آدھی رات کا وقت تھا، جب بجلی گئی۔ اطلاعات اور بجلی کی وزارتوں نے خبر دی کہ یہ ٹیکنیکل خرابی کا نتیجہ ہے‘ بحال ہونے میں چند گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ بجلی کے جانے اور اِس خبر کے آنے میں زیادہ وقفہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود، افواہوں سے ملک کی فضا بھرگئی۔
ایک صاحب ہیں جو بزعمِ خویش عساکر کے ترجمان ہیں۔ سرخ رنگ کی ٹوپی پہنتے ہیں اور ہر وقت جسم کو ہتھیاروں سے سجائے رکھتے ہیں کہ کیا معلوم کب جہاد کے لیے نفیرِ عام ہو جائے۔ انہوں نے پوری قوم کو کسی بڑے واقعے کے لیے تیار کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ایئرفورس 'ریڈ الرٹ‘ ہے۔ نہیں معلوم کتنوں کی رات اضطراب میں گزری ہوگی۔
بات محض اور صرف اتنی ہوتی تو گوارا تھی کہ کون سا ملک ہے جہاں افواہیں گردش نہیں کرتیں۔ یہاں مگر بات اس سے بڑھ چکی۔ ان افواہ سازوں کو ٹی وی پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے۔ انہیں ' تجزیہ کار‘ کا معتبر لقب دیا جاتا ہے اور ٹی وی میزبان ان کے ساتھ پوری سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہیں۔ گویا ہمارا مسئلہ افواہ نہیں، افواہوں کا کاروبار ہے۔ یہ حضرات جو کچھ بتاتے ہیں، انہیں کبھی حقائق کے معیار پرنہیں پرکھا گیا۔ کسی نے یہ بھی نہیں سوچاکہ انہوں نے عوام کے ذہن پر کیا اثرات مرتب کیے۔
افواہیں جب کاروبار بنتی ہیں تو الزامات کے ساتھ شراکت کرلیتی ہیں۔ سماج اگر بیدار مغز نہ ہو تو ایسے تاجروں کو ایک مارکیٹ میسر آ جاتی ہے۔ ان کا کاروبار دن دگنی‘ رات چوگنی ترقی کرتاہے۔ دوسری طرف سماج کی اخلاقی اور شعوری بنیادیں کمزور ہونے لگتی ہیں۔ چنانچہ پرکھ کا نظام برباد ہو جاتا ہے‘ پھر نجیبوں کی پگڑیاں اچھلتی ہیں اور رذیلوں کو منصب عطا ہوتے ہیں۔
افواہوں کا کاروبار وہاں کامیاب ہوتا ہے جہاں مصدقہ اطلاعات کا نظام کمزور ہو۔ اگر ذرائع ابلاغ آزاد ہوں اوربات کہنے سننے کی آزادی ہوتو خبر اور افواہ میں پرکھ آسان ہو جاتی ہے۔ پھر افواہیں پھیلانے والے بھی محتاط ہو جاتے ہیں کہ ان کاجھوٹ پکڑا جاسکتا ہے۔ آزاد معاشروں میں ایسے اخبارات اور ٹی وی چینل اپنی ساکھ کھودیتے ہیں۔ سب ان سے واقف ہوتے اور جانتے ہیں کہ ان کی خبرکو سنجیدہ نہیں لیاجا سکتا۔
خبر کی سچائی کا آخری فیصلہ عوام کوکرنا ہوتا ہے۔ وہ افواہ اورخبر میں اسی وقت فرق کر سکتے ہیں جب ان کی شعوری سطح بلند ہو۔ جہاں فکری آزادی میسر نہ ہو، سیاسی خیالات کو پھیلنے کی اجازت نہ ہو۔ عوام کی رائے پر اعتماد نہ کیا جاتا ہو، وہاں لوگوں کی شعوری سطح کبھی بلند نہیں ہو سکتی۔ پھر وہ افواہوں کی زد میں رہتے ہیں اور افواہ سازوں کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔
یہ سماجی اور ریاستی ادارے ہیں جو لوگوں کی تربیت کرتے ہیں۔ جیسے مدرسہ ایک سماجی ادارہ ہے، جدید تعلیم کے لیے وقف ہو یا قدیم دینی تعلیم کے لیے۔ یہ مہتمم اور استاد کا کام ہے کہ طالب علم کی شعوری سطح کو بہتر بنائے۔ اس میں صحیح اور غلط کی پرکھ پیدا ہو۔ وہ کسی ایک مکتب فکر کا قیدی نہ ہو۔ اس کا جو بھی انتخاب ہو، شعوری ہو۔
اسی طرح خانقاہ کا ادارہ ہے۔ یہ سماج کی اخلاقی تربیت کے لیے وجود میں آیا تھا۔ ایک گدی نشین کا کام یہ دیکھنا ہے کہ خانقاہ اپنا وظیفہ کیسے سرانجام دے رہی ہے۔ خانقاہ روحانی تربیت کا مرکز ہے یا دنیاوی وسائل جمع کر نے کا ایک ادارہ؟ عوام کو وہاں سے کیا مل رہا ہے؟ ان کے توہمات کی آبیاری ہو رہی ہے یا ان کے نفس کا تزکیہ؟ جو گدی نشین محض مجاور ہے اور اصل فریضے سے غافل ہے، وہ ایک اہم سماجی ادارے کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ سماج کا زوال ہے۔
میڈیا ایک جدید سماجی ادارہ ہے۔ اس کا کام سماج پر نظر رکھنا ہے۔ اس نے دیکھنا ہے کہ سیاسی اور سماجی ادارے، کیا اپنا کام صحیح طرح سے سرانجام دے رہے ہیں؟ یہ وہی کام کر رہے ہیں جو سماج نے ان کو سونپا ہے یا اس سے منحرف ہو چکے؟
