سے کریں۔ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں جو ان کے محسن ہیں۔ ان کی خوبیوں کا تذکرہ وہ اپنی کتاب میں کر چکے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ خاندان اتنا ہی محبِ وطن ہے جتنا کوئی ہو سکتا ہے۔
کیا وزارتِ داخلہ کے لیے شیخ رشید جیسے سیاست دان کا انتخاب، اقتدار کے اعلیٰ ترین مرکز کی طرف سے اپوزیشن کے لیے خیر سگالی کا پیغام ہے؟ کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر میں اس امکان کو رد نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہے تو اسے نیک شگون سمجھنا چاہیے۔ اس کا اندازہ لاہور کے جلسے کے بارے میں حکومتی پالیسی سے ہو جائے گا۔
اس وقت لیکن سیاسی اضطراب اپنے عروج پر ہے۔ جلسے کی کامیابی کے امکان نے حکومت کو پریشان کر دیا ہے۔ مریم نواز کے عوامی اجتماعات نے اہلِ لاہور کا موڈ بتا دیا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں بالخصوص اہلِ پنجاب پراس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان کا اندازہ ہرسیاسی بالغ کرسکتا ہے۔ حکومت شدید دباؤ میں ہے اور اس کا امکان ہے کہ دباؤ میں کوئی غلط قدم اٹھا لے۔ حکومت کا مفاد اسی میں ہے کہ اس کے اعصاب قابو میں رہیں ورنہ یہ جلسہ فیصلہ کن سیاسی عمل بن جائے گا۔
سوشل میڈیا پر بعض افسوسناک ٹرینڈز اسی سیاسی دباؤ اور شدت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اس اخلاق باختگی کو روکنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ نون لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت کو اس بے اخلاقی کی مذمت کرنی چاہیے‘ جس کا اظہار ان ٹرینڈز میں ہو رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی ایسا فرد یا کسی جماعت کی قیادت یہ حرکت نہیں کر سکتی جس کی اپنی کوئی عزت ہے اورجو چاہتے ہیں کہ ان کے گھر کی خواتین بھی معاشرے میں محترم سمجھی جائیں۔
لاہور کے جلسے کا عمران خان صاحب کے 2011ء کے جلسے سے موازنہ درست نہیں ہو گا۔ آج کا گریٹر اقبال پارک، اس پارک سے کہیں زیادہ وسیع ہو چکا جو 2011 ء میں تھا۔ اس کو بھرنے کے لیے خان صاحب کے جلسے سے کہیں گنا زیادہ لوگ چاہئیں۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر اس تقابل کی کوئی افادیت ہو تو ہو، حکومت کے لیے لازم یہی ہے کہ وہ حقائق کا سامنا کرے۔ 'کتنے آدمی تھے‘ کا صحیح جواب ہی اُسے صحیح فیصلے تک پہنچا سکتا ہے۔