سائنس نے اس بار مذہب کے لیے جو چیلنج کھڑا کیا ہے‘ وہ ماضی کے مقابلے میں سنگین تر ہے۔ ہمارا قدیم علمِ کلام شاید اس کا سامنا نہ کر سکے۔
سائنس ماورائے مذہب ایک تحقیقی عمل ہے۔ وہ اپنے جوہر میں مذہب کی حامی ہے نہ مخالف۔ سائنس تصورِ حیات (worldview) نہیں ہے‘ ایک عمل (process) ہے۔ مذہب البتہ تصورِ حیات ہے۔ سائنس جب کوئی نیاانکشاف کرتی ہے تو یہ ایک تصورِ حیات کی ناگزیر ضرورت ہے کہ اس کا نظری ڈھانچہ اسے قبول کرتا ہو یا کم ازکم اس سے متصادم نہ ہو۔ کل تک مذہب نے اپنا یہ مؤقف‘ بڑی حد تک‘ ثابت کیا ہے کہ کوئی سائنسی دریافت اس کے بنیادی مقدمات سے متصادم نہیں ہے۔ اس بار مجھے صورتِ حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔
مذہب کا تصورِ انسان چند مقدمات پر کھڑا ہے۔ ایک مقدمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیروشر کے شعور کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس کی ایک فطرت ہے اور یہ غیر متبدل ہے۔ انسان تک اگر کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی‘ تو بھی وہ اس شعور کی بنیاد پر خدا کے حضور میں جواب دہ ہے جو اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں‘ نیکی اور بدی کا یہ شعور اسے الہام کر دیا گیا ہے۔
اسی مقدمے کی ایک فرع یہ ہے کہ انسان اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے جو اس کے مادی وجود سے الگ ہے۔ جس طرح اس کے مادی وجود کے مطالبات ہیں‘ اسی طرح اس کے اخلاقی وجود کے بھی مطالبات ہیں۔ مذہب کا اصل مخاطب یہ اخلاقی وجود ہے اور وہ اس کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔ جنہیں ہم اخلاقی اوصاف کہتے ہیں جیسے محبت‘ ایثار یا منفی حوالے سے حسد‘ نفرت‘ ان کا مرکز یہی وجود ہے۔
سائنس کی نئی دریافتوں نے اس مقدمے کو چیلنج کردیا ہے۔ 1970ء کی دہائی سے‘ جب سے جینز کی انجینئرنگ (Genetic Engineering) کا دور شروع ہوا‘ یہ چیلنج کھڑا ہو گیا تھا لیکن اب اکیسویں صدی میں یہ ایک عملی حقیقت میں ڈھل چکا۔ ہم اس کے مظاہر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک بھیڑ 'ڈولی‘ کی 'تخلیق‘ سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اب بات کہیں آ گے جا چکی۔
اس کا نیا باب کرسپر (CRISPR) ٹیکنالوجی ہے۔ 2020 ء میں کیمسٹری کا نوبیل انعام دو امریکی خواتین سائنس دانوں کو ملا جنہوں نے یہ ٹیکنالوجی دریافت کی۔ یہ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ ڈی این اے سے تو اب سب واقف ہیں۔ وہ بنیادی تخلیقی مالیکیول جس پر ہماری شخصیت کا خاکہ لکھا ہوا ہے اور جو ہمیں وراثت میں ملتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم اس خاکے کو حسبِ خواہش تبدیل کر سکتے ہیں۔
اس مالیکیول میں ہمارا رنگ‘ قد اور امراض سمیت بہت سے امور جینز کی صورت میں لکھے ہوئے ہیں جو ہمیں والدین سے وراثت میں ملتے ہیں۔ گویا ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ مرقوم ہے۔ اب ہم اس میں سے بعض مضامین نکال سکتے اور ان کی جگہ اپنی مرضی کے مضامین شامل کر سکتے ہیں۔ آج انسان ڈی این اے کی ایڈیٹنگ پر قادر ہو چکا ہے۔ ڈی این اے کی تبدیلی کا مطلب شخصیت کی تبدیلی ہے۔
'کرسپر‘ ٹیکنالوجی نے اسے ایک ایسی سطح تک پہنچا دیا ہے کہ اب یہ بہت سہل بھی ہے اورقابلِ فہم بھی۔ اس کے تحت تو اب یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی جنین (embryo) کو تبدیل کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر دل کی بیماری موروثی ہے۔ کرسپر ٹیکنالوجی سے یہ کامیاب تجربہ کیا جا چکا کہ اس بیماری کا سبب بننے والی جین کو ایک صحت مند جین سے تبدیل کر دیا جائے۔