اسی طرح ریاستی ادارے ہیں۔ ان کا بھی ایک کام ہے جو اس عمرانی معاہدے میں درج ہے‘ جو آئین کی صورت میں موجود ہے۔ کیا وہ اس کے دائرے میں رہتے ہیں یا اپنے دائرے کا تعین خود کر رہے ہیں؟ ہر منحرف اور حد سے تجاوز کرنے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ سماج کو صحیح خبر سے محروم رکھا جائے‘ اس کی شعوری تربیت نہ ہو کہ وہ سماج اور اداروں کی کارکردگی کو جانچ سکے۔
اس کے لیے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ لوگوں کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سماج کا ایک بڑا طبقہ اب افواہوں پر یقین کر لیتا ہے۔ یوں اچھے کو برا اور برے کو اچھا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے گرد دیانت اور بد دیانتی کے مصنوعی حصار کھڑے کیے جاتے ہیں۔ رائے عامہ کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ کوئی اس پر غور نہیں کرتا کہ ایک وقتی فائدے یا چند سال کی نوکری کے لیے قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا نے افواہوں کے فروغ کو مہمیز دے دی۔ اب افواہوں کے پھیلاؤ پر کسی ایک طبقے کی اجارہ داری نہیں رہی۔ یہ ہتھیار کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے، بلکہ استعمال کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دی جا چکیں اور افواہوں کا ایک سیلاب ہے، عوام جس کی گرفت میں ہیں۔ حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ اس کاروبارپر ریاست کی اجارہ داری ہواوریہ اب ممکن نہیں رہا۔
یہ قومی ذرائع ابلاغ کا کام ہے کہ وہ ابلاغی انارکی کے اس موسم میں خبر کا بھرم قائم کریں۔ عوام کو یہ معلوم ہوکہ ہمیں یہاں سے درست خبر مل سکتی ہے۔ لوگ اگر کسی افواہ کی حقیقت کو پرکھنا چاہیں تو ان کی طرف رجوع کریں۔ اگر ابلاغی ادارے افواہ سازوں کو مبصر بنا کر اعتبار بخشیں گے تو پھر خبر کی حرمت کیسے باقی رہ سکے گی؟ جس طرح ہمارے حکمران پانچ سال سے آگے نہیں سوچ سکتے، آج کے بعض ٹی وی میزبان ایک گھنٹے سے آگے دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘ نہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
سنیچر کی شب جو کچھ ہوا، اس نے خبر کی سچائی کی ضرورت کو نمایاں کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ کیسے لوگ ایسی صورتحال میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی بھارت کے ساتھ جنگ کے خواب کی تعبیر دیکھ رہا ہے اور کوئی اپنی پیشگوئی کو سچ ثابت ہوتا دیکھ رہا ہے۔ ہر کوئی عوام کو مضطرب دیکھنا اور رکھنا چاہتا ہے۔ جہاں ہیجان کو ایک شعوری کوشش سے پھیلایا جائے، وہاں ایسے لوگ ہی سامنے آتے ہیں۔
سماج افواہ سازوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ عوام کی شعوری سطح کو بلند کرکے ہی ان کا اعتبار ختم کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کو یہ کام کرنا تھا، آج وہ افواہوں کے پھیلانے میں شریک ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہی کر رہے ہیں اور خانقاہ کا مجاور بھی افواہوں میں اپنا رزق تلاش کر رہا ہے۔ یہ علم ہے جو افواہوں کو ختم کر سکتا ہے۔ علم شعور پیدا کرتا ہے اور علم سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔
عوام کو ان طبقات کی غلامی سے نکالنا ضروری ہے جن کا کاروبار افواہوں سے چلتا ہے۔ علامہ اقبال نے ایسے سماجی طبقات کی طرف توجہ دلائی تھی جن سے رہائی لازم ہے۔ مجاور، ملا، جاگیردار‘ یہ سب طبقات عوام کو ذہنی غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ اب ان میں ریاستی ادارے بھی شامل ہو چکے۔ یہ سب ذرائع ابلاغ پر اپنے اپنے نمائندے بھیج دیتے ہیں جو عوام میں افواہیں پھیلاتے ہیں، کوئی دفاعی تجزیہ کار بن کر اور کوئی سیاسی مبصر بن کر۔ ان کا سچ جھوٹ عوام کا شعور ہی پرکھ سکتا ہے اور عوام کی شعوری آزادی کے لیے جمہوری معاشرہ ضروری ہے۔