گویا انسان یہ قدرت رکھتا ہے کہ انسان کی تخلیق میں حسبِ خواہش تبدیلی لا سکے۔ اس کی شخصیت‘ شکل وصورت‘ ہر بات کوبدل ڈالے۔ اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت کو تبدیل کردے۔ ماضی میں جب یہ بات کہی گئی تو مذہبی علمِ کلام نے اس کا جواب دیا۔ مثال کے طور پر جب انسان اس پر قادر ہوگیا کہ وہ ماں کے پیٹ میں موجودبچے کی جنس کی یقینی خبردے تواسے مذہب کے لیے چیلنج کہا گیا۔ مذہبی مقدمے میں خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟
ہمارے علمِ کلام نے اس کا جواب یہ دیا کہ پیدا ہونے والے بچے سے مراد محض اس کی جنس نہیں‘ اس کی پوری شخصیت ہے۔ آپ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ نیک ہوگایا بد۔ مذہب تو پوری شخصیت کی بات کر رہا ہے کہ اسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آج سائنس نہ صرف پوری شخصیت کی خبر دے رہی ہے بلکہ یہ بھی بتا رہی ہے کہ وہ اس شخصیت کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اس دریافت نے بظاہر قدیم علمِ کلام کو متروک کر دیا۔
یہی معاملہ اخلاقی وجود کا بھی ہے۔ سائنس نے دکھا دیا کہ یہ مادی وجود سے الگ نہیں ہے۔ اس کا تعلق بھی جینز سے ہے اور اسے بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے احساسات‘ جذبات سب کا مرکز یہی حیاتیاتی وجود ہے جو ڈی این اے سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ واقعہ ہے۔ اس کا تجربہ مادہ چوہوںپر کیاگیا۔ ان کے ڈی این اے سے آکسی ٹوسن ہارمون پیدا کرنے والے جین کو نکال دیاگیا‘ جو 'ممتا‘ کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ ایسے مادہ چوہوں نے اپنے بچوں کے بارے میں کسی ایسے جذبے کا اظہار نہیں کیا جوماں کے ساتھ خاص ہے۔
یہ تجربہ ابھی انسانوں پر نہیں ہوا لیکن کسی لمحے ہو سکتا ہے۔ یہ اب ممکن ہو گیا ہے کہ ہم اپنی مرضی کے انسان پیدا کر سکیں۔ ان میں وہ خواص ہوں جو ہم چاہتے ہیں۔ ہم چاہیں تو انہیں درد کے احساس سے بے نیاز کر دیں۔ ان کی موروثی بیماریاں ختم کر دیں۔ ان سے رحم دلی کا جذبہ چھین لیں۔ وہ صرف جنگجو ہوں جنہیں انسانی جان لینے میں کوئی عار نہ ہو۔ گویا ہم ان کے تصورِ اخلاق کی تشکیلِ نو کردیں۔ اس راہ میں کوئی عملی رکاوٹ باقی نہیں۔
گویا کرسپر ٹیکنالوجی نے مذہب کے تصورِ انسان کو چیلنج کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جزاوسزا‘ انسانی فطرت‘ اخلاقی وجود سمیت مذہب کے تمام بنیادی مقدمات اس کی زد میں ہیں۔ میرے خیال میں اسلام کو سائنس کی طرف سے اتنے بڑے چیلنج کا‘ اس سے پہلے سامنا نہیں ہوا۔ ہمارے موجودعلمِ کلام کے پاس‘ اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔
مستقبل میں ہم ایک ایسے انسان کو دیکھ رہے ہیں جو خیروشر کے اس شعور سے عاری ہے جس کے بارے میں کہا گیاکہ اس کے اندرالہام کیا گیا ہے۔ جب الہام کا مستقرہی نہیں رہاتو انسان کا طرزِ عمل‘ اس پر کیسے مبنی ہو سکتاہے؟ مذہب کامقدمہ کھڑا ہی اس پر ہے کہ انسان اصلاً اس الہام کی بنیاد پر جوابدہ ہے یا اس نے کوئی عہدِ الست کررکھا ہے۔ جب انسانی یادداشت باقی نہ رہی اور شعور بھی تبدیل ہو گیا تو اب جواب دہی کس بنیاد پر ہوگی؟
ایک مذہبی آدمی ہوتے ہوئے‘ میں اب تک یہی خیال کرتا آیا ہوں کہ سائنس اورمذہب کے میدان الگ الگ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ اب مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ مذہب کا تصورِ انسان براہ راست سائنس کی زد میں ہے۔ اب تک مولانا وحیدالدین خان جیسے سکالرز سائنسی دریافتوں کو مذہب کا مقدمہ ثابت کرنے کیلئے بطوردلیل پیش کرتے آئے ہیں۔ اب سائنس معاون قوت کے بجائے ایک مدِمقابل قوت کے طور پر سامنے کھڑی ہے۔ طبیعات اور مابعدالطبیعات کی سرحدیں آپس میں مل گئی ہیں۔ مجھے مذہب کے نئے علمِ کلام کا انتظار ہے۔
(کرسپر ٹیکنالوجی کے بارے میں بنیادی معلومات ڈاکٹر رضوان احمد صاحب کے ایک مضمون سے مستعار ہیں جو ماہنامہ ''زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی (دسمبر 2020ئ) میں شائع ہوا اور پاکستان میں ''معارف فیچر‘‘ کراچی نے نقل کیا